غیر ملکی وی لاگر کی وائرل ویڈیو،عطا آباد جھیل کے کنارے قائم ہوٹل اور آلودہ پانی کا معاملہ

اس ویڈیو میں غیر ملکی وی لاگر نے گلگت بلتستان کی وادی ہنرہ میں عطا آباد جھیل کے کنارے قائم ایک ہوٹل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہاں سے مبینہ طور پر سیوریج کا پانی نکل کر عطا آباد جھیل میں شامل ہو رہا ہے۔ تاہم ہوٹل انتظامیہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
عطا آباد جھیل
Getty Images

پاکستان کا شمالی خطہ گلگت بلتستان نہ صرف پاکستانی سیاحوں بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

یہاں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہو، یا پہاڑوں سے بہتے جھرنے، سرسبز پھلوں کے باغات ہوں یا عطا آباد جیسی جھیلوں کے نظارے جو ہر سیاح کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

تاہم گذشتہ روز سے پاکستان کے شمالی خطے گلگت بلتستان اور عطا آباد جھیل سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ ایک غیر ملکی وی لاگر کی ایک ویڈیو ہے۔

اس ویڈیو میں غیر ملکی وی لاگر نے گلگت بلتستان کی وادی ہنرہ میں عطا آباد جھیل کے کنارے قائم ایک ہوٹل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہاں سے مبینہ طور پر سیوریج کا پانی نکل کر عطا آباد جھیل میں شامل ہو رہا ہے۔

تاہم ہوٹل انتظامیہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

وی لاگر نے ویڈیو میں کیا دعویٰ کیا؟

اس ویڈیو میں غیر ملکی وی لاگر نے عطا آباد جھیل کنارے بنے ہوٹل پر الزام عائد کیا کہ ’وہاں سے سیوریج اور کچن کا آلودہ پانی عطا آباد جھیل میں داخل ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے ویڈیو میں جھیل کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جھیل کے صاف نیلے پانی اور جہاں پر سیوریج کا پانی چھوڑا گیا ہے وہاں بڑا واضح فرق ہے۔ پانی گدلا ہورہا ہے اور وہ اس (ہوٹل کی) عمارت سے آرہا ہے۔‘

وہ ویڈیو میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ’انھیں ایک مقامی شخص نے اس بارے میں بتایا تھا اور خود یہاں آکر بدبو کو محسوس کرسکتے ہیں۔‘

ہوٹل انتظامیہ کی الزامات کی تردید

تاہم ویڈیو میں غیر ملکی وی لاگر کی جانب سے جس ہوٹل پر عطا آباد جھیل میں مبینہ طور پر سیوریج کا پانی چھوڑنے کا الزام عائد کیا ہے اس کی انتظامیہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔

ہوٹل کے ڈائریکٹر شان لشاری کا کہنا تھا کہ وائرل ویڈیو میں جو دکھایا گیا ہے کہ پانی آلودہ یا گدلا ہو رہا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اصل میں حقیقت یہ ہے کہ اُس مقام پر ایک برساتی نالے کا پانی آکر ملتا ہے جس وجہ سے اس کا رنگ گدلا نظر آتا ہے اور یہ قدرتی امر ہے۔‘

واضح رہےکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس ہوٹل پر عطا آباد جھیل کے پانی کو آلودہ کرنے کے الزامات لگے ہوں۔

عطا آباد
Getty Images

محکمہ تحفظ ماحولیات کے حکام کا کیا کہنا ہے؟

گلگت بلتستان میں ماحولیات کا تحفط کرنے والے ادارے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے ڈائریکٹر خادم حسین کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں کسی کمرشل یا نجی عمارت کو پانی آلودہ کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس ویڈیو کے منظر عام کر آنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو کارروائی بھی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا عملہ اکثر اوقات گلگت بلتستان میں واقع چھوٹے بڑے ہوٹلوں کے دورے کرتا رہتا ہے اور ضرورت پڑنے پر قانون بھی حرکت میں آتا ہے۔'

انھوں نے بتایا کہ 'گذشتہ برس اکتوبر میں ایسے ہی معمول کی ایک چیکنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس ہوٹل کے مغربی حصے سے عطا آباد جھیل کے پانی کو آلودہ کیا جا رہا تھا۔ جس پر کارروائی کرتے ہوئے اس ہوٹل کو نہ صرف سیل کیا گیا بلکہ اس پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔'

ای پی اے کے ڈائریکٹر خادم حسین کا مزید کہنا تھا کہ 'اگرچہ آلودہ پانی کی کوئی زیادہ مقدار نہیں تھی اور شاید یہ ہوٹل میں سیاحوں کا رش زیادہ ہونے کے باعث ہوٹل عملے کی غلطی سے ہوا تھا۔'

ای پی اے کے ڈائریکٹر خادم حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ 'ممکنہ طور پر اس ہوٹل کی تعمیر منظور شدہ منصوبے کے مطابق نہیں ہے جس کی تحقیقات کی جارہی ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ اس ہوٹل کی تعمیر کے وقت جاری کیے گئے این او سی میں شرط رکھی گئی تھی کہ وہاں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگایا جائے گا مگر اس شرط پر عمل نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب ہوٹل کے ڈائریکٹر شان لشاری نے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ہوٹل کا نقشہ حکومت سے منظور شدہ ہے۔

