’موت کے دریا‘ میں اچانک ہلاک ہونے والے ہزاروں ڈائنوسارز کا قبرستان اور ’ہولناک واقعے‘ کے وہ راز جو تاحال افشا نہیں ہو سکے

ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم 'پائپ سٹون کریک' پہنچ چکی ہے تاکہ 7 کروڑ 20 لاکھ سال پرانے اس معمہ کو حل کیا جا سکے کہ یہ سب ایک ساتھ کیسے مرے؟ اور شاید اسی وجہ سے اس جگہ کو 'موت کے دریا' کا نام دیا گیا ہے۔

ڈائنوسار

کینیڈا کے صوبے البرٹا کے سرسبز جنگلات کی ڈھلوانوں کے نیچے وسیع پیمانے پر اجتماعی قبریں پوشیدہ ہیں۔

یہ قبریں کسی انسان کی نہیں بلکہ کروڑوں سال پہلے آباد ڈائنوسار کی ہیں اور یہاں ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں ڈائنوسار دفن ہیں جو کسی بڑی تباہی کا شکار ہو کر یکایک فنا ہو گئے تھے۔

اب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم ’پائپ سٹون کریک‘ پہنچ چکی ہے تاکہ سات کروڑ 20 لاکھ سال پرانے اس معمے کو حل کیا جا سکے کہ یہ سب ایک ساتھ کیسے مرے؟ اور شاید اسی وجہ سے اس جگہ کو ’موت کے دریا‘ کا نام دیا گیا ہے۔

انھوں نے اس سر بستہ راز کو جاننے کی ابتدا ایک بھاری بھرکم سلیج ہتھوڑے کی ضرب سے کی کیونکہ چٹان کی موٹی تہہ کو توڑنے کے لیے زبردست طاقت درکار ہے۔

اس کھدائی کرنے والی ٹیم کی سربراہی کرنے والی پروفیسر ایملی بیمفورتھ اسے 'عہد قدیم کے سونے' سے تعبیر کرتی ہیں۔

جب ان کی ٹیم وہاں سے مٹی اور گرد کی تہیں نرمی سے ہٹانا شروع کرتی ہے تو ان کے سامنے ہڈیوں کا ایک الجھا ہوا ڈھانچہ آہستہ آہستہ نمایاں ہونے لگتا ہے۔

ڈائنوسار

پروفیسر بیمفورتھ کہتی ہیں کہ ’وہ جو سامنے ہڈی کا بڑا سا بلاب نظر آ رہا ہے وہ ہمارے خیال سے کولہے کا ایک حصہ ہے۔‘ ان کے ساتھ ان کا کتا ’ایسٹر‘ قریب ہی کھڑا نگرانی کر رہا ہے جس کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر کوئی ریچھ نظر آئے تو بھونک کر خبردار کرے۔

وہ پھر کہتی ہیں کہ ’یہاں یہ لمبی، پتلی ہڈیاں جو نظر آ رہی ہیں سب پسلیاں ہیں اور یہ ایک صاف ہڈی ہے، یہ پاؤں کے انگوٹھے کی ہڈی لگتی ہے لیکن یہ جو ہڈی یہاں ہے، ہمیں معلوم نہیں یہ کیا ہے، یہ پائپ سٹون کریک کے معمہ کی بہترین مثال ہے۔‘

بی بی سی نیوز کی ٹیم نے پائپ سٹون کریک کا سفر کیا تاکہ اس تاریخی قبرستان کی وسعت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے اور یہ جان سکے کہ محققین کس طرح شواہد اکٹھے کر رہے ہیں۔

اس مقام سے ہزاروں فوسلز اکٹھے کیے جا چکے ہیں جو کہ مسلسل نئی دریافتوں کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ تمام ہڈیاں ایک خاص ڈائنوسار 'پیچیرینوسارس' سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڈائنوسار کی اس قسم اور پروفیسر بیمفورتھ کی کھدائی بی بی سی کی نئی اہم سیریز 'واکنگ ود ڈائنوسارس' میں شامل ہیں۔ یہ سیریز اپنے ناظرین کے لیے ویژوئل ایفیکٹس اور سائنسی علم کے ذریعے اس ماقبل تاریخ دنیا کو پیش کر رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ جانور آخری کریٹیشیس دور میں زندہ تھے اور یہ ٹرائسیراٹوپس کے رشتہ دار تھے۔ ان کی لمبائی تقریباً پانچ میٹر اور وزن دو ٹن کے لگ بھگ ہوتا تھا۔ ان چوپایوں کے بڑے سر ہوتے تھے جس پر ایک نمایاں ہڈی دار ٹوپی اور تین سینگ ہوتے تھے۔ ان کی نمایاں خصوصیت ناک پر ایک بڑا ابھار تھا جسے 'باس' کہا جاتا تھا۔

