پاکستان تحریک انصاف نے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے ایک اور تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے، تاہم قیادت کی جانب سے تاحال حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے ایک طرف کارکنوں کو تحریک کے لیے بھرپور تیاری کی ہدایات دی جا رہی ہیں تو دوسری جانب رہنماؤں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ورکرز ناراض نظر آرہے ہیں۔
پشاور میں 26 مئی کو ہونے والے احتجاجی جلسے میں پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی قیادت غیر حاضر رہی، ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں وزیراعلٰی خیبر پختونخوا سمیت بیشتر ارکان اسمبلی شریک نہ ہوئے۔
پارٹی رہنماؤں کے اس رویے کی وجہ سے کارکنوں نے اپنی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پی ٹی آئی کے احتجاج میں اسد قیصر، شاندانہ گلزار خان اور صوبائی وزیر مینہ خان موجود تھے جبکہ صوبائی صدر جنید اکبر اور ایم این اے عاطف خان احتجاج کے اختتام پر پہنچے۔
سینیئر قیادت کے خلاف نعرے بازی
پی ٹی آئی کے احتجاج میں وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور کی عدم شرکت پر ورکرز کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔
احتجاج میں تاخیر سے پہنچنے پر جنید اکبر خان کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی اور انہیں تقریر کرنے کا موقع تک نہ ملا۔
پی ٹی آئی کے ایک سینیئر کارکن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پارٹی کے جلسوں میں قیادت کی غیر حاضری سے کارکنوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ وقت کارکنوں کو یکجا کرنے کا ہے، اگر قیادت آپس میں اختلافات کے باعث اسی طرح سیاسی سرگرمیوں سے دُور رہی تو عمران خان کی رہائی کی تحریک کو نقصان پہنچے گا۔‘
پارٹی ورکر کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کے چند رہنما صرف اقتدار کے مزے لینے میں مصروف ہیں اور وہ عمران خان کی رہائی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔‘
اس معاملے پر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے سیکریٹری اطلاعات ملک عدیل اقبال کا موقف تھا کہ ’پشاور کے جلسے میں پارٹی کی تمام قیادت موجود تھی۔‘
پی ٹی آئی کے احتجاج میں علی امین گنڈاپور کی عدم شرکت پر ورکرز نے سخت تنقید کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’جنید اکبر خان اور دیگر رہنما ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے رش میں پھنس گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ تاخیر سے پہنچے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان کی آزادی کی تحریک کے لیے تمام رہنما ’ایک پیج پر ہیں‘ اور ہم بہت جلد تحریک شروع کرنے جا رہے ہیں جس کے لیے تیاری ہو رہی ہے۔‘
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے ترجمان ملک عدیل اقبال نے مزید کہا کہ ’کارکن واپس نہ آنے کے لیے نکلیں گے اور اس مرتبہ ایک الگ حکمتِ عملی کے ساتھ نکلیں گے۔‘
ترجمان وزیراعلٰی خیبر پختونخوا فراز مغل کا کہنا تھا کہ ’ہم علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پوری تیاری کے ساتھ نکلیں گے۔ وزیراعلٰی کا جنید اکبر کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں اور دونوں صرف عمران خان کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘
’پی ٹی آئی میں چین آف کمانڈ ٹُوٹ چکی ہے‘
خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی محمود جان بابر کی رائے ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کی ’چین آف کمانڈ‘ ٹُوٹ چکی ہے اور اس کی زیادہ ذمہ داری جیل میں موجود بانی چیئرمین پر عائد ہوتی ہے۔‘
صحافی محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ’تحریک سے قبل پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے اندر ڈسپلن لانا پڑے گا‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
ان کے مطابق ’عمران خان الگ الگ شخصیات کو الگ الگ ٹاسک سونپ رہے ہیں، علی امین گنڈاپور کو کچھ کہا جاتا ہے، جنید اکبر کو الگ ہدایات دی جاتی ہیں جبکہ علیمہ خان کے ذریعے کچھ اور پیغام دیا جاتا ہے۔‘
محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ’یہ سب رہنما ایک پیج پر ہیں اور نہ ہی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کا کوئی سٹرکچر موجود ہے۔‘
’جیل میں قید عمران خان کی ہدایت پر ہر رہنما الگ الگ طریقے سے عمل کر رہا ہے، صوبے میں اس وقت الگ الگ پاور ہاؤسز موجود ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اسد قیصر کا الگ گروپ ہے، اسی طرح جنید اکبر کا الگ جبکہ علی امین گنڈاپور کا ایک الگ پاور ہاؤس ہے۔ مشتاق غنی اور سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی نے اپنا الگ گروپ بنا رکھا ہے۔‘
سینیئر صحافی محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ تحریک سے قبل تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے اندر ڈسپلن لانا پڑے گا کیونکہ اس وقت لابنگ سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