ایران میں جوہری سائنس دانوں کے قتل سے لے کر لبنان میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کے پیجر اور واکی ٹاکی پھٹنے تک، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی کارروائیاں ہمیشہ وسیع پیمانے پر میڈیا کی توجہ اور قیاس آرائیوں کا مرکز بنتی ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی طیاروں نے ایرانی جوہری تنصیبات، فوجی تنصیبات اور نجی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا ہے، جن میں سے زیادہ تر ملک کے مغرب اور دارالحکومت تہران کے آس پاس واقع ہیں۔
اگرچہ یہ حملے فضا سے کیے گئے لیکن شبہ ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے بھی ان اہداف کا سراغ لگانے اور زمین سے کارروائیوں میں مدد دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ موساد کے ایجنٹوں نے ایران کے باقی ماندہ فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کے لیے ملک میں سمگل کیے گئے ڈرونز استعمال کیے اور ایرانی حکام پہلے بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ انھیں شبہ ہے کہ ان کی سکیورٹی فورسز میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے مددگار موجود ہیں۔
13 جون کو اسرائیلی حملوں کے آغاز کے بعد سے ایرانی فوج کے اہم اعلیٰ حکام اور جوہری سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے پاس ان کے موجودگی کے مقام کے بارے میں خفیہ معلومات موجود تھیں۔
ان واقعات میں موساد کے کردار کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ اسرائیل اس ادارے کی سرگرمیوں کے بارے میں شاذ و نادر ہی تبصرہ کرتا ہے اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے دیگر ادارے بھی موجود ہیں لیکن یہاں ہم ماضی میں موساد کی قابل ذکر کامیاب اور ناکام کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
موساد کی کامیابیاں
اسماعیل ہنیہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی کے ہمراہ۔ یہ دونوں افراد اسرائیل حملوں کا نشانہ بنےحماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت
حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ کو 31 جولائی 2024 کو تہران کے ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل نے ابتدائی طور پر اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن چند ماہ بعد اسرائیل کے وزیر دفاع کاٹز نے اعتراف کیا تھا کہ اس قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
تاہم یہ تاحال واضح نہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کیسے اور کن حالات میں ہوئی۔
حماس کے ایک سینیئر عہدیدار خلیل الحیا نے ایک نیوز کانفرنس میں عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک میزائل نے ہنیہ کو براہ راست نشانہ بنایا۔
لیکن نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں سات عہدیداروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہنیہ ایک بم کا نشانہ بنے جو دو ماہ قبل اس عمارت میں نصب کیا گیا تھا جہاں وہ قیام پذیر تھے۔
بی بی سی ان میں سے کسی بھی دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
اسماعیل ہنیہ سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے والے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے علاوہ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار، ان کے بھائی محمد، حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمد ضیف اور ان کے نائب مروان عیسیٰ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے کیے گئے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں میں کم از کم 37 افراد ہلاک جبکہ تین ہزار زخمی ہوئے تھےحزب اللہ کے کارکنوں پر ’پیجر‘ حملے
17 ستمبر 2024 کو لبنان بھر میں بیک وقت ہزاروں پیجرز پھٹے اور یہ واقعات خاص طور پر ان علاقوں میں پیش آئے جہاں عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کا اثر و نفوذ تھا۔
ان دھماکوں میں نہ صرف یہ پیجر استعمال کرنے والے افراد بلکہ ان کے آس پاس موجود افراد بھی زخمی یا ہلاک ہوئے، جس سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلا۔
اگلے دن واکی ٹاکیز میں بھی اسی طرح دھماکے ہوئے جو مزید سینکڑوں افراد کے زخمی اور ہلاکہونے کی وجہ بنے۔
اس حملے کے وقت، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپیں چل رہی تھیں جو سات اکتوبر2023 کو حماس کے حملوں کے ایک دن بعد حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی ٹھکانوں پر راکٹ داغے جانے کے بعد سے بڑھ گئی تھیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے ان واقعات کے دو ماہ بعد اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل اس کا ذمہ دار ہے۔
