انڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

انڈیا نے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر جیٹ کی تیاری کی منظوری دے دی ہے، جس کا پروٹو ٹائپ پرائیویٹ کمپنیوں کے اشتراک سے بنایا جائے گا۔ یہ دفاعی خود انحصاری کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، مگر یہ منصوبہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے اور دفاعی ماہرین اسے کیسے دیکھ رہے ہیں؟
getty
Getty Images

انڈیا کی وزارت دفاع نے جدید ترین ’ففتھ جنریشن سٹیلتھ‘ جنگی طیارے ملک میں بنانے کی منظوری دیتے ہوئے دفاعی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ اِن جنگی طیاروں کے پروٹو ٹائپ بنانے کے لیے اظہارِ دلچسپی کی دستاویزات جمع کروائیں۔

فضائی جنگ کے لیے انتہائی کار آمد سٹیلتھ فائٹر جیٹ فی الحال صرف امریکہ، روس اور چین ہی تیار کر رہے ہیں۔

انڈین دفاعی ماہرین کے مطابق انڈین فضائیہ کی جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنے کا یہ ایک بڑا منصوبہ ہے اور اس منصوبے میں پرائیوٹ کمپنیوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ’ایڈوانسڈ میڈیم کمبیٹ ائیر کرافٹ‘ (یعنی اے ایم سی اے کے) ایکزیکیوشن ماڈل کی منظوری دی ہے اور اسے تیار کرنے کی ذمہ داری انڈین حکومت کی ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی کو دی گئی ہے۔

ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی اس منصوبے کو انڈیا میں کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کے اشتراک سے سرانجام دے گی۔ وزارتِ دفاع کی طرف سے جاری کیے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ منصوبہ ملکی مہارت، صلاحیت اور اہلیت کو سٹیلتھ فائٹر جیٹ کے تجرباتی ماڈل کو تیار کرنے میں بروئےکار لانے کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ انڈیا کے ایروسپیس شعبے میں خود انحصاری حاصل کرنے میں سنگ میل کی حیثیت کا حامل ہو گا۔‘

انڈیا کا سرکاری ادارہ ’ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ‘ ایک ایسی دفاعی کمپنی ہے جو جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر بنانے کا تجربہ رکھتی ہے۔ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ نے انڈیا کا پہلا لائٹائیر کمبیٹ ائیر کرافٹ ’تیجس‘ بنایا ہے جو انڈیا کی فضائیہ اور بحریہ میں شامل ہے۔

اب جو ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر جیٹ بنایا جائے گا اس کی ذمہ داری ایروناٹیکل ڈویلمپنٹ ایجنسی کو دی گئی ہے اور یہ ایجنسی جلد ہی پرائیوٹ کمپنیوں سے اشتراک کے لیے ’انسٹرومنٹ آف انٹرسٹ‘ جاری کرے گی۔ یاد رہے کہ انڈیا میں ’ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹم لمیٹڈ‘ ایک ایسی پرائیوٹکمپنی ہے جو دفاعی جہاز بنانے اور اسمبل کرنے کی مہارت رکھتی ہے۔

انڈین دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اس لیے عین ممکن ہے کہ دفاعی ساز وسامان بنانے والی دوسری پرائیوٹ کمپنیاں غیر ملکی کمپنیوں کے اشتراک سے اس مقامی پراجیکٹ میں شامل ہوں۔

یاد رہے کہ ایڈوانسڈ میڈیم کمبیٹ ائیر کرافٹ کا ڈیزائن اور اسے بنانے کی منظوری انڈیا کی سلامتی سے متعلق کابینہ کی کمیٹی نے مارچ 2024 میں دی تھی۔ ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی نے رواں برس فروری میں انڈیا کے ائیر شو میں سٹیلتھ فائٹر جیٹ کا ایک ماڈل نمائش کے لیے پیش کیا تھا، جو کہ ایک سنگل سیٹ والا اور دو انجنوں پر مشتمل ففتھ جنریشن جنگی طیارہ ہو گا۔

انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ضمن میں جو منصوبہ تیار کیا گیا ہےاس کے تحت پروٹو ٹائپ کی تیاری کے بعد سٹیلتھ طیاروں کی تیاری سنہ 2035 میں شروع ہو گی اور ابتدائی طور پر کم از کم 120 طیارے ڈیلیور کیے جائیں گے۔

یہ منصوبہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے اور انڈین دفاعی ماہرین اسے کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟ یہ پڑھنے سے قبل جان لیتے ہیں کہ سٹیلتھ ٹیکنالوجی یا ففتھ جنریشن جنگی طیارہ کیا ہوتا ہے؟

getty
Getty Images

سٹیلتھ ٹیکنالوجی کیا ہے اور سٹیلتھ فائٹر جیٹ دوسرے جنگی طیاروں سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟

