سامو گڑھ اور ’حسد کی کہانی‘: تپتے میدان میں وہ لڑائی جس کے بعد اورنگزیب نے بھائیوں کو قتل، والد کو قید کیا اور مغل شہنشاہ بنے

اپنے تمام بھائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد، دارا شکوہ کو 1659 اور مراد کو 1661 میں قتل کرنے اور شجاعکو دیس نکالا دینے سے، اورنگزیب نےسلطنت تقسیم ہونے سے بچا لی۔ 31 جولائی 1658 کو اورنگزیب نے عالم گیر کے لقب کے ساتھچھٹے مغل بادشاہ کے طور پر ہندوستان پر حکومت سنبھالی اور 1658 سے لے کر اپنی وفات 1707 تک حکمران رہے۔ ان کے دورِ حکومت میں مغلیہ سلطنت اپنی وسعت کی انتہا کو پہنچی، اور تقریباً پورا برصغیر ان کے زیرِ نگیں آ گیا۔
تصویر
Getty Images

آگرہ کے جنوب مشرق میں 13 سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر جمنا کے کنارے ’سامو گڑھ‘ کا وسیع میدان 29 مئی 1658 کے تپتے سورج تلے جُھلس رہا تھا۔

یہ وہی مقام تھا جہاں کبھی مغلوں کی شکارگاہیں ہوتی تھیں مگر اُس دن یہاں سلطنتِ مغلیہ کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔

ایک طرف مغلیہ سلطنت کے پانچویں شہنشاہ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ تھے، اور دوسری طرف اُن کے چھوٹے بھائی اورنگزیب۔ اگرچہ تھے تو دونوں مغل تاج کے وارث مگر تخت صرف ایک کو ملنا تھا۔

جانشینی کے اِسی تناظر میں اپنی کتاب ’دی پرنسز آف دی مغل ایمپائر‘ میں مونس ڈی فاروقی لکھتے ہیں کہ شاہ جہان کے بیٹے بشمول دارا شکوہ، شجاع، اورنگزیب اور مراد، سب ممتاز محل کے بطن سے تھے۔

’شاہ جہان نے تخت کے ممکنہ دعوے داروں کی تعداد محدود رکھنے کے لیے اپنی بالغ بیٹیوں، جہاں آرا، روشن آرا اور گوہر آرا، کی شادی نہ کی مگر اُن کی سیاسی شمولیت کی حوصلہ افزائی ضرور کی۔ جہاں آرا دارا شکوہ کی بھرپور حامی بنیں، جبکہ روشن آرا اورنگزیب اور گوہر آرا مراد کی حمایتی بن گئیں۔‘

شاہ جہان 1630 کی دہائی کے اوائل سے ہی ولی عہد کے طور پر اپنے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو ترجیح دینے لگے اور مسلسل اورنگزیب کے سیاسی عروج کو روکتے رہے۔

فاروقی کے مطابق سنہ 1644 میں، جب جہاں آرا ایک حادثے میں زخمی ہوئیں تو اورنگزیب بہانے سے دربار آ گئے حالانکہ انھیں یہاں آنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ شاہ جہان نے فوراً انھیں نظربند کر دیا اور تمام القابات چھین لیے۔ بعد میں اورنگزیب نے دوبارہ بادشاہ کی حمایت حاصل کی، مگر انھیں دربار سے دور ہی رکھا گیا۔

’ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے بھی سمجھتے تھے کہ اگرچہ اورنگزیب دارا سے ادب سے پیش آتے تھے مگر دراصل یہ سب دکھاوا تھا۔‘

فاروقی لکھتے ہیں کہ ’دارا کی شادی مغل تاریخ کی مہنگی ترین شادی تھی، جس میں دلہن کا جہیز آٹھ لاکھ روپے (2009 کے حساب سے بارہ ملین ڈالر) کا تھا۔ بعد میں دارا کے بیٹوں سلیمان شکوہ اور سفیر شکوہ کو بھی غیرمعمولی مراعات دی گئیں۔‘

