’ایک نوبیل انعام پاکستانی عوام کے لیے‘

پاکستانی ریاست کے جن سیانوں نے اپنے تئیں ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کر کے اپنی طرف سے ایک سفارتی چال چلی ہے انھیں علم تو ہو گا کہ دو نوبیل انعام دو پاکستانی جیت چکے ہیں۔
ٹرمپ
Getty Images

پاکستانی ریاست کے جن سیانوں نے اپنے تئیں ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کر کے اپنی طرف سے ایک سفارتی چال چلی ہے انھیں علم تو ہو گا کہ دو نوبیل انعام دو پاکستانی جیت چکے ہیں۔

پہلے ڈاکٹر عبدالسلام ہیں جو اتنے کٹر پاکستانی تھے کہ اپنی زیادہ تر عمر یورپ میں گزاری لیکن مرتے دم تک پاکستانی پاسپورٹ کو دل سے لگا کر رکھا۔ جو ہر صبح قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے اور ریڈیو پاکستان کی بین الاقوامی نشریات سنتے تھے۔

جب اپنے نوبیل انعام کی تقریب میں شریک ہوئے تو شیروانی، کھسہ اور پگڑی پہن کر اپنے پاکستانی پنجابی کلچر کی نمائندگی کی۔ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنے وطن کی مٹی میں دفن ہوئے۔

ہمیں ان کی فزکس کے میدان میں تحقیق سے کوئی غرض نہیں۔ ہمیں ان کی پاکستان سے پکی محبت کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمیں ان کے ایمان سے مسئلہ تھا اور یہ مسئلہ ان کی موت کے بعد بھی حل نہیں ہوا اور ڈاکٹر عبدالسلام کے اپنی ہی وطن عزیز میں ان کی قبر بھی محفوظ نہیں۔

ملالہ کو امن کا نوبیل انعام ملنے سے پہلے وہ قوم کی آنکھوں کے سامنے بچی تھی۔ جس پر ہمیں شک تھا کہ یہ مغرب کی کٹھ پتلی ہے۔ جب طالبان نے اس کو بلاک کرنے کی کوشش کی تو یہ شک یقین میں بدل گیا۔ پر وہ اپنی زندگی سمیٹ کر مغرب میں بس گئی، نوبیل امن انعام ملا، پوری دنیا میں سلیبرٹی بن گئی۔

تو اب ہمیں نہ اس کے انعام سے غرض ہے، نہ اس کے کام سے۔ بس قوم کی غدار ٹھہری۔ اب بھی پاکستان میں، دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ہو تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ دیکھا ملالہ پھر نہیں بولی۔

ہم نے تو جب بچی تھی تب ہی یہ بتا دیا تھا کہ یہ چھوٹی سی غدار ہے، بڑی ہو کر بڑی غدار بنے گی۔

تو ہمیں اپنے نوبیل انعام جیتنے والے تو منظور نہیں لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ امن انعام کا اصل حقدار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ وہ کہتا ہے ایک نہیں مجھے تو چار، پانچ انعام ملنے چاہییں لیکن مجھے نہیں ملے گا کیونکہ میں لبرل نہیں ہوں۔

شہباز شریف، آیت اللہ علی خامنہ ای
Getty Images
اب ہم ایک دن ٹرمپ کو امن کے انعام کے لیے نامزد کریں گے اور اگلے دن اس کے شکار ہونے والوں کو دلاسہ بھی دیں گے

پاکستان اس لیے چاہتا ہے کہ انھیں یہ انعام ملے کیونکہ انھوں نے انڈیا، پاکستان کشیدگی میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ میرا خیال ہے اس لیے بھی کیونکہ ٹرمپ نے پاکستان کا نام چودہ، پندرہ مرتبہ لیا ہے، آئی لو یو پاکستان بولا ہے، ہمارے فیلڈ مارشل کو ظہرانے پر بلایا ہے۔

بند کمروں کے پیچھے ہونے والے فیصلوں کے بارے میں ہمیں نہیں بتایا گیا لیکن جس دن پاکستان نے سرکاری طور پر امن کا نمائندہ کہا اس کے چند دن بعد ہی اس نے ہمارے بردار اسلامی ملک اور ہمسائے ایران پر اس کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کے بہانے سے بنکر بسٹر لیس بھاری بم گرائے اور مزید گرانے کا وعدہ کیا۔

اب ہم ایک دن ٹرمپ کو امن کے انعام کے لیے نامزد کریں گے اور اگلے دن اس کے شکار ہونے والوں کو دلاسہ بھی دیں گے۔ ایک ہاتھ ظالم کے کندھے پر اور دوسرا ہاتھ مظلوم کے ہاتھ میں۔ بزرگ اردو ادیب نے لکھا تھا ہمارا خواب مکہ ہے لیکن اس کی تقدیر کوفہ۔

لیکن یہ دنیا کسی بزرگ ادیب کے ہاتھوں لکھی تحریر نہیں ہے۔ ریاست کو اپنی بقا کے لیے دو رُخی پالیسی اپنانی پڑتی ہے۔ ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو ہمارا حال وہی ہوتا جو عراق، شام اور لیبیا کا ہوا۔ کوئی دن آنا ہے کہ ہمیں بتایا جائے گا کہ اگر ہماری یہ پالیسی نہ ہوتی تو ہمارا حال بھی وہی ہوتا جو ایران کا ہوا۔

نوبیل انعامات مغرب کے ہیں، فیصلے بھی وہیں ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کو دیں یا نہ دیں سابق امریکی صدر اوبامہ کو دے چکے ہیں جس نے اپنے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں کئی ملکوں پر ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ڈرون حملوں کا حکم دیا۔ ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل تھا۔

امن کا نوبیل انعام بعض دفعہ ان خواتین کے حصے میں بھی آتا ہے جن کو امریکہ آزاد کرانے نکلا تھا۔ ایک ایرانی اور عراقی خاتون کو یہ انعام مل چکا ہے۔

علم نہیں پاکستانی حکام نے یہ سوچا کہ نہیں کہ کل کلاں یہی انعام، بلوچ مسنگ پرسنز کے لیے تحریک چلاتی سمی دین بلوچ یا ماہ رنگ بلوچ کو مل گیا تو انھیں کون سی جیل میں ڈالنا ہے۔

ہماری جس حکومت نے ٹرمپ کو اس انعام کے لیے نامزد کیا ہے وہ اپنے آپ کو سینے پر ہاتھ مار کر ہائبرڈ نظام کہتی ہے۔ جس کا سلیس اردو میں مطلب یہ ہے کہ آپ الیکشن کراتے رہیں، ووٹ ڈالتے رہیں، اسمبلیوں میں بیٹھ کر تنخواہ لیتے رہیں، ایک دوسرے کو چٹکلے سناتے رہیں، عدالتوں میں اپیل پر اپیل کرتے رہیں لیکن آپ کی قسمت کے فیصلے ہم بند دروازوں کے پیچھے ہی کریں گے کیونکہ دیکھو اگر امریکہ آ گیا تو بہت مارے گا، اس لیے ہماری ہی مار سہہ لو۔

اگر صبر کا کوئی عالمی انعام ہوتا تو پاکستانی عوام کو ہر سال ملتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.