’کافی شاپ پر سب مجھے ایسے گھور رہے تھے جیسے انھوں نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو‘

بچپن میں بدترین بدسلوکی اور بُلیئنگ کا شکار رہنے والے امِت گھوش کہتے ہیں کہ آج بھی انھیں مسلسل گھورے جانے، ان کی جانب اشارے کیے جانے اور ان کے چہرے کے متعلق تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ ایک بار ایک کیفے نے تو ان کے چہرے کی وجہ سے سروس دینے سے انکار کر دیا۔
امت'نیوروفائبرومیٹوسِس ٹائپ-1' نامی بیماری کے ساتھ پیدا ہوئے تھے
BBC
امت ایک ایسی بیماری کے ساتھ پیدا ہوئے جسے 'نیوروفائبرومیٹوسِس ٹائپ-1' کہا جاتا ہے

بچپن میں بدترین بدسلوکی اور بُلیئنگ کا شکار رہنے والے امِت گھوش کہتے ہیں کہ آج بھی انھیں مسلسل گھورے جانے، ان کی جانب اشارے کیے جانے اور ان کے چہرے کے متعلق تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ ایک بار ایک کیفے نے تو ان کے چہرے کی وجہ سے سروس دینے سے انکار کر دیا۔

35 سالہ امت انگلینڈ کے مغرب میں واقع شہر برمنگھم کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں وہ لندن کے ایک کافی شاپ میں گئے تو ’سب مجھے ایسے گھور رہے تھے جیسے انھوں نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔‘

’جو خاتون سروس دے رہی تھیں انھوں نے مجھے دیکھا اور کہا: ’اوہ، ہم اب مزید سروس نہیں دے رہے۔‘

’پھر وہ پلٹ کر چل دیں، حالانکہ واضح طور پر وہ اب بھی دوسروں کو سروس دے رہی تھیں۔‘

امت ایک ایسی بیماری کے ساتھ پیدا ہوئے جسے ’نیوروفائبرومیٹوسِس ٹائپ-1‘ کہا جاتا ہے، جس کے باعث اعصاب کے ساتھ بغیر کینسر والی رسولیاں (گلٹیاں) بننے لگتی ہیں۔

لیکن انھوں نے اب اپنے چہرے کی بگڑی ہوئی ساخت کو’قبول کرنا سیکھ لیا ہے‘ اور اس کے بعد اب وہ سکولوں میں جا کر اپنی کہانی بچوں سے شیئر کرتے ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ان جیسے بچے بھی ’اپنی شخصیات کو قبول کریں اور اپنے آپ پر فخر کر سکیں۔‘

حال ہی میں ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے ایک اور واقعے نے انھیں ایسے بچوں کے لیے کتاب لکھنے کی ترغیب دی مختلف تھے۔ اس کتاب کا نام انھوں نے 'بارن ڈفرنٹ' رکھا اور اسے خود سے شائع کیا۔

امت نے بتایا: 'پارک میں کچھ لوگ میرے پاس آئے اور انھوں نے میرے چہرے کے بارے میں سوال کیا۔ پہلے تو لگا کہ وہ محض جاننا چاہتے ہیں لیکن پھر مجھ پر ہنسنے لگے اور میرا مذاق اُڑانے لگے۔'

'وہ کہنے لگے: 'اوہ میرے خدا، اگر ہمارا چہرہ تم جیسا ہوتا تو ہم تو کبھی گھر سے باہر ہی نہ نکلتے۔'

امت کہتے ہیں کہ اس واقعے نے انھیں حقیقتا 'بہت پریشان' کر دیا۔

'میں نے سوچا، مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ مجھے اس بارے میں کتاب لکھ کر لوگوں تک پہنچانی چاہیے۔ یہی وقت ہے۔'

'اگر میرے بچپن میں میرے پاس ایسی کوئی کتاب ہوتی، تو شاید مجھے بہت مدد ملتی۔'

امت کی عمر جب 11 سال تھی تو ان کی بائیں آنکھ نکال دی گئی، جس سے چہرے کی ساخت مزید متاثر ہوئی اور انھیں مزید تضحیک اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک بار ہیلووین سے پہلے سکول میں ایک بچے نے ان سے کہا: 'تمہیں ہیلووین ماسک کی ضرورت نہیں، تمہارے پاس تو عمر بھر کے لیے ایک ماسک ہے۔

'یہ جملہ میرے لیے اتنا توڑ دینے والا تھا کہ میں نے چہرے کے بائیں حصے کو تسلیم کرنا چھوڑ دیا۔'

