ایران نے اسرائیل کا تیسرا ایف 35 طیارہ مار گرایا ہے، اور ایک اور اسرائیلی پائلٹ بھی حراست میں لے لیا۔ ایرانی میڈیا نے ایرانی فورسز کی جانب سے اسرائیلی ڈرون گرائے جانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
تہران سے آنے والی رپورٹس کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگی کشیدگی اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ایرانی میڈیا نے تازہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایران نے ایک اور اسرائیلی ایف 35 طیارہ فضا میں تباہ کر دیا ہے، جبکہ طیارے کا پائلٹ زندہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حراست میں لیے گئے اسرائیلی پائلٹوں کی مجموعی تعداد دو ہو گئی ہے۔‘‘
یہ دعویٰ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران کا جوابی فوجی آپریشن وعدۂ صادق سوم اپنے عروج پر ہے۔ 12 اور 13 جون کی درمیانی رات اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایران نے بھرپور عسکری ردعمل دیا، جس میں متعدد بیلسٹک میزائل فائر کیے گئے۔ ایران نے بین الاقوامی سطح پر باقاعدہ طور پر اعلان کیا ہے کہ یہ کارروائیاں محض آغاز ہیں، جبکہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو اس حملے کے متعلق پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔
حالیہ جھڑپوں میں ایران نے اپنے 3 ایٹمی سائنس دانوں اور پاسدارانِ انقلاب کے 3 اہلکاروں کی شہادت کی تصدیق کی ہے، جبکہ دو اہم کمانڈرز، میجر غلام رضا محرابی اور میجر مہدی ربانی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ البتہ اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کا دعویٰ ہے کہ ایران کے 9 جوہری سائنسدان مارے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ 20 سے زائد اعلیٰ ایرانی کمانڈرز کو بھی نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا ہے
جوابی طور پر اسرائیلی حملے بھی شدت اختیار کر چکے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے تہران، تبریز، کرمان شاہ، ہمدان اور لورستان سمیت مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تہران میں ایک 14 منزلہ رہائشی عمارت پر اسرائیلی حملے میں 60 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 20 بچے بھی شامل تھے۔
دوسری طرف ایران نے ایک اسرائیلی جاسوس ڈرون کو ایران کے شمال مغربی شہر تبریز کے قریب مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ مشرقی آذربائیجان صوبے میں کرائسس مینجمنٹ کے سربراہ، مجید فرشی نے ہفتے کے روز تصدیق کی کہ یہ ڈرون ایرانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا جسے فوری طور پر نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا۔
اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایران کے 9 جوہری سائنس دانوں کو ہلاک کر دیا ہے، جبکہ اصفہان اور نطنز کے حساس ایٹمی مراکز کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
یہ خونریز مقابلہ دونوں ممالک کی عسکری طاقت کے مرکز پر ہو رہا ہے، اور اگر کشیدگی میں کمی نہ آئی تو مشرق وسطیٰ ایک نئے اور خطرناک محاذ میں داخل ہو سکتا ہے، جہاں صرف جنگی طیارے یا میزائل نہیں، بلکہ خطے کا امن اور عالمی استحکام بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