ڈائنوسار

کھدائی کا موسم ابھی شروع ہی ہوا ہے جو کہ ہر سال خزاں تک جاری رہتا ہے۔ جس چھوٹے سے حصے پر ٹیم ابھی کام کر رہی ہے وہاں فوسلز یا ان جانوروں کی باقیات نہایت قریب قریب دبے ہوئے ہیں۔ پروفیسر بیمفورتھ کے اندازے کے مطابق ہر مربع میٹر میں تقریباً 300 ہڈیاں ہیں۔

اب تک ان کی ٹیم نے ایک ٹینس کورٹ جتنا علاقہ کھودا ہے لیکن ہڈیوں کی یہ تہہ پہاڑی میں ایک کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ 'کثافت کے لحاظ سے یہ حیرت انگیز ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شمالی امریکہ کی سب سے بڑی ہڈیوں کی تہوں میں سے ایک ہے۔

'دنیا میں ڈائناسور کی جانی پہچانی اقسام میں سے آدھی صرف ایک نمونے سے معلوم کی گئی ہیں، اور یہاں ہمارے پاس ہزاروں پیچیرینوسارس ہیں۔'

ماہرین آثارِ قدیمہ کا ماننا ہے کہ یہ ڈائنوسار ایک عظیم ریوڑ کی صورت میں جنوب سے شمال کی طرف موسمی ہجرت کر رہے تھے یعنی وہ سردی کا موسم گزار کر واپس گرم علاقوں میں آ رہے تھے۔

اس وقت اس علاقے کا موسم آج کے مقابلے میں کافی گرم ہوا کرتا تھا اور یہاں گھنے جنگلات اور چراگاہیں یا سبزیاں موجود تھیں جو ان سبزی خور جانوروں کے لیے کافی خوراک مہیا کرتی تھیں۔

پروفیسر بیمفورتھ کہتی ہیں کہ 'یہ ایک ہی نوع کے جانوروں کا ایک ہی وقت کا مکمل نمونہ ہے اور یہ مقدار میں بہت زیادہ ہے۔ فوسل ریکارڈ میں ایسا تقریباً کبھی نہیں دیکھا گيا ہے۔'

ڈائنوسار

بڑے جانوروں سے سراغ مل رہے ہیں

اس سے پتا چلتا ہے کہ شمال مغربی البرٹا کا یہ علاقہ صرف پیچیرینوسارس کا ہی علاقہ نہیں تھا۔ اس سرزمین پر اور بھی بڑے ڈائنوسار گھوما کرتے تھے، اور ان کا مطالعہ قدیم ماحولیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم ڈیڈ فال ہلز تک پہنچے۔ وہاں جانے کے لیے ایک گھنے جنگل سے پیدل چل کر، ایک تیز بہتے دریا کو عبور کر کے، اور پھسلن والے پتھروں سے گزرنا ہوتا ہے۔ ایسٹرکتا دریا کو تیر کر پار کرتا ہے۔

یہاں کھدائی کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ بہت بڑی بڑی ہڈیاں دریا کے کنارے کے قریب ساحل پر چٹانوں سے باہر نکلی ہوئی ہیں، اور بہتے پانی نے انھیں صاف کر دیا ہے۔

ہمیں دور سے ہی ایک بڑی ریڑھ کی ہڈی دکھائی دیتی ہے جبکہ پسلیاں اور دانت کی باقیات بھی کیچڑ میں بکھرے پڑی ہیں۔

ماہرِ آثارِ قدیمہ جیکسن سویڈر خاص طور پر ایک بڑی ہڈی میں دلچسپی دکھاتے ہیں جو ڈائنوسار کی کھوپڑی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں: 'ہم یہاں زیادہ تر چپٹی چونچ والے ڈائنوسارایڈمونٹوسارس کی باقیات پاتے ہیں۔ اگر یہ کھوپڑی کی ہڈی ہے تو یہ ڈائناسور شاید 30 فٹ (10 میٹر) لمبا تھا۔'

ایڈمونٹوسارس بھی پیڑ پودے کھانے والا جانور تھا اور وہ بھی پیچیرینوسارس کی طرح ان جنگلات میں گھومتا پھرتا تھا اور اب ان کے ذریعے محققین اس قدیم خطۂ ارضی کی تصویر مکمل کر رہے ہیں۔