تاہم انھوں نے متعدد بار سوال کیے جانے کے باوجود واٹر فلڑیشن پلانٹ کے حوالے سے براہ راست کوئی جواب نہیں دیا اور کہا کہ حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً مختلف نوٹیفکیشن جاری ہوتے رہتے ہیں جن پر وقت کے ساتھ عمل ہوتا رہتا ہے۔

ای پی اے کے ڈائریکٹر خادم حسین کا کہنا تھا کہ عطا آباد جھیل کے پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے اس لیے بھی زیادہ کوشش کی جارہی ہے کیونکہ مستقبل میں ہنزہ میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے عطا آباد جھیل سے پانی کا ایک منصوبہ بھی شروع کیا جا رہا ہے۔

’سیاحت ہونی چاہیے مگر انسانی جانوں اور ماحولیات کی قیمت پر نہیں‘

ہنزہ
Getty Images

گلگت بلتستان میں سیاسی و سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے خطے میں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔

بابا جان بھی انہی کارکنان میں سے ایک ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ 'ہم عرصہ دراز سے چیخ پکار کر رہے ہیں کہ ہنزہ اور گلگت بلتستان والوں پر رحم کریں۔ سیاحت ہونی چاہیے، ترقی بھی کرنی چاہیے مگر انسانی جانوں، پانی اور ماحولیات کی قیمت پر نہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'ہمیں سب سے پہلے اپنے ماحولیاتی خزانے اور پانی کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنا ہے۔'

گلگت بلتستان میں نافذ ماحولیاتی قوانین کے مطابق ندی، نالوں، دریاؤں اور پانی کے ذرائع سے تعمیرات کم از کم پچاس فٹ اور زیادہ سے زیادہ دو سو فٹ دور قائم کی جائیں گئیں اور یہ قانون نجی اور سرکاری زمین دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔

سیاسی و سماجی کارکن بابا جان کا دعویٰ ہے کہ صرف ویڈیو میں دکھایا گیا ہوٹل ہی نہیں بلکہ جھیل کے کنارے جتنی بھی تعمیرات ہیں وہ سب ہی قوانین کی خلاف ورزی کر کے قائم کیے گئے ہیں۔

بابا جان کا کہنا تھا کہ 'عطا آباد جھیل کے کنارے جو تعمیرات ہیں انھیں این او سی جاری کرتے ہوئے پابند کیا گیا تھا کہ وہ وہاں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں گے مگر وہاں کوئی واٹر ٹریمنٹ پلانٹ نہیں لگایا گیا ہے۔'

سیاسی و سماجی کارکن بابا جان کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا تھا کہ جھیل کے کنارے کنکریٹ کی عمارتیں بنانے کی اجازت نہ دی جائے بلکہ یہاں پر درخت لگائیں جائیں، البتہ سیاحوں کے لیے ضروری ہے تو جھیل سے دور کچھ ماحول دوست ہٹس یا عمارتیں قائم کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

بابا جان کا کہنا تھا کہ مگر ایسا نہ ہوا اور حکومت نے مقامی لوگوں کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے پر تعیش ہوٹل قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

بابا جان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو دنیا بھر میں 25 بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ عطا آباد جھیل جیسی کئی جھیلیں، پہاڑ، ندیاں اور نالے ہیں۔

'یہ محفوظ ہوں گیں تو پھر ہی یہ بہترین سیاحتی مقام ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اس دور میں ان کو محفوظ رکھنا انسانی جان ومال کے تحفظ کے لیے بھی لازمی ہے۔'

عطا آباد جھیل حادثے سے رحمت تک

عطا آباد جھیل
Getty Images

عطا آباد جھیل کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی قدرتی جھیل ہے۔ یہ جھیل سنہ 2010 میں گلگت بلتستان کی وادی گوجال کے عطا آباد گاؤں میں دریائے ہنزہ کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔

اس لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 20 لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ اب یہ جھیل گلگت بلتستان ہی نہیں بلکہ دریائے سندھ کے لیے بھی پانی کا ایک ذریعہ ہے۔

کامسٹیس یونیورسٹی ایبٹ آباد میں شعبہ ماحولیات کے چیئرمین پروفسیر ڈاکٹر فرید اللہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ جھیل جوایک حادثے کے ذریعے وجود میں آئی تھی اب ایک 'رحمت' بن چکی ہے اور اس کے ماحولیاتی فائدوں کے علاوہ معاشی فوائد بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ جھیل دریائے ہنزہ کے لیے پانی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ دریائے ہنزہ کا پانی دریائے گلگت میں جا کر گرتا ہے اور دریائے گلگت جا کر دریائے سندھ سے ملتا ہے جو کہ پورے پاکستان کے لیے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔'

پروفسیر ڈاکٹر فرید اللہ کا کہنا تھا کہ اب عطا آباد جھیل کا ماحولیاتی نظام میں بہت بڑا حصہ ہے۔

'یہ جھیل مختلف قسم کی نباتات و حیوانات کی آماجگاہ اور افزائش نسل کا گڑھ ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ عطا آباد جھیل کی ہر قسم کی آلودگی سے حفاظت خطے کی قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.