’سنہ 1657 میں اورنگزیب نے اپنی بہن جہاں آرا کو خط لکھا کہ ’بیس سال کی خدمت اور وفاداری کے باوجود اُنھیں (سلیمان شکوہ) کے برابر بھی اعتماد کے لائق کیوں نہیں سمجھا جاتا؟‘

شاہ جہان کی یہ جانبداری باقی بیٹوں میں شدید ناراضی کا باعث بنی۔

تاریخ دان ایرا مکھوٹی اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ شاہ جہان کے یہ بیٹے مختلف صوبوں کے گورنر تھے۔ بادشاہ کو اپنے بڑے بیٹے دارا شکوہ سے خاص انسیت اور لگاؤ تھا۔ تاہم چھوٹے تینوں بھائیوں کے دلوں میں دارا کے خلاف رنجش اور حسد پیدا ہو چکا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً باہمی اتحاد قائم کر کے دارا کے خلاف صف بندی کرتے رہے۔

اورنگزیب کا تخت کی طرف سفر اور حکمت عملی

تصویر
Getty Images
شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر

جب 1652 میں اورنگزیب کو ملتان سے دکن بھیجا گیا تو انھوںنے شاہ جہان سے شکایت کی کہ انھیں اپنی جاگیر کی آمدن میں 17 لاکھ روپے کا نقصان ہوا مگر اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ ایک خط میں انھوں نے لکھا کہ اتنے بڑے اور پُرآشوب صوبے، دکن، کو وسائل کے بغیر مؤثر طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا۔

لیکن، فاروقی کے مطابق، شاہ جہان نے اورنگزیب کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے اُن کے قریبی ساتھیوں کو دور کرنا شروع کیا یہاں تک کہ ان کی گھڑسوار فوج کے ہزاروں سپاہی بھی چھین لیے، جنھیں انھوں نے خود تربیت دی تھی۔ اس پر اورنگزیب نے اپنی بہن جہاں آرا کو غصے بھرے لہجے میں لکھا کہ اگر یہ سب کچھ جاری رہا تو وہ پوری جماعت برباد ہو جائے گی جسے انھوں نے برسوں کی محنت سے تیار کیا ہے۔

اورنگزیب نے تخت کی جانب سفر کے لیے ایسے ہی اقدامات کو جواز بنایا۔

ستمبر 1657 میں شاہ جہان شدید بیمار پڑ گئے اور وہ جھروکا درشن نہ دے سکے۔ دارا شکوہ نے بطور ولی عہد کے اپنے والد کی جگہ امور سلطنت سنبھالے، جس سے ان کے بھائیوں میں شدید ناراضی پیدا ہوئی۔

آر کے گپتا اور ایس آربخشی نے ’سٹڈیز ان انڈین ہسٹری‘ میں لکھا ہے کہ جب شاہ جہان کی بیماری شدید ہو گئی تو دارا شکوہ نے اپنے بھائیوں، شاہ شجاع (بنگال میں)، اورنگزیب (دکن میں)، اور مراد بخش (گجرات میں)، تک معلومات کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کی۔ مگر اس اقدام سے الٹا نقصان ہوا اور ملک بھر میں افواہیں پھیل گئیں کہ بادشاہ وفات پا چکے ہیں اور دارا تخت پر قبضے کے لیے یہ حقیقت چھپا رہے ہیں۔

’پھر جنگِ جانشینی چھڑ گئی۔ شاہ شجاع اور مراد نے اپنے اپنے علاقوں میں خود کو بادشاہ قرار دے دیا اور اپنے لشکروں کے ساتھ دلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ اورنگزیب نے اپنے پڑوسی مراد سے اتحاد کیا اور دارالحکومت کی جانب مشترکہ مارچ کی منصوبہ بندی کی۔‘

سنہ 1657کے آخر میں، اورنگزیب دکن سے دِلی کی طرف روانہ ہوئے تاکہ تخت حاصل کر سکیں۔ اس وقت تک ان کے مالیاتی نظام اتنے مضبوط ہو چکے تھے کہ وہ اپنی فوج کا خرچ خود اٹھا سکتے تھے۔ مؤرخ بھیم سین سکسینہ لکھتے ہیں کہ اورنگ آباد کے علاقے میں ساری زمین آباد تھی اور ضروری اشیا جیسے اناج اور تیل سستے تھے۔