انھوں نے مزید کہا: 'ایک طویل عرصے تک میں اپنا چہرہ چھپاتا پھرتا تھا، میں اسے دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔'

ماضی کو یاد کرتے ہوئے امت کہتے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کی شدت کو سمجھ نہیں پاتے تھے۔

'جب دوسرے بچے میرے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے تھے یا اپنے والدین کے پیچھے چھپ جاتے تھے، تو اس کا میرے ذہن پر گہرا اثر ہوتا تھا۔'

تاہم سکول میں کرکٹ ان کا شوق بن گیا، اور اسی کھیل کے ذریعے وہ دوست بنانے میں کامیاب ہوئے۔

وہ کہتے ہیں: 'کرکٹ نے مجھے وہ امت بنایا جو کرکٹ کھیلتا ہے، نہ کہ وہ امت جس کا عجیب چہرہ ہے۔'

مگر وہ کہتے ہیں کہ بالغ ہونے کے باوجود اب بھی انھیں 'مسلسل گھورے جانے' کا سامنا رہتا ہے۔

'لوگ انگلی سے اشارہ کرتے ہیں، اپنے ساتھ کھڑے دوست کو کہنی مار کر کہتے ہیں: 'کیا تم نے اس بندے کا چہرہ دیکھا؟' یہ سب کچھ مسلسل ہوتا ہے۔

لیکن دنیا میں مہربان لوگ بھی موجود ہیں، اور اس کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔'

’مجھے قبول کریں یا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں‘

امت بتاتے ہیں کہ ان کی اہلیہ پیالی نے ہی انھیں خود کو 'قبول کرنے کا فن' سکھایا۔

'انھوں نے مجھے یہ سکھایا کہ مجھے سب سے پہلے خود ہی اپنے آپ کو قبول کرنا ہوگا، تبھی دوسرے لوگ بھی مجھے قبول کریں گے۔'

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی اہلیہ نے ہی انھیں اپنی کہانی سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر آمادہ کیا۔

'مجھے لگا تھا ٹک ٹاک صرف گانے اور ناچنے کے لیے ہے، اور شاید یہ میرے لیے نہیں، مگر انھوں نے مجھے قائل کیا۔

'میں نے ایک ویڈیو بنائی اور دنیا سے کہا: 'میں چاہتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ ایک سفر پر چلیں، تاکہ میری ذاتی کہانیوں سے آپ کو ہمت، مدد اور حوصلہ ملے۔'

انھوں نے دو سال قبل سنہ 2023 کے آغاز میں سوشل میڈیا پر اپنا اکاؤنٹ شروع کیا، اور اب تک ان کے تقریباً 2 لاکھ فالوورز ہیں انھیںلاکھوں لائکس مل چکے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'میں جب سوشل میڈیا پر اپنی کہانی دوسروں سے شیئر کر کے ان کی مدد کرتا ہوں، تو یہ عمل مجھے بھی خود کو مزید قبول کرنے میں مدد دیتا ہے۔'

'اب میں دنیا سے کہتا ہوں: میں ایسا ہی ہوں، قبول کرو یا رہنے دو۔'

اسی دوران، امت نے وکالت کے شعبے میں اپنی نوکری چھوڑ کر مکمل طور پر موٹیویشنل سپیکنگ کو اپنا پیشہ بنا لیا۔

وہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کی مدد کرنا انھیں کہیں زیادہ اہم محسوس ہوا۔

امت جلد ہی ایک پوڈکاسٹ بھی شروع کرنے جا رہے ہیں جس میں وہ ایسے افراد سے بات کریں گے جنھیں ان جیسے تجربات کا سامنا رہا ہے۔ ان میں اولیور بروملی بھی شامل ہیں جنھیں ریسٹورنٹ سے اس لیے نکال دیا گیا کیونکہ عملے کا کہنا تھا کہ وہ 'گاہکوں کو ڈرا رہے ہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ اس نئے سفر پر ’ہم بہت کچھ سیکھیں گے، بہت مزہ کریں گے، اور بہت سے لوگوں کو متاثر کریں گے۔‘

’چاہے کوئی معذوری ہو یا نہ ہو، ظاہری فرق ہو یا نہ ہو، ہم سب میں کہیں نہ کہیں تھوڑا عدم تحفظ ہوتا ہے، ہم سب کسی نہ کسی چیلنج کا سامنا کرتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں: ’میں صرف یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم واقعی خود کو ماننا سیکھ لیں، خود کو قبول کر لیں، اور خود سے محبت کرنے لگیں تو ہم زیادہ پُراعتماد بن سکتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.