اسرائیل کی ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کی کوشش جو مشرقِ وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی ’نئی دوڑ شروع کر سکتی ہے‘

اسرائیل کے آپریشن رائزنگ لائن سے جو بھی حتمی نقصان ہو لیکن اگر ایران کی حکومت بچ جاتی ہے اور اس نے پہلے بھی مشکلات کا مقابلہ کیا ہے، تو پھر یہ خطرہ ہے کہ ایٹم بم بنانے اور حتیٰ کہ تجربہ کرنے کی کوششیں تیز ہو جائیں گی۔
iran
BBC

اسرائیل کے ایران پر جمعے کو کیے جانے والے حملے جسے اس کی جانب سے 'آپریشن رائزنگ لائن' کا نام دیا گیا کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔

یہ حملے گذشتہ برس دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے حملوں کے تبادلے سے کہیں زیادہ شدید تھے۔ 1980 سے 1988 کی ایران، عراق جنگ کے بعد سے یہ ایران کی سرزمین پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ ہے۔

جمعے کی صبح اسرائیلی فضائیہ نے نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا بلکہ ملک کے فضائی دفاعی نظام اور بیلسٹک میزائل اڈوں کو بھی نشانہ بنایا جس کا مقصد ایران کی جوابی کارروائی کی صلاحیت کو کمزور کرنا تھا۔

اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے لیے کام کرنے والوں کے نیٹ ورک نے مبینہ طور پر فوجی قیادت اور جوہری سائنسدانوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کی تھی۔

اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ، مرکزی مسلح افواج کے سربراہ اور فضائیہ کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کے کم از کم چھ سائنسدان بھی ان حملوں میں مارے گئے ہیں۔

ایک بار پھر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مرکز میں کامیابی سے داخل ہوئی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ان حملوں میں 78 افراد ہلاک جن میں بچوں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔ یہ غیر سرکاری اعداد و شمار ہیں اور تاحال آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

مبینہ طور پر موساد اس حملے کے دوران ایران کی سرزمین کے اندر سے ڈرون لانچ کرنے کے قابل تھا۔ اس پورے آپریشن کے بنیادی اہداف نطنز میں جوہری تنصیب اور پاسدارانِ انقلاب سے منسلک فوجی اڈے تھے۔ اسرائیلی فوجی منصوبہ ساز یہ حکمتِ عملی ایک عرصے سے بنائے بیٹھے تھے۔

یہ ابھی اسرائیل کی جانب سے حملوں کی پہلی لہر تھی اور ایران کو اس سے شدید جھٹکا پہنچا ہے۔ اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر اور بھی بہت سے ممکنہ اہداف ہوں گے لیکن کچھ اس کی پہنچ سے دور ہیں اور مضبوط چٹانوں کے نیچے موجود زیر زمین اڈوں میں موجود ہیں۔

تو اسرائیل کی جانب سے یہ حملے اس وقت ہی کیوں کیے گئے؟

iran
Getty Images

ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوشش

اسرائیل اور کئی مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایک جوہری اعتبار سے ’بریک آؤٹ صلاحیت‘ حاصل کرنے کے قریب ہے یعنی اس کے بعد پھر جوہری ہتھیار بنانے سے انھیں کوئی نہیں روک سکے گا۔

ایران اس کی تردید کرتا ہے اور اس بات زور دیتا ہے کہ یہ ایک سویلین جوہری پروگرام ہے اور یہ پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اس پروگرام کو روس سے بھی مدد ملی ہے۔

ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے ایران کی جوہری پیش رفت کو سست کر سکے۔

ایرانی سائنسدانوں کو نامعلوم حملہ آور پراسرار طور پر قتل کرتے آئے ہیں اور جوہری پروگرام کے فوجی سربراہ بریگیڈیئر جنرل فخری زادہ کو 2020 میں تہران کے قریب ایک تنہا سڑک پر ریموٹ کنٹرول مشین گن سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس سے پہلے امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ سائبر حملے کے نتیجے میں ایک تباہ کن کمپیوٹر وائرس جس کا کوڈ نام سٹکسنیٹ تھا ایران کے سینٹری فیوجز میں داخل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے۔

اس ہفتے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام پر بہت سے خدشات اس کے انتہائی افزودہ یورینیم (ایچ ای یو) کے ذخیرے سے پیدا ہوتے ہیں جسے 60 فیصد تک افزودہ کیا گیا ہے، جو سویلین نیوکلیئر پاور بنانے کے لیے درکار سطح سے کہیں زیادہ اور بم بنانے کی درکار سطح سے بہت قریب ہے۔

iran
Getty Images

یاد رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ یہ اوباما کے دور صدارت میں شروع ہوا تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے 'دنیا کا بدترین معاہدہ' قرار دیا اور جب وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تو انھوں نے امریکہ کو اس معاہدے سے علیحدہ کر لیا۔

اگلے سال ایران نے اس معاہدے کی تعمیل کرنا چھوڑ دی۔

ایران سے باہر کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے پاس ایٹم بم ہو۔ اسرائیل، ایک چھوٹا ملک جس کی 95 لاکھ کی آبادی کا زیادہ تر حصہ شہری علاقوں میں مرکوز ہے، جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کو بقا کے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔

اسرائیل سینیئر ایرانی شخصیات کے متعدد بیانات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں اسرائیل کی ریاست کی تباہی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سعودی عرب، اردن اور خلیجی عرب ریاستیں ایران کی انقلابی اسلامی جمہوریہ حکومت کی زیادہ پرواہ نہیں کرتیں لیکن انھوں نے ایک پڑوسی کے طور پر اس کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔

اب وہ اس تنازع کے اپنے ممالک تک پھیلنے کے خطرات سے بے حد بے چین ہوں گے۔

اسرائیل کے لیے یہ وقت بہت اہم تھا۔ ایران پہلے ہی لبنان، شام اور غزہ میں اپنے پراکسیوں اور اتحادیوں کی مؤثر شکست یا خاتمے سے کمزور ہو چکا ہے۔ گذشتہ اکتوبر میں اسرائیل کے حملوں کے بعد اس کے فضائی دفاعی نظام بھی کمزور پڑ چکا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے لیے ایک ہمدرد صدر موجود ہے اور آخر کار اسرائیل کو مبینہ طور پر خدشہ تھا کہ ایران کے یورینیم کی افزودگی کے لیے درکار کچھ اہم ساز و سامان کو زمین تلے لے جانے والا ہے۔

trump and netanyahu
Getty Images

اب آگے کیا ہو سکتا ہے؟

یہ واضح ہے کہ اس آپریشن سے اسرائیل کیا چاہتا ہے: اس کا مقصد، کم از کم، ایران کے جوہری پروگرام کو کئی برس پیچھے لے جاتا ہے اور اس کی ترجیح ہو گی کہ اسے مکمل طور پر بند کروا دیا جائے۔

اسرائیل کے عسکری، سیاسی اور انٹیلی جنس حلقوں میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو امید کر رہے ہوں گے کہ یہ کارروائی ایران کی قیادت کو اس قدر کمزور کر سکتی ہے کہ وہ مکمل طور پر گر جائے اور ایک نئی کمزور حکومت اس کی جگہ لے جو خطے کے لیے خطرہ نہ ہو۔ یہ ان کی خوش فہمی ہو سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ ایران کے پاس معاہدے پر رضامندی کا ’دوسرا موقع‘ بھی ہے۔ امریکہ ایران مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو مسقط میں ہونے والا تھا لیکن اسرائیل ان مذاکرات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔

جس طرح روس پر الزام ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے ٹرمپ کو دھوکہ دے رہا ہے، اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران یہاں بھی کچھ ایسا ہی کر رہا ہے۔

اسرائیل کا خیال ہے کہ یہ ایران کے مشتبہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کا بہترین اور ممکنہ طور پر آخری موقع ہے۔

یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کی سینئر پالیسی فیلو ایلی جیرانمایہ کہتی ہیں کہ ’اسرائیل کے ایران بھر میں بے مثال حملے صدر ٹرمپ کے ایرانی جوہری پروگرام پر قابو پانے کے معاہدے پر حملہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔

'یہ واضح ہے کہ ان کے (حملوں) کا وقت اور بڑے پیمانے پر کیے جانے کا مقصد مذاکرات کو مکمل طور پر سبوتاژ کرنا تھا۔'

اگر ایران خطے میں بہت سے امریکی اڈوں میں سے کسی کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، یا تو براہ راست یا اپنے پراکسیز کے ذریعے، تو اس بات کا خطرہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے ایک اور تنازع میں گھسیٹا جا سکتا ہے۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کے لیے ’سخت سزا‘ کا عہد کیا ہے لیکن ایران آج دو سال پہلے کی نسبت بہت کمزور پوزیشن میں ہے اور اس کے پاس جوابی کارروائی کے آپشنز محدود ہیں۔

iran
Getty Images

جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا اندیشہ

تاہم، یہاں ایک اور بھی بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل کی کارروائی اب بھی بیک فائر کر سکتی ہے اور اس سے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔

ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر سخت گیر رہنما طویل عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اسرائیل یا امریکہ کے مستقبل کے حملوں کے خلاف بہترین ڈیٹرنس جوہری بم حاصل کرنے میں ہے۔ انھوں نے لیبیا اور شمالی کوریا کے رہنماؤں کی مختلف مقدر کی مثال دیکھے ہوں گے۔

لیبیا کے کرنل قذافی نے سنہ 2003 میں اپنا ’ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن پروگرام‘ ترک کر دیا تھا۔ آٹھ سال بعد انھیں ایک عرب انقلاب کے مظاہروں کے باعث اقتدار اور زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے جسے مغربی فضائی طاقت کی حمایت حاصل تھی۔

اس کے برعکس شمالی کوریا نے تمام بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری وار ہیڈز اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں جیسے زبردست ہتھیار بنا لیے اور ان پر کسی بھی ممکنہ حملہ آور کو دو بار سوچنا ہو گا۔

اسرائیل کے آپریشن رائزنگ لائن سے جو بھی حتمی نقصان ہو، اگر ایران کی حکومت بچ جاتی ہے – اور اس نے پہلے بھی مشکلات کا مقابلہ کیا ہے – تو پھر یہ خطرہ ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے اور یہاں تک کہ تجربہ کرنے کی اپنی کوششیں تیز کر دے گی۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ ناگزیر ہو جائے گی جس میں سعودی عرب، ترکی اور ممکنہ طور پر مصر بھی چاہیں گے کہ ان کے پاس بھی یہ صلاحیت آ جائے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.