اہم شخصیات کی ہلاکتیں اور جوہری تنصیبات پر حملے: اسرائیل کا ایران میں ’ریجیم چینج‘ کا ممکنہ آخری داؤ جو ایک جُوا ہو سکتا ہے

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نین یاہو کا ایک وسیع تر مقصد ہےاور وہ ہے تہران میں حکومت کی تبدیلی۔ اس صورتحال میں وہ انھیں امید ہو گی کہ ان غیر معمولی حملوں سے ایک سلسلہ وار رد عمل شروع ہوگا جس کے نتیجے میں بدامنی پھیلے گی جو ایران میں اقتدار کا تختہ الٹ دے گی۔
ایران
Getty Images

ایران کی جوہری صلاحیتوں سے اپنے وجود کو لاحق خطرے کو جواز بنا کر جمعے کو اسرائیل نے ایران پر حملے کیے لیکن اس سے سے بھی آگے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا ایک وسیع تر مقصد ہے اور وہ ہے تہران میں حکومت کی تبدیلی۔

اس صورتحال میں انھیں امید ہو گی کہ ان غیر معمولی حملوں سے ایک سلسلہ وار ردِعمل شروع ہو گا جس کے نتیجے میں بدامنی پھیلے گی جو ایران میں اقتدار کا تختہ الٹ دے گی۔

انھوں نے جمعے کی شام ایک بیان میں کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ایرانی عوام اپنے پرچم اور اس کی تاریخی وراثت کے گرد متحد ہو کر اس شیطانی اور جابر حکومت سے اپنی آزادی کے لیے کھڑے ہوں۔‘

بہت سے ایرانی شہری ملک میں معیشت کی حالت، اظہار رائے کی آزادی، خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے فقدان سے ناخوش ہیں۔

اسرائیل کا یہ حملہ ایرانی قیادت کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔

ان حملوں میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر، مسلح افواج کے چیف آف سٹاف اور پاسدارانِ انقلاب کے کئی دیگر اعلیٰ سربراہان ہلاک ہو چکے ہیں اور اسرائیلی حملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

ایران نے جوابی کارروائی کی اور پاسداران انقلاب نے کہا کہ اس نے 'درجنوں اہداف، فوجی مراکز اور ہوائی اڈوں' پر حملے کیے ہیں۔

صورتحال تیزی سے خراب ہوئی اور ایران کے جوابی میزائل حملوں کے بعد نتن یاہو نے کہا کہ ’مزید حملے ہونے کو ہیں۔‘

اس دوران ایران کے مزید رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اسرائیل اندازہ لگا سکتا ہے کہ حملے اور ہلاکتیں حکومت کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں اور عوامی بغاوت کی راہ کھول سکتی ہیں۔ کم از کم نتن یاہو کو یہی امید ہے۔

لیکن یہ ایک جوا ہے۔۔۔ ایک بڑا جُوا۔

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایسا کچھ شروع ہو گا لیکن اگر یہ شروع بھی ہوتا ہے تو یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں۔

 حملہ ایران
Getty Images

ایران میں سب سے زیادہ طاقت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو مسلح افواج اور معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں اور اس میں سے زیادہ تر طاقت پاسدارانِ انقلاب اور کچھ دیگر غیر منتخب اداروں میں سخت گیر افراد کے ہاتھوں میں ہے۔

انھیں بغاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اقتدار میں ہیں اور وہ ایران کو محاذ آرائی کی سمت میں لے جا سکتے ہیں۔

ایک اور ممکنہ نتیجہ حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے جس کے بعد ایران افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔

تقریباً نو کروڑ افراد کی آبادی کے ساتھ ملک میں ہونے والے واقعات پورے مشرقِ وسطی میں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوں گے۔

اسرائیل کا مطلوبہ نتیجہ ایک بغاوت لگتا ہے جس میں ایک دوستانہ قوت ملک کا اقتدار سنبھالے، لیکن یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ متبادل کون ہو سکتا ہے؟

ایرانی حزب اختلاف کی طاقتیں حالیہ برسوں میں انتہائی منقسم رہی ہیں اور یہاں کوئی واضح آپشن نہیں ہے۔

سنہ 2022 میں ہونے والی بدامنی کے بعد جسے ’ویمن لائف فریڈم‘ تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے نے ایران کے زیادہ تر حصے کو ایک طوفان کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کچھ حزب اختلاف کے گروہوں نے ملک میں حکومت مخالف گروپوں اور کارکنوں کا اتحاد بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا کیونکہ ان کے خیالات میں اختلافات تھے کہ اتحاد کی قیادت کون کرے گا اور موجودہ اتحاد کو گرانے کے بعد حکومت کی شکل کیا ہو گی۔