بی بی سی کے امریکی میڈیا پارٹنر سی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دو سابق ایجنٹوں نے آپریشن کی تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ موساد نے واکی ٹاکی کی بیٹریوں میں ایک دھماکہ خیز آلہ چھپایا تھا کیونکہ واکی ٹاکی عام طور پر حفاظتی جیکٹ پہننے والے فرد کے دل کے قریب موجود جیب میں رکھے جاتے تھے۔
سی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ نے 10 سال قبل ایک جعلی کمپنی سے ’اچھی قیمت‘ پر 16 ہزار سے زائد واکی ٹاکی بعد میں پانچ ہزار پیجرز بھی خریدے تھے۔
ان دھماکوں سے پورے لبنان میں خوف کی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ دھماکے بازاروں سمیت بہت سے عوامی مقامات پر ہوئے تھے۔
ان دھماکوں کے بعد لبنان کے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے تھے جن میں سے کئی معذور ہو گئے۔
انسانی حقوق کے معاملات کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ وولکر ترک نے اس حملے کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔
محسن فخری زادہ ایک ایسی ریموٹ کنٹرول مشین گن کا نشانہ بنے جسے مصنوعی ذہانت کی مدد حاصل تھیمحسن فخری زادہ کا قتل
نومبر 2020 میں، ایران کے سب سے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو لے جانے والے قافلے کو دارالحکومت تہران کے مشرق میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
فخری زادہ کو ایک ایسی ریموٹ کنٹرول مشین گن سے ہلاک کیا گیا جسے مصنوعی ذہانت کی مدد حاصل تھی۔
بی بی سی فارسی کے جیار گول نے اس وقت لکھا تھا کہ ’کسی بھی متحرک ہدف کو نپے تلے انداز میں ایسے قتل کرنے کے لیے کہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچے، جائے وقوع سے واقعے کے وقت دی گئی انٹیلی جنس کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
اپریل 2018 میں نیتن یاہو نے مبینہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق دستاویزات کے درجنوں فولڈرز دکھائے تھے، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں موساد نے تہران سے صرف 30 کلومیٹر دور ایک سٹوریج تنصیب پر ایک چھاپے کے دوران چوری کیا تھا (بعد میں ایرانی صدر حسن روحانی نے اس کی تصدیق کی تھی)۔
خصوصی طور پر بلائی گئی نیوز کانفرنس میں آرکائیوز پیش کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے محسن فخری زادہ کے اس جوہری پروگرام میں کردار پر روشنی ڈالی تھی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ جوہری ہتھیاروں کا ایک غیراعلانیہ پروگرام تھا۔
اس وقت انھوں نے کہا تھا ’ڈاکٹر محسن فخری زادہ... اس نام کو یاد رکھیں۔‘
اس سے قبل ایران نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے 2010 سے 2012 کے درمیان چار دیگر ایرانی جوہری سائنس دانوں کو بھی قتل کیا تھا۔
اسرائیلی سفارت کاروں نے دعوی کیا کہ محمود کے قتل سے ’موساد کا تعلق ثابت کرنے کے شواہد موجود نہیں ہیں۔‘ تاہم انھوں نے تردید بھی نہیں کیمحمود المبوح کا دبئی کے ہوٹل میں قتل
2010 میں حماس کے ایک سینیئر عسکری رہنما محمود المبوح کو دبئی کے ایک ہوٹل میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر یہ ایک قدرتی موت لگ رہی تھی لیکن دبئی پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لینے کے بعد قاتل ٹیم کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
بعد ازاں پولیس نے انکشاف کیا کہ محمود المبوح کو پہلے بجلی کا مہلک جھٹکا دیا گیا اور پھر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا۔
یہ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ آپریشن موساد کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے بعد متحدہ عرب امارات کی سفارتی ناراضگی کو جنم دیا تھا۔
اسرائیلی سفارت کاروں نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں موساد کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا تاہم انھوں نے اس کی تردید بھی نہیں کی جو اسرائیل کی ایسے معاملات میں ’ابہام‘ برقرار رکھنے کی پالیسی سے مطابقت رکھتی ہے۔
یحیی عیاش حماس کے عسکری ونگ کے نمایاں رہنما تھےیحیی عیاش اور پھٹنے والا فون
1996 میں ایک خفیہ کارروائی کے دوران موساد نے حماس کے ایک اہم رکن اور بم تیار کرنے والے یحیی عبدالطیف عیاش کو قتل کر دیا تھا۔ اس کارروائی کے لیے موٹرولا ایلفا موبائل فون میں 50 گرام دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔
