کپل شرما شو کے دوران سلمان خان نے بتایا کہ ’ہم روزانہ ہڈیاں تڑوا رہے ہیں، پسلیاں ٹوٹ گئی ہیں، ہم ٹرائیجیمنل نیورلجیا کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ دماغ میں اینیورزم ہے، پھر بھی ہم کام کر رہے ہیں۔‘
سلمان خان کا کہنا ہے کہ کئی بیماریوں کی زد میں ہیں لیکن کام کر رہے ہیںانڈیا میں کپل شرما کے معروف کامیڈی شو ’دی گریٹ انڈین کپل شو‘ کے تیسرے سیزن کا آغاز بالی وڈ کے ’سلطان‘ اداکار سلمان خان سے ہوا۔ وہ کپل شرما شو کے پہلے مہمان تھے۔
سلمان خان اپنی فلم ’سکندر‘ کی تشہیر کے لیے شو میں آئے تھے۔ اس دوران کپل شرما اور وہاں موجود افراد نے ان سے فلموں اور ذاتی زندگی سے متعلق سوالات پوچھے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سلمان خان نے بتایا کہ وہ ’برین اینیورزم‘ نامی بیماری کا شکار ہیں۔
سلمان نے اپنی صحت کے مسائل پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سکندر‘ کی شوٹنگ کے دوران ان کی پسلی میں چوٹ آئی تھی۔
انھوں نے کہا: ’ہم روزانہ ہڈیاں تڑوا رہے ہیں، پسلیاں ٹوٹ گئی ہیں، ہم ٹرائیجیمنل نیورلجیا کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ دماغ میں اینیورزم ہے پھر بھی ہم کام کر رہے ہیں۔ اے وی میلفارمیشن ہے، اس کے باوجود ہم چل رہے ہیں۔ میں ایکشن کرتا ہوں، میں چلنے کے قابل نہیں ہوں، پھر بھی میں ڈانس کر رہا ہوں۔ میری زندگی میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔‘
سلمان کے اس بیان کے بعد لوگ انٹرنیٹ پر برین اینیورزم سے متعلق معلومات تلاش کر رہے ہیں۔ برین اینیورزم دراصل کیا ہے اور یہ بیماری کتنی خطرناک ہے؟
برین اینیورزم در اصل دماغ کی شریانوں میں بننے والی گٹھلی ہےبرین اینیورزم کیا ہے؟
رگوں (خون کی نالی یا شریان) میں ابھار کو اینیورزم کہتے ہیں۔ یہ گٹھلی رگوں کی کمزوری کی وجہ سے بنتا ہے۔ یہ خاص طور پر وہاں بنتا ہے جہاں رگ دو حصوں میں بٹتی ہے۔
جب خون اس کمزور حصے سے گزرتا ہے، تو اس کا دباؤ اس جگہ کو باہر کی طرف دھکیلتا ہے، جیسے غبارہ پھولتا ہے۔
اینیورزم جسم کی کسی بھی رگ یا شریان میں ہو سکتا ہے لیکن یہ اکثر دو جگہوں پر ہوتا ہے۔ ایک اس شریان میں جو دل سے خون کو جسم تک لے جاتی ہے۔ اور دوسرا دماغ میں۔
اگر اینیورزم دماغ میں ہو تو اسے برین اینیورزم کہتے ہیں۔
یہ گٹھلی جب پھٹتی ہے تو جان لیوا ہو سکتی ہے برین اینیورزم کی اقسام
برین اینیورزم کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں۔
ایک- سیکولر اینیورزم
اسے بیری اینیورزم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اینیورزم انگور کی طرح لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ خون سے بھری ہوئی گول تھیلی ہے جو کسی اہم شریان یا اس کی شاخوں میں سے انگور کی طرح لٹکی ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر دماغ کے بیس (نیچے) کی شریانوں پر بنتا ہے۔ بیری اینیورزم دماغی گٹھلی سب سے عام قسم ہے۔
دو- فیوزی فارم اینیورزم
اس قسم کے اینیورزم میں شریان کسی غبارے کی طرح پھول جاتی ہے یعنی شریان کے گرد اس کے سارے حصے پھول جاتے ہیں۔
تین-مائکوٹک