مگر یہ خوشحالی آسانی سے حاصل نہیں ہوئی تھی اور اس کے پیچھے کئی مالیاتی اقدامات اور اصلاحات کارفرما تھیں۔

اورنگزیب بمقابلہ دارا شکوہ

ایرا مکھوٹی لکھتی ہیں کہ اورنگزیب اور دارا شکوہ کی تخت کے لیے لڑائی اُن کی دو بہنوں کی رقابت سے بھی گہری جڑی ہوئی تھی۔

فاروقی کا تجزیہ ہے کہ دارا شکوہ کو فوجی میدان میں کوئی تجربہ نہ تھا، ماضی میں انھوں نے صرف قندھار میں ایک ناکام مہم کی قیادت کی تھی۔ جبکہ اورنگزیب نے اپنی گورنری کے ادوار میں مختلف علاقوں میں طاقتور اتحادی بنائے۔ دارا کا انداز زیادہ تر درباری اور فکری تھا اور وہ فلسفہ، ادب، اور مذاہب کے درمیان مکالمے پر زور دیتے تھے۔

’اس کے برعکس، اورنگزیب نے عملی سیاست، جنگی مہارت، اور انتظامی تجربے پر توجہ دی۔ اُن کی سادہ زندگی اور مذہبی وابستگی نے علما اور اشرافیہ کو متاثر کیا۔ اگرچہ شاہ جہان اور دارا ان کی پرہیزگاری کا مذاق اڑاتے تھے مگر اورنگزیب اسے باعث فخر سمجھتے تھے۔ انھوںنے ایک بار شاہ جہان کو لکھا کہ عاجزی ہی میں اللہ عزتدیتا ہے۔‘

’دوسری طرف دارا کو متکبر اور امتیازی مزاج کا سمجھا جاتا تھا۔ وہ اورنگزیب کی طرح عوام میں مقبول نہ ہو سکے۔‘

سنہ 1657 میں اورنگزیب اور مراد نے ایک معاہدہ کیا کہ دارا کی شکست کے بعد مراد کو شمال اور مغرب (پنجاب، کابل، کشمیر، ملتان، ٹھٹھہ) دیا جائے گا اور اورنگزیب باقی سلطنت لیں گے۔

اورنگزیب نے اپریل 1658 میں دھرمٹ کے مقام پر دارا کو شکست دے دی لیکن ایک ہی ماہ بعد دونوں ساموگڑھ کے میدان میں پھر سے آمنے سامنے تھے۔

والدیمارہینسن نے اپنی کتاب ’دی پیکاک تھرون: دی ڈراما آف مغل انڈیا‘ میں ساموگڑھ کے میدان کا منظر یوں بیان کیا ہے: ’گرمی ایسی تھی کہ دم گھٹتا تھا، سپاہی زِرہوں میں جلنے لگے تھے، گھوڑے پیاس سے بےچین ہو کر ریت پر پاؤں مار رہے تھے اور سورج کی بےرحمی ایسی تھی کہ کچھ سپاہی پیاس اور گرمی سے میدان ہی میں دم توڑ گئے۔‘

’دارا کے لشکر نے ساموگڑھ میں پڑاؤ ڈالا تھا مگر حیرت انگیز طور حملے کا حکم نہ دیا۔‘

نکولو مانوچی، جو خود جنگ میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ شاہی دربار کے مشیر علمِ نجوم کا سہارا لے کر کارروائی کو ملتوی کروا رہے تھے۔

’اس تاخیر کا فائدہ اورنگزیب نے خوب اٹھایا۔ اُنھوںنے اپنے سپاہیوں کو تازہ دم کیا، توپوں کی کمک منگوائی، اور میدان پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ مانوچی تسلیم کرتے ہیں کہ سچ یہ ہے کہ ’دارا خوفزدہ تھے۔‘

کَوشِک رائے نے اپنی کتاب ’وارفیئر ان پری برٹش انڈیا‘ اور ایم لال نے اپنی کتاب ’اورنگزیب‘ میں لکھا ہے کہ دارا شکوہ نے توپوں کی گرج کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ اس کے بعد رستم خان کی قیادت میںدارا کے سوار دستوں نے سیف شکن خان کی زیرِ نگرانی اورنگزیب کی توپوں پر حملہ کر دیا۔