یحیی عیاش حماس کے عسکری ونگ کے نمایاں رہنما تھے اور انھیں بم تیار کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے والے پیچیدہ حملوں کی منصوبہ بندی کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ اسی لیے وہ اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو چکے تھے۔
2019 میں اسرائیل کی جانب سے یحیی عیاش کے قتل کے چند تفصیلات کی نشریات پر پابندی ہٹا دی تھی اور اسرائیلی ٹی وی نے یحییٰ کی اپنے والد سے ہونے والی آخری گفتگو کی ریکارڈنگ بھی نشر کی تھی۔
یحیی عیاش کے قتل سے بھی واضح ہوتا ہے کہ موساد کس طرح سے جدید ٹیکنالوجی کو ٹارگٹ کلنگ میں استعمال کرتی رہی ہے۔
موساد ایجنٹ سمگل ہونے والے افراد کے ساتھ’آپریشن برادرز‘
1980 کے آغاز میں موساد نے جھانسہ دینے کی ایک غیر معمولی کارروائی میں، اس وقت کے وزیر اعظم کی ہدایت پر، ایتھوپیا سے سات ہزار سیاہ فام یہودیوں کو سوڈان کے راستے اسرائیل سمگل کیا۔
اس خفیہ آپریشن کے دوران ایک جعلی ڈائیونگ ریزورٹ قائم کیا گیا۔
واضح رہے کہ سوڈان عرب لیگ کا رکن ملک اور اسرائیل مخالف تھا اور اسی لیے خفیہ طریقے سے موساد کے ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے ساحل سمندر پر اپنے اڈے کو ایک جعلی ہوٹل کا روپ دیا۔
دن کے وقت اسرائیلی ایجنٹ ہوٹل کا عملہ بن کر کام کرتے تھے اور رات میں یہودیوں کی سمگلنگ کا کام ہوتا تھا جو ایتھوپیا سے پیدل سفر کرنے کے بعد اس مقام تک پہنچتے تھے۔ ان لوگوں کو سمندر یا فضائی راستے سے اسرائیل بھیجا جاتا تھا۔
اس آپریشن کی غیر معمولی بات یہ تھی کہ یہ پانچ سال میں مکمل ہوا اور جب تک سوڈان کو خبر ہوئی، اسرائیلی ایجنٹ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد فرار ہو چکے تھے۔
’ہولوکاسٹ‘: نازی افسر کی گرفتاری
ایڈولف کے خلاف مقدمہ چلانے کے بعد انھیں سزائے موت دے دی گئی1960 میں ارجنٹینا سے سابق نازی افسر ایڈولف ایخمین کا اغوا موساد کی سب سے یادگار انٹیلیجنس کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
ایخمین ہولوکاسٹ کے اہم کرداروں میں سے ایک تھے جن پر دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کے خلاف مظالم کے الزامات تھے۔
یاد رہے کہ یورپ میں یہودیوں کے قتل عام، جسے ’ہولوکاسٹ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، میں تقریباً 60 لاکھ یہودی قتل کر دیے گئے تھے۔
تاہم جرمنی کی شکست کے بعد ایخمین فرار ہو گئے اور گرفتاری سے بچتے ہوئے متعدد ممالک سے ہوتے ہوئے ارجنٹینا پہنچ گئے۔
سنہ 1957 میں مغربی جرمنی کی ریاست ہیسے کے چیف پراسیکیوٹر فرٹز باؤر نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے رابطہ کر کے اطلاع دی کہ ایڈولف زندہ ہیں اور ارجنٹائن میں واقع ایک خفیہ اڈے میں مقیم ہیں۔
موساد کی 14 خفیہ ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے ان کا سراغ لگا کر انھیں اغوا کیا اور اسرائیل پہنچا دیا جہاں ایڈولف کے خلاف مقدمہ چلانے کے بعد انھیں سزائے موت دے دی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
آپریشن اینٹیبے
اس کارروائی کے دوران تین یرغمال مسافروں سمیت موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے بھائی یوناتن نتن یاہو بھی ہلاک ہو گئے تھے جو اسرائیلی فوجی تھےیوگینڈا میں ’آپریشن اینٹیبے‘ کو اسرائیل کی سب سے کامیاب عسکری کارروائیوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جس کے دوران موساد کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر اسرائیلی فوج نے آپریشن کیا تھا۔
اس آپریشن میں اسرائیلی کمانڈوز نے تل ابیب سے براستہ ایتھنز پیرس جانے والے ایک مسافر بردار طیارے کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا جس میں 250 مسافر سوار تھے۔ ان مسافروں میں 103 اسرائیلی شہری تھے۔
اس طیارے کو ہائی جیک کرنے والے پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کے دو اراکین کے ساتھ دو جرمن شہری بھی شریک تھے جن طیارے کو یوگانڈا لے گئے۔
اسرائیلی کارروائی کے دوران کمانڈوز کی ایک ٹیم نے 100 مسافروں کو بحفاظت آزاد کروا لیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران تین یرغمال مسافروں سمیت موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے بھائی یوناتن نتن یاہو بھی ہلاک ہو گئے تھے جو اسرائیلی فوجی تھے۔ اس آپریشن کے دوران یوگانڈا کے متعدد فوجی بھی مارے گئے تھے۔
میونخ اولمپکس میں کھلاڑیوں کے قتل کا بدلہ

1972 میں فلسطینی گروہ ’بلیک ستمبر‘ نے جرمنی میں منعقد ہونے والے میونخ اولمپکس کے دوران اسرائیلی اولمپکس ٹیم کے دو اراکین کو ہلاک اور نو کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مغربی جرمنی کی پولیس کی جانب سے ان یرغمالیوں کو آزاد کروانے کی کارروائی کے دوران تمام قیدی ہلاک ہو گئے تھے۔