ایلیکس پلیٹساس، اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو اور سابق پینٹاگون عہدیدار ہیں جو دفاع، ایرو سپیس اور ہائی ٹیک شعبوں میں کاؤنٹر ٹیررازم اور ڈیجیٹل تبدیلیوں کے ماہر ہیں۔

بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ففتھ جینریشن کے لڑاکا طیاروں کی نمایاں خصوصیت ’سٹیلتھ ٹیکنالوجی‘ ہے جو طیارے کی ریڈار کراس سیکشن اور حرارت کے ذریعے شناخت کو کم کرتی ہے جس کی وجہ سے طیارے کی موجودگی کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

ایلکس پلیٹساس کے مطابق اس کے علاوہ ان طیاروں میں ہتھیاروں کے نظام، حرکت کرنے کی صلاحیت (مانور ایبیلٹی) اور مسلسل سپرسونک پرواز جیسے شعبوں میں بھی نمایاں ترقی ہوئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس طیارے کا ڈیزائن اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ یہ ریڈار ویوز کو منتشر کر دے، جبکہ ریڈار جذب کرنے والے مواد یا کمپوزٹ میٹیریل ریڈار سگنل کو جذب کرکے طیارے کا مکمل عکس واپس بھیجنے سے روکتے ہیں، جس سے ریڈار سسٹم کے لیے طیارے کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔

پلیٹساس کے مطابق ’نئے انجن ڈیزائن، کولنگ سسٹمز، ایگزاسٹ اور اندرونی ہتھیاروں کے خانے طیارے کی حرارتی شناخت (ہیٹ سگنیچر) کو کم کر دیتے ہیں، جس سے تھرمل ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

’یہ تمام خصوصیات جیسے سٹیلتھ ٹیکنالوجی، جدید مانور ایبیلٹی (چالاکی سے حرکت کرنے کی صلاحیت) اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار مل کر فیفتھ جینریشن کے جنگی طیاروں کو نہایت خطرناک بنا دیتی ہیں، جنھیں تلاش کرنا اور نشانہ بنانا جدید ترین ٹیکنالوجی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔

سٹیلتھ فائٹر جیٹ انڈیا کے لیے اہم کیوں ہے؟

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ فوجی ٹکراؤ میں فضائیہ کی پرائمیسی یا مستقبل کی لڑائی میں فضائیہ اور جنگی طیاروں کی اہمیت واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستانی طیاروں نے انڈین رفال طیاروں سمیت چھ طیارے مار گرائے تھے، تاہم انڈیا نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

راہل بیدی نے کہا کہ ’اِس حالیہ ٹکراؤ میں بنیادی طور پر دونوں ملکوں کی فضائیہ شامل تھیں۔ اس چار دن کی لڑائی میں جنگی جہاز، ڈرون، میزائلوں اور ایئر ڈیفنس سسٹم کا استعمال کیا گیا۔ دونوں ملکوں کے پاس اس وقت جو جنگی جہاز ہیں وہ فورتھ یا فور اینڈ ہاف جنریشن کے جہاز ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بظاہر انڈیا میں اب حکام کی جو توجہ ہو گی وہ فضائیہ پر مرکوز ہو گی۔ ’سٹیلتھ فائٹر جیٹ کا منصوبہ بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ اور زمینی فوج کی اہمیت محدود ہو گئی ہے۔‘

دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ ففتھ جنریشن ائیر کرافٹ کی اہمیت انڈیا کے لیے اس لیے اب بہت زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ ’(ذرائع ابلاغ کے مطابق) چین نے پاکستان کو ففتھ جنریشن سٹیلتھ جے 35 اے فائٹر جیٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘

’یہ جنگی طیارے پاکستان کے پاس ہوں گے اور یہ پہلی بار ہو گا جب اس طرح کا سٹیلتھ جنگی جہاز انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا حصہ ہو گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ انڈین فضائیہ کے لیے ایک مشکل صورتحال ہو گی اور یہ دونوں ممالک میں فضائیہ کے توازن کو پاکستان کے حق میں کر دے گا۔ دوسری جانب انڈیا کے پاس ففتھ جنریشن جہاز نہیں ہے۔‘

پروین ساہنی کہتے ہیں انڈیا نے جس سٹیلتھ فائٹر کے پراجیکٹ کی اب منظوری دی ہے، اس کا پروٹو ٹائپ یعنی تجرباتی ماڈل سنہ 2028 میں تیار ہونا ہے۔