’جلد ہی اورنگزیب کی پیادہ فوج نے رستم پر جوابی حملہ کیا اور دونوں جانب سے خونریز تصادم شروع ہو گیا۔ تاہم دارا کے اگلے دستے کمزور پڑنے لگے کیونکہ رستم خان لڑتے ہوئے مارے گئے اور اُن کے سپاہی ان کے مرنے کے بعد میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اورنگزیب کی فوج میں بہادر خان شدید زخمی ہو کر گھوڑے سے گر گئے، مگر اورنگزیب نے فوراً شیخ میر کی قیادت میں کمک بھیجی تاکہ بہادر خان کی جان بچائی جا سکے۔‘

’دارا کے راجپوت، جو اُن کی فوج کے اگلے اور دائیں بازو میں شامل تھے، اورنگزیب کے اگلے دستے میں گھس آئے اور ذوالفقار اور مراد پر حملہ کیا۔ مراد اس جھڑپ میں زخمی ہوئے اور اورنگزیب کی فوج کا بایاں بازو راجپوتوں کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ راجپوت اب اورنگزیب کے مرکزی حصے پر حملہ آور ہو گئے۔

’مگر اورنگزیب نے راجپوتوں کے حملے کو روک دیا۔ جب دارا شکوہ نے اپنے راجپوت سپاہیوں کو گرتے دیکھا تو وہ تذبذب کا شکار ہو گئے۔ انھوںنے ہاتھی سے اُترنے اور پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔‘

ساقی مستعد خان کے مطابق، دارا کے پاس اب بھی بھاری کمک موجود تھی اور اورنگزیب کی فوج تھکن کا شکار ہو چکی تھی۔ مگر ’دارا نے اگلے محاذ کو تقویت دینے کے بجائے میدانِ جنگ سے فرار کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں اورنگزیب کو فیصلہ کُن فتح حاصل ہوئی۔‘

ستیش چندر نے اپنی کتاب ’میڈیول انڈیا: فرام سلطنت ٹو دی مغلز‘ میں لکھا ہے کہ ساموگڑھ کی جنگ دو ایسے جرنیلوں کے درمیان لڑی گئی جو فنِ حرب کے ماہر تھے۔

’دونوں کے پاس تقریباً یکساں تعداد میں فوج تھی، یعنی پچاس سے ساٹھ ہزار سپاہی۔ تاہم میدانِ جنگ میں دارا، اورنگزیب کا مقابلہ نہ کر سکے۔ دارا کا لشکر جلدی میں اور غیر مربوط انداز میں اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس، اورنگزیب کے پاس تجربہ کار سپاہی اور قابل قیادت تھی۔‘

’دارا کی سب سے بڑی کمزوری اُن کا غرور اور خود اعتمادی تھی۔ انھوں نے نہ تو سلطنت کے معزز امرا کو ساتھ ملایا، نہ دوسروں کے مشورے سنے۔‘

’جب شاہ جہان نے یہ تجویز دی کہ وہ اورنگزیب سے براہِ راست محاذ آرائی نہ کریں تو دارا نے انکار کر دیا۔ شاہ جہان نے پھر پیشکش کی کہ اگر دارا کو اعتراض ہو تو وہ خود اورنگزیب سے بات کر لیں گے لیکن دارا نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔‘

ہندو اور مسلمان دونوں ہی جانب موجود تھے۔ بعض محققین کے مطابق، 1658 تک ایک ہزار ایرانی نژاد مغل اشرافیہ میں سے 27 نے اورنگزیب کا ساتھ دیا جبکہ 23 نے دارا کا۔

ستیش چندر کے مطابق شہزادی جہاں آرا اگرچہ دارا کے قریب تھیں لیکن وہ دیگر بھائیوں سے بھی تعلقات میں رہیں، حتیٰ کہ ان کی مدد بھی کرتی رہیں۔