اسرائیل کے رہنما ان میں سے کچھ گروہوں یا شخصیات کو ترجیحی متبادل کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایران کے سابق ولی عہد رضا پہلوی، جو ایران کے سابق شاہ کے بیٹے ہیں، اور سنہ 1979 کے ایران کے اسلامی انقلاب میں ان کے والد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔

وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور غیر ملکیوں کو اپنے مقصد کی حمایت میں قائل کرنے کے لیےسرگرم ہیں۔

انھوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا۔

اگرچہ وہ کچھ ایرانیوں میں مقبول ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ جلد ہی حکومت کی تبدیلی کے لیے ایک طاقت میں تبدیل ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

ایک مجاہدین خلق (ایم ای کے) نامی گروہ بھی ہے، جو ایک جلاوطن اپوزیشن گروپ ہے جو ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی حمایت کرتا ہے لیکن بادشاہت میں واپس جانے کے خلاف ہے۔

یہ بائیں بازو کا مسلم گروپ ہے جس نے پہلے شاہ کی سخت مخالفت کی تھی۔

انقلاب کے بعد ایم ای کے عراق چلا گیا اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں ایران کے خلاف جنگ کے دوران صدام حسین کے ساتھ شامل ہو گیا، یہی وجہ ہے کہ یہ بہت سے ایرانیوں میں غیر مقبول ہو گیا۔

یہ گروپ اب بھی سرگرم ہے اور امریکہ میں اس کے دوست ہیں، جن میں سے کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کے کیمپ کے قریب ہیں۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے مقابلے میں وائٹ ہاؤس میں اس کا اثر و رسوخ کم ہے، اس دور میں مائیک پومپیو، جان بولٹن اور روڈی جولیانی سمیت سینیئر امریکی حکام ایم ای کے کے اجتماعات میں شریک ہوئے اور حمایتی تقاریر کی تھیں۔

دوسری سیاسی قوتیں بھی ہیں جو سیکولر جمہوریت قائم کرنا چاہتی ہیں، ان سے لے کر وہ لوگ جو پارلیمانی بادشاہت کے خواہاں ہیں۔

جمعے کے روز ہونے والے حملوں کا مکمل تجزیہ کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن گذشتہ برس ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کے تبادلے کے دوران اس بات کے کوئی ٹھوس اشارے نہیں ملے تھے کہ ایرانی ان حالات کو حکومت کا تختہ الٹنے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

تاہم ان حملوں میں ہونے والا نقصان اب جمعے کو ہونے والے حملوں کی تباہی کے قریب تر بھی نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ اب ایران کی آخری داؤ کیا ہو گا۔

اسرائیل میں متعدد اہداف کو نشانہ بنانے کے باوجود، ایران کے پاس بہت اچھے آپشنز نہیں ہیں۔

سابق ولی عہد رضا پہلوی
Getty Images
سابق ولی عہد رضا پہلوی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور غیر ملکیوں کو اپنے مقصد کی حمایت میں قائل کرنے کے لیےسرگرم ہیں

کچھ لوگوں کی نظر میں محفوظ راستہ امریکہ کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے اور اس سے کشیدگی کو کم کرنا ہو گا۔

لیکن جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبہ کیا ہے، مذاکرات کی طرف لوٹنا ایران کے رہنماؤں کے لیے ایک مشکل انتخاب ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انھوں نے شکست قبول کر لی ہے۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف جوابی حملے جاری رکھے جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کا سب سے پسندیدہ آپشن ہے۔

ایرانی رہنماؤں نے اپنے حامیوں سے یہی وعدہ کیا تھا لیکن اگر حملے جاری رہے تو یہ اسرائیل کی طرف سے مزید حملوں کو دعوت دے سکتا ہے۔

تہران ماضی میں خطے میں امریکی اڈوں، سفارت خانوں اور مفادات کے مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔

لیکن یہ آسان نہیں اور امریکہ پر حملہ کرنا اسے براہ راست اس تنازع میں شامل کرنا ہے جو ایران کم از کم نہیں چاہے گا۔

ان میں سے کوئی بھی آپشن کسی بھی فریق کے لیے آسان نہیں ہے اور ان کے نتائج کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔

دھول اب چھٹی نہیں ہے اور جب یہ چھٹ جائے گی تب ہی پتا چلے گا کہ کیا کیا بدل گیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.