بعد میں موساد نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے کئی اراکین کو نشانہ بنایا جن میں محمود ہمشیری بھی شامل تھے جنھیں پیرس کے اپارٹمنٹ میں ان کے فون میں دھماکہ خیز مواد نصب کر کے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس فون دھماکے میں محمود ہمشیری کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ان کی موت واقع ہوئی۔
موساد کی ناکامیاں
متعدد کامیابیوں کے باوجود موساد کی ہر کارروائی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوئی اور انٹیلی جنس کی متعدد ناکامیاں بھی ہوئی ہیں۔
سات اکتوبر کا حملہ

حماس کی جانب سے سات اکتوبر 2023 کو غزہ کی سرحد کے قریب اسرائیلی قصبوں پر کیے گئے حملے نے ملک کو مکمل طور پر حیران کر دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موساد کی جانب سے حملے کی پیش گوئی کرنے میں ناکامی کو ایک بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے جو حماس کے حوالے سے اسرائیل کی ڈیٹرنس پالیسی کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں تقریبا 1200 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ تقریبا 251 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ واپس لے جایا گیا۔
حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جنگ کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں اب تک 55 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
یوم کپور جنگ

حماس کے حملے سے تقریبا 50 سال پہلے اسرائیل کو ایک اور ایسے ہی اچانک حملے کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔
چھ اکتوبر 1973 کو مصر اور شام نے جزیرہ نما سینا اور گولان پر قبضہ کرنے کے لیے اسرائیل پر اچانک حملہ کر دیا تھا۔
اس حملے میں، جو یہودیوں کے کفارہ کے دن یوم کپور پر کیا گیا تھا، اسرائیل کے خلاف مصر اور شام نے بیک وقت دو محاذ کھول دیے تھے اور اسرائیل ابتدائی دنوں میں تیار دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
مصری فوج بہت کم نقصان اٹھاتے ہوئے نہر سوئز نہر پار کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جبکہ شامی فوج بھی گولان کی پہاڑیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ سوویت یونین کی جانب سے شام اور مصر کو اسلحہ اور رسد فراہم کیا گیا جبکہ امریکہ نے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل کی مدد کی تھی۔
تاہم اسرائیل بعد میں مصر اور شام کی فوجوں کو پسپا کرنے میں کامیاب رہا اور 25 اکتوبر کو جنگ اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اس سے چار دن قبل ہی اقوام متحدہ میں جنگ روکنے کی قرارداد منظور ہوئی تھی۔
جب اسرائیل کو حماس رہنما کی جان بچانی پڑی
خالد مشعل1997 میں حماس کے سیاسی رہنما خالد مشعل کو اردن میں زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی وجہ سے ایک بڑے سفارتی بحران نے جنم لیا تھا۔
یہ کاروائی اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب ایک اسرائیلی ایجنٹ پکڑا گیا جس کے بعد اسرائیل کو مجبورا خالد مشعل کو دیے جانے والے زہر کا اثر زائل کرنے والی دوا دے کر ان کی جان بچانی پڑی۔
اس کام کے لیے موساد کے سربراہ ڈینی یاٹوم خصوصی طور پر ایک طیارے میں اردن پہنچے تاکہ خالد مشعل کا علاج کیا جا سکے۔
اس کارروائی کے بعد اردن اور اسرائیل کے تعلقات بگڑ گئے تھے۔
حماس رہنما محمود الظہر پر ناکام قاتلانہ حملہ

2003 میں اسرائیل نے غزہ شہر میں حماس رہنما محمود الظہر کے گھر پر فضائی حملہ کیا۔
اس کارروائی میں محمود الظہر تو بچ گئے تھے لیکن ان کی بیوی اور بیٹا خالد متعدد دیگر افراد کے ساتھ ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حملے میں ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا جس سے گنجان آباد علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے سنگین نتائج پر بات ہوئی تھی۔
لاوون افیئر

1954 میں مصری حکام نے اسرائیل کے ایک خفیہ آپریشن، جس کا نام ’سوزانا‘ تھا، کو ناکام بنا دیا تھا۔
اسرائیل کا منصوبہ تھا کہ مصر میں امریکی اور برطانوی تنصیبات میں بم رکھے جائیں تاکہ برطانیہ سوئز میں اپنی فوج رکھنے پر مجبور ہو جائے۔
اس ناکام آپریشن کے بعد پیدا ہونے سفارتی بحران کو اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع پنہاس لاوون کی وجہ سے ’لاوون افیئر‘ کا نام دیا گیا جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ اس کارروائی کی منصوبہ بندی میں شریک تھے۔