گزشتہ سال نئی دہلی میں منعقدہ جی-20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کے بعد مبینہ طور پر اپنی ساکھ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور جی 7 سربراہی اجلاسوں میں بطور مہمان خصوصی مسلسل شرکت کے باوجود، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو آئندہ جی-7 سربراہی اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق جی 7 ایک غیر رسمی گروپ ہے جس میں صنعتی طور پر ترقی یافتہ مغربی ممالک اور جاپان شامل ہیں، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، جاپان، امریکا اور کینیڈا کے علاوہ یورپی یونین، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بینک اور اقوام متحدہ بھی جی 7 کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔
بھارتی اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ نے رپورٹ کیا کہ جنوبی افریقہ، یوکرین اور آسٹریلیا نے مبینہ طور پر کینیڈا کی طرف سے دعوت نامے قبول کر لیے ہیں، جب کہ وزیر اعظم مودی کے دورے پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بھارت کو اب تک اس سربراہی اجلاس کے لیے کوئی سرکاری دعوت نامہ موصول نہیں ہوا، جو کینیڈا میں 15 سے 17 جون تک منعقد ہو رہا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی فریق شرکت کے لیے مائل نہیں ہے‘۔ رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ اس قسم کے کسی اعلیٰ سطح کے دورے سے پہلے تعلقات میں بہتری ضروری ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی نے مستقبل میں کینیڈا کا دورہ کیا تو کچھ سیکیورٹی خدشات کو بھی حل کرنا ہوگا۔ گزشتہ ماہ، بھارتی وزارت خارجہ نے 2 مواقع پر کہا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے کینیڈا کے جی-7 سربراہی اجلاس میں شرکت کے حوالے سے کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ سکھ تنظیموں نے اوٹاوا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 5 سالہ روایت کو توڑتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کو جی-7 سربراہی اجلاس میں مدعو نہ کرے۔ کینیڈا رواں ماہ کیناناسکس، ایلبیرٹا میں جی-7 رہنماؤں کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
امید ہے کہ جی-7 ممالک کے رہنما (فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا) اجلاس میں شرکت کریں گے، ساتھ ہی یورپی کمیشن کے صدر بھی شریک ہوں گے، تاہم اوٹاوا نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ اس بنیادی گروپ کے علاوہ کن عالمی رہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے۔
کینیڈین پریس کے مطابق کینیڈا نے برازیل کے صدر لوئز اناسیو لولا دا سلوا کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ برازیل کی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا انہوں نے یہ دعوت قبول کی ہے یا نہیں۔