پرویز مشرف کے بیٹے بلال مشرف نے پہلی بار اپنے والد کی زندگی، ان سے تعلق، اور ان کے آخری ایام پر کھل کر بات کی، اور اپنے جذبات کو اس انداز میں بیان کیا کہ ہر سننے والا خاموشی سے سننے پر مجبور ہو گیا۔
نادر علی کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے بلال نے اعتراف کیا: "میرے اور بابا کے تعلق میں اکثر سختی رہی، اردو بولنے والے گھروں میں یہ عام سی بات ہے کہ اپنے بچوں سے جذبات کا اظہار کم کیا جاتا ہے، اور رشتہ اکثر تنقید سے جُڑا ہوتا ہے۔ میں بھی ان سے سختی سے پیش آتا رہا، خود پر لازم سمجھتا تھا کہ ان پر ہونے والی تنقید یا غلط فہمیوں کی نشاندہی کروں۔"
انہوں نے مزید کہا: "آخری دنوں میں میں نے ان سے معذرت کی، صاف لفظوں میں کہا کہ میں آپ سے اکثر سخت ہو جاتا تھا، اس پر مجھے افسوس ہے۔ تو بابا نے مسکرا کر کہا: 'کوئی بات نہیں، بھول جاؤ، فکر نہ کرو۔' مجھے معلوم تھا کہ انہیں دکھ ضرور ہوا تھا، لیکن انہوں نے مجھے کھلے دل سے معاف کر دیا۔"
بلال کے جذبات صرف ایک بیٹے کے نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کے عکاس ہیں جس نے خود کو اپنی محنت اور جدوجہد سے منوایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے دادا، پاکستان بننے کے بعد جب دہلی سے ہجرت کرکے جیکب آباد پہنچے، تو ایک چھوٹے سے سرکاری کوارٹر میں رہائش ملی اتنا چھوٹا کہ ایک وقت میں 28 لوگ اس چھت تلے رہنے پر مجبور تھے، اور اس مکان میں دروازہ تک نہیں تھا۔
بلال کہتے ہیں کہ ان کے دادا کے مطابق پرویز مشرف کا سفر کبھی بھی آسان نہ تھا، نہ تعلیم میں، نہ زندگی میں۔ ناظم آباد کی خاک چھاننے سے لے کر صدر پاکستان بننے تک کا راستہ مشرف نے اپنے قدموں سے طے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی محنتی، ضدی اور مقصد کے پکے تھے اور یہی خصلتیں انہیں آگے لے گئیں۔
پرویز مشرف کا سیاسی سفر 12 اکتوبر 1999 سے شروع ہوا جب انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کا منصب سنبھالا۔ ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب ہوئے اور پھر 2004 میں 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے باوردی صدر بن گئے۔
لیکن اقتدار کا ہر سفر آخرکار انجام کو پہنچتا ہے۔ 2008 میں وہ صدارت سے مستعفی ہو کر ملک سے رخصت ہو گئے۔ ان کے آخری ایام دبئی میں بیماری کے ساتھ گزرے ایک ایسے وقت میں جب وہ نہ صرف جسمانی طور پر کمزور تھے بلکہ برسوں کی تنقید، مقدمات اور جلاوطنی کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر تھا۔