اس جنگی جہاز کی پہلی پرواز کے بعد تُرک صدر نے اس کا موازنہ امریکہ کے ایف 16 جنگی جہاز سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ترکی ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی تیاری کے حوالے سے انتہائی نازک مرحلے کو پار کرچکا ہے۔‘

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ ان کا ملک مقامی طور پر تیار کردہ کان (KAAN)نامی 48 لڑاکا طیارے انڈونیشیا کو دے گا۔
ایکس پر اپنی ٹویٹ میں طیب اردوغان نے ترک ایرو سپیس انڈسٹریز (TUSAS) اور انڈونیشیا کی وزارت دفاع کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو ’ریکارڈ برآمدی معاہدہ‘ قرار دیا۔
ترکی نے پہلی بار اپنے لڑاکا طیاروں کی برآمد کے لیے کسی ملک کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔
ترکی کی دفاعی صنعت کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ہالوک گورگن نے بھی سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’یہ پروجیکٹ، جو ترک ایرو سپیس انڈسٹریز اور انڈونیشیا کی ممتاز دفاعی صنعت کی کمپنیوں کے ساتھ انجام دیا جائے گا، مشترکہ پیداوار، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور تزویراتی تعاون کی ٹھوس مثالوں میں سے ایک ہو گا۔‘
ترکی کے مقامی طور پر تیار کردہ لڑاکا طیارے کان (KAAN)نے 21 فروری 2024 کو اپنی پہلی پرواز مکمل کی تھی۔
اس جنگی جہاز کو بنانے والے ادارے ’ترک ایرو سپیس انڈسٹریز‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے مطابق یہ طیارہ اپنی پہلی پرواز کے دوران 13 منٹ تک فضا میں رہا جبکہ یہ 230 ناٹ کی رفتار سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچا۔
اس جنگی جہاز کی پہلی پرواز کے بعد تُرک صدر نے اس کا موازنہ امریکہ کے ایف 16 جنگی جہاز سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ترکی ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی تیاری کے حوالے سے انتہائی نازک مرحلے کو پار کرچکا ہے۔‘
واضح رہے کہ ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کو سب سے جدید جنگی جہاز سمجھا جاتا ہے۔
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کی جانب سے شائع کیے گئے تشہیری مواد میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2030 سے کان جہاز ایف 16 کی جگہ لے سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 2019 میں ترکی کو روس سے ایس 400 فضائی دفاعی نظام خریدنےکے نتیجے میں امریکہ کی قیادت میں ایف 35 جنگی طیاروں کی تیاری کے پروگرام سے نکال دیا گیا تھا۔ ترکی نے واشنگٹن کے ساتھ 40 ایف 16 اور جدید کاری کی 79 کٹس خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔
انڈونیشیا کی جانب سے ترک ساختہ کان جنگی طیارے خریدنے کے فیصلے کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے قبل انڈونیشیا نے فرانس سے رفال طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا تھا اور انڈونیشیا کو مجموعی طور پر 42 رفال طیارے ملنے تھے۔
انڈونیشیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے نو جنوری 2024 کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ’انڈونیشین ایئر فورس پہلے سے بھی زیادہ پرجوش اور طاقتور ہو گی۔‘ انڈونیشیا کی وزارت دفاع کا یہ بیان فرانس سے 18 مزید رفال لڑاکا طیاروں کی خریداری کے تیسرے مرحلے کے معاہدے کے بعد سامنے آیا تھا۔
اس سے قبل پہلے مرحلے میں ستمبر 2022 میں چھ اور دوسرے مرحلے میں اگست 2023 میں 18 طیارے خریدے گئے تھے۔ انڈونیشین فضائیہ کے مطابق رفال طیاروں کی ترسیل کا عمل 2026 کے اوائل میں شروع ہو گا۔
تاہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کی فضائیہ کی جانب سے انڈیا کے رفال طیاروں کو مار گرانے کے دعوؤں کے بعد میڈیا پر ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ انڈونیشیافرانسیسی لڑاکا طیارے خریدنے کے معاہدے پرمبینہ طور پر نظر ثانی کر رہا ہے۔
اس جنگی جہاز کی پہلی پرواز کے بعد تُرک صدر نے اس کا موازنہ امریکہ کے ایف 16 جنگی جہاز سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی تیاری کے حوالے سے انتہائی نازک مرحلے کو پار کر چکا ہےکان لڑاکا طیارے کی خصوصیات کیا ہیں؟
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز نے کان جنگی طیارے سے متعلق تکنیکی معلومات اپنی ویب سائٹ پر شیئر کی ہیں۔ ان معلومات کے مطابق یہ جنگی طیارہ فضائی اور زمینی لڑائی دونوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