فاروقی لکھتے ہیں کہ دھرمٹ (اپریل 1658) اور ساموگڑھ (مئی 1658) کی لڑائیوں میں فتح کے بعد جہاں آرا نے سلطنت کو پانچ حصوں میں بانٹنے کی تجویز دی: دارا شکوہ (پنجاب)، شجاع (بنگال)، مراد (گجرات)، اورنگزیب (وسطی و شمالی ہندوستان)، اور محمد سلطان (دکن)۔ اسی دوران شاہجہان نے محمد سلطان سے خفیہ بات چیت کی کہ وہ اپنے والد کو چھوڑ کر دکن پر اکتفا کر لے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق، دارا کی فوج تقریباً 60 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی جو تعداد میں زیادہ تھی، لیکن اورنگزیب کی فوج زیادہ تجربہ کار تھی۔

’شمالی ہند کے گرم ترینموسم میں لڑی گئی، اسلڑائی کا فیصلہ ایک نازک موقع پر دارا کے اپنے ہاتھی سے اترنے پر ہوا، جسے ان کے سپاہیوں نے ان کی موت سمجھ لیا۔‘

ستیش چندر نے لکھا ہے کہ جب دارا شکست کھا گئے تو اورنگزیب نے آگرہ کے قلعے کو گھیرے میں لے لیا اور پانی کی ترسیل بند کر کے شاہ جہان کو مجبور کر دیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔

’شاہ جہان کو قلعے کے زنان خانے میں نظر بند کر دیا گیا ۔ وہ آٹھ برس وہیں قید رہے اور ان کی بیٹی جہاں آرا ان کی خدمت کرتی رہی۔ جب شاہ جہان کا انتقال ہوا تو اورنگزیب نے جہاں آرا کو عزت و توقیر دی، اُنھیں سلطنت کی خاتونِ اول کا درجہ دیا اور ان کی سالانہ پنشن بارہ لاکھ سے بڑھا کر سترہ لاکھ روپے کر دی۔‘

تصویر
Getty Images
اورنگزیب کا مقبرہ

’اورنگزیب نے اقتدار بانٹنے کے وعدے پر مراد سے اتحاد کیا تھا مگر جلد ہی اُنھوںنے مراد کو گرفتار کر کے گوالیار کے قلعے میں قید کر دیا جہاں وہ دو سال بعد قتل کر دیے گئے۔‘

’دارا ساموگڑھ میں شکست کھانے کے بعد لاہور کی طرف بھاگے، لیکن جب اورنگزیب ایک زبردست لشکر کے ساتھ اُن کی طرف بڑھے تو ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ کوئی مزاحمت کیے بغیر سندھ کی طرف نکل گئے۔ وہاں سے اُنھوںنے گجرات اور پھر اجمیر کا رُخ کیا۔‘

’دارا نے آخری معرکہ مارچ 1659 میں اجمیر کے قریب دیورائی کے مقام پر لڑا مگر شکست کھا گئے۔ اورنگزیب نے ایک فتوے پر عمل کیا کہ دارا کو ریاست، مذہب اور امن کے مفاد میں قتل کیا جا سکتا ہے۔ دو برس بعد دارا کے بیٹے سلیمان شکوہ کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‘

اس سے کچھ عرصہ قبل اورنگزیب نے شجاع کو دو بار شکست دی تھی اور اپریل 1660 میں میر جملہ کے ذریعے اُنھیں برصغیر سے نکال دیا ۔

اپنے تمام بھائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد، دارا شکوہ کو 1659 اور مراد کو 1661 میں قتل کرنے اور شجاعکو دیس نکالا دینے سے، اورنگزیب نےسلطنت تقسیم ہونے سے بچا لی۔ 31 جولائی 1658 کو اورنگزیب نے عالم گیر کے لقب کے ساتھچھٹے مغل بادشاہ کے طور پر ہندوستان پر حکومت سنبھالی اور 1658 سے لے کر اپنی وفات 1707 تک حکمران رہے۔ ان کے دورِ حکومت میں مغلیہ سلطنت اپنی وسعت کی انتہا کو پہنچی، اور تقریباً پورا برصغیر ان کے زیرِ نگیں آ گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.