سویڈر نزدیکی شہر گرانڈ پریری میں فلپ جے کیوری ڈائنوسار میوزیم کے کلیکشن مینیجر ہیں، جہاں ان دیو ہیکل جانوروں کی ہڈیاں لے جائی جاتی ہیں تاکہ انھیں صاف کر کے تجزیہ کیا جا سکے۔ وہ اس وقت پیچیرینوسارس کی ایک بہت بڑی کھوپڑی پر کام کر رہے ہیں جسے 'بِگ سیم' کا نام دیا گیا ہے۔

وہ اس جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں تین سینگ ہونے چاہئیں، لیکن درمیان والا سینگ غائب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'تمام مکمل کھوپڑیوں میں اس جگہ ایک نوکیلا سینگ ہوتا ہے لیکن اس کا 'یونیکورن' سینگ غائب ہے۔'

میوزیم کی ٹیم نے سالوں میں 8,000 ڈائنوسار کی ہڈیاں جمع کی ہیں اور تجربہ گاہ کی زمینیں ان جانوروں کی باقیات سے بھری ہوئی ہیں؛ یہاں ہر عمر کے پیچیرینوسارس کی ہڈیاں موجود ہیں۔

اتنی بڑی تعداد میں نمونے ہونے سے محققین کو ڈائنوسار کی حیاتیات کو جاننے کا موقع ملتا ہے کہ یہ نوع کیسے بڑھتی ہے، اور اس کی برادری میں کیا تنوع ہوتا ہے۔ وہ ان کے درمیان انفرادی اختلافات بھی جانچ سکتے ہیں کہ کوئی ایک پیچیرینوسارس کیسے دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے، جیسا کہ بِگ سیم کے معاملہ میں نظر آتا ہے جس کا سینگ بظاہر غائب ہے۔

ڈائنوسار

اچانک رونما ہونے والا تباہ کن واقعہ

یہ تمام تفصیلی تحقیق، چاہے وہ میوزیم میں ہو یا کھدائی کی جگہ پر، اس اہم سوال کا جواب دینے میں مدد کر رہی ہے کہ پائپ سٹون کریک میں اتنے زیادہ جانور ایک ساتھ کیسے مر گئے؟

پروفیسر بیمفورتھ کہتی ہیں: ’ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک موسمی ہجرت پر نکلنے والا ریوڑ تھا جو کسی ہولناک واقعے کا شکار ہوا، اس واقعے نے یا تو پورے ریوڑ یا اس کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا۔‘

تمام شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ ایک اچانک آنے والی سیلابی لہر کا نتیجہ تھا۔ شاید پہاڑوں پر طوفان آیا، جس نے پانی کا ایک نہ رکنے والا ریلا نیچے کی طرف بھیج دیا، درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور پتھروں کو بہا لے گیا۔

پروفیسر بیمفورتھ کہتی ہیں کہ پیچیرینوسارس کے پاس بچنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ ان کے خیال میں 'یہ جانور اپنی تعداد کی وجہ سے تیز نہیں بھاگ سکتے تھے، یہ بھاری بھرکم تھے اور تیراکی میں بھی ماہر نہیں تھے۔'

اس جگہ سے ملنے والی چٹانوں پر پانی کی تیز روانی کے باعث بننے والی تلچھٹ کے نشانات موجود ہیں۔ گویا تباہی کا لمحہ پتھر کی صورت میں وقت میں قید ہو گیا ہو۔

لیکن جو دن ڈائنوساروں کے لیے ایک ہولناک دن تھا، وہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے ایک خواب ہے۔

پروفیسر بیمفورتھ کہتی ہیں: 'ہمیں پتا ہے کہ جب بھی ہم یہاں آئیں گے، 100 فیصد یقینی طور پر ہمیں ہڈیاں ملیں گی۔ اور ہر سال ہمیں اس نوع کے بارے میں کچھ نیا جاننے کو ملتا ہے۔'

'اسی لیے ہم بار بار واپس آتے ہیں، کیونکہ ہم اب بھی نئی چیزیں دریافت کر رہے ہیں۔'

جب ٹیم اپنے اوزار سمیٹ کر اگلے دن آنے کے لیے روانہ ہوتی ہے، تو وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے سامنے بہت سا کام پڑا ہے۔ وہ ابھی اس راز کا صرف اوپری حصہ ہی کھرچ پائے ہیں اور یہاں بہت سے ماقبل تاریخ راز ہیں جو ابھی افشا ہونے باقی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.