یہ طیارہ راڈار پر نظر نہ آنے کی سٹیلتھ صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ اپنے سینسر اور ڈیٹا فیوژن سپورٹ فائر کنٹرول سسٹم کے ساتھ درستگی سے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی صلاحتیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کان کے کاک پٹ کو پائلٹ پر کام کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یہ جنگی جہاز یو اے ویز، ڈرونز اور ایف 16 جنگی طیاروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بھی کام کر سکتا ہے۔
کانکی لمبائی 21 میٹر جبکہ اس کی اونچائی چھ میٹر ہے۔ اس کے پروں کی لمبائی 14 میٹر ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 1.8 ماک ہے۔
کان کو ’ففتھ جنریشن‘ میں شامل کرنے سے متعلق سوال کیوں؟
اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا کان واقعی ففتھ جنریشن کا لڑاکا طیارہ ہے یا نہیں اور اس کی وجہ اس کا انجن ہے۔
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کی جانب سے شیئر کردہ معلومات کے مطابق ایف 16 میں استعمال ہونے والے امریکی ساختہ ایف 110 انجن کو کان کی آزمائشی پروازوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ترک صحافی یلمزاوزدل کے یوٹیوب چینل پر 26 فروری 2024 کو شیئر کی گئی ویڈیو کے مطابق اس جہاز کا ’انجن بیرون ملک سے آیا لیکن یہ طیارہ ہمارا ہے۔ کیا یہ درست ہے۔‘
ترک ڈیفینس انڈسٹریز کے صدر تیمل کوتل کا کہنا ہے کہ یہ جنگی طیارہ 2028 میں ترکی ساختہ انجن کے ساتھ پرواز کرے گا۔
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کے ذریعہ قائم کردہ کمپنی ’ٹی آر موٹر‘ کو اس جہاز کا انجن تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاہم یہ انجن ’ففتھ جنریشن‘ کی بحث میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
واضح رہے کہ کسی بھی طیارے کو ففتھ جنریشن میں شمار کرنے کے لیے اس میں آفٹر برنر استعمال کیے بغیر ’سپر کروز‘ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کے پروفیسر ڈاکٹر مہمت اکست کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے ساتھ دنیا بھر میں صرف دو یا تین ہی انجن ہیں۔
یہ بتاتے ہوئے کہ یہ امریکی ایف 22 ریپٹر انجن اور روسی سکھوئی انجن ہیں، ڈاکٹر مہمت نے کہا کہ ٹی آر موٹر کا تیار کردہ انجن بھی ان خصوصیات کا حامل ہو گا۔
سنہ 2024 میں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم یہ کر سکتے ہیں، ہم یہ کر رہے ہیں لیکن کچھ ہی وقت میں؟ نہیں۔۔۔‘
ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کیا ہوتے ہیں اور یہ کن ممالک کے پاس ہیں؟
ایئر کموڈور رضا حیدر جو سینٹر فار ایروسپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز میں بطور ڈائریکٹر امرجنگ ٹیکنالوجیز کے طور پر کام کر رہے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت دنیا میں صرف پانچ آپریشنل ففتھ جنریشن فائٹر جنگی طیارےموجود ہیں اور یہ امریکہ، روس اور چین کے پاس ہیں۔ امریکہ کے پاس ایف 22 ریپٹر اور ایف 35 موجود ہے، روس کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ ایس یو 57 ہے جبکہ چین کے پاس بھی دو ففتھ جنریشن طیارے ہیں جن میں جے 20 اور جے 35 شامل ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ان کے علاوہ ایسے جدید طیارے ہیں جو ابھی تعمیراتی مراحل میں ہیں جن میں برطانیہ، اٹلی اور جاپان کی شراکت سے بنایا جانے والا طیارہ ’ٹیمپسٹ‘ ہے، فرانس، جرمنی اور سپین فیوچر کامبیٹ ایئر سسٹم (ایف سی اے ایس) نامی طیارہ بنا رہے ہیں اور ترکی کی جانب سے ’کان‘ نامی طیارہ بنایا جا رہا ہے۔‘
دفاع، ایرو سپیس اور ہائی ٹیک شعبوں میں انسدادِ دہشت گردی اور ڈیجیٹل تبدیلیوں کے ماہر ایلیکس پلیٹساس اور رضا حیدر کے مطابق ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کے مندرجہ ذیل فیچرز ہیں:
- سٹیلتھ فیچر، یعنی یہ اپنے ڈیزائن کے باعث ریڈار پر دکھائی نہیں دیتا۔
- ایویانکس سینسر فیوژن، یعنی اس کے ریڈار، نیویگیشن اور فائر کنٹرول سسٹم تمام ہی ہم آہنگ ہوتے ہیں جس سے پائلٹ کی سچویشنل اویئرنس بہتر ہوتی ہے۔
- سپر کروز، یعنی اگر آپ سپر سونک پرواز کر رہے ہوں تو آپ بہت کم ایندھن استعمال کر رہے ہوتے ہیں، اس سے طیارہ طویل عرصے تک فضا میں رہ سکتا ہے اور اس کی رینج بڑھ جاتی ہے۔
- نیٹ ورک سینٹر، یعنی باقی تمام سسٹمز کے ساتھ آپ جڑے ہوئے ہوتے ہیں جو گراؤنڈ پر ہوں جیسے ریڈارز یا فضا میں ہوں جیسے ایئر بورن ارلی وارننگ سسٹمز (اے ای ڈبلیو ایس) یا یو اے ویز اور ڈرونز۔