REUTERS
Reuters

انھوں نے مزید کہا کہ ’سٹیلتھ جہاز کا پراجیکٹ خود انحصاری کے لیے ایک اچھی سوچ ہے۔ لیکن اس وقت جو حالات ہیں وہ امن کے نہیں ہیں۔ آپریشن سندور کے بعد اس وقت صرف جنگ بندی ہے، امن قائم نہیں ہوا ہے۔‘

’اس لیے ان حالات میں انڈیا کو بہت جلد ففتھ جنریشن جنگی جہاز باہر سے خریدنا پڑے گا (کیونکہ انڈین منصوبے کے مطابق انڈیا میں بنائے جانے والے طیارے آئندہ 10 برس میں دستیاب ہوں گے)۔ سٹیلتھ فائٹر کا پراجیکٹ طویل عرصے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘

راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’یہ پراجیکٹ انڈیا کے لیے بہت بڑا چیلنج بھی ہے کیونکہ انڈیا میں سب سے بڑا مسئلہ انجن کا ہے۔ ابھی اںڈیا میں نہ تو جنگی طیارے کا کوئی انجن بنا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں بننے کی کوئی امید ہے۔ انڈیا میں انجن بنانے کی دو سال پہلے امریکہ سے بات چیت ہوئی تھی لیکن وہ بات چیت بھی اب کمزور پڑ چکی ہے۔‘

’انڈیا کے ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کے اس منصوبے میں ابھی کافی وقت لگے گا اور اس میں بین الاقوامی ایروناٹیکل کمپنیوں کا بڑا کردار رہے گا۔‘

انڈیا میں دفاعی ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب انڈیا میں تیار کردہ ففتھ جنریشن طیاروں کی تیاری میں بہت سے سال لگ سکتے ہیں تو اس سے قبل اِس وقت دنیا میں چین کے علاوہ امریکہ کے پاس ایف35 اور روس کے پاس سوکھوئی 57ففتھ جنریشن جہاز ہیں جو انڈیا خرید سکتا ہے۔

یاد رہے کہ چند مہینے قبل وزیر اعظم مودی کے امریکہ کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ انڈیا کو جے-35 فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔

لیکن راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا نے اس جہاز کے لیے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ اس کے بارے میں انڈیا کی فضائیہ میں تحفظات ہیں۔ ایک تو یہ جہاز بہت مہنگا ہے اور اس کی ایک گھنٹے کی پرواز پر تقر یباً 30 لاکھ انڈین روپے خرچ ہوتے ہیں، دوسرا اِس کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے فضائیہ کو الگ سے انتظام کرنا پڑے گا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’چین جنگی طیاروں کی تیاری میں ایک قدم آگے نکل گیا ہے اور اب چین کا دعویٰ ہے کہ اِس نے سکستھ جنریشن ڈبل انجن کا فائٹر جیٹ بھی بنا لیا ہے جس کی تجرباتی پروازگذشتہ سال دسمبر میں کی گئی تھی۔‘

یاد رہے کہ انڈیا کی حکومت نے ففتھ جنریشن سٹیلتھ جنگی جہاز کے منصوبے کی منظوری دینے کے علاوہ رواں ماہ ایمرجنسی جنگی ساز و سامان خریدنے کے لیے ساڑھے چار ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم بھی منظور کی ہے۔

خبررساں ادارے روئٹر کے مطابق انڈیا اپنی فضائی دفاع کو بہتر کرنے کے لیے ایک سے دو برس کے اندر اس فنڈ سے تقریباً 500 ملین ڈالر مالیت کے ڈرون خریدنے کی تیاری کر رہا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس مہینے کے اوائل میں چار دنوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں دونوں جانب سے ڈرونز کا بھی استعمال ہوا تھا۔

پروین ساہنی کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور پاکستان میں اگر کوئی لڑائی ہوئی تو اب ڈرون کا اتنا رول نہیں ہو گا ۔ اصل لڑائی دونوں ملکوں کی فضائیہ کے درمیان ہو گی۔ آپریشن سندور میں ڈرونز کا کردار زیادہ تھا۔ دونوں ملکوں کی فضائیہ کے درمیان صرف ایک رات لڑائی ہوئی تھی۔ لیکن بڑی لڑائی کی صورت میں جنگ فضائیہ کے درمیان ہو گی۔‘

ساہنی کہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں موجودہ صورتحال کے سببدونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدگی نہ صرف جاری رہے گی بلکہ بڑھ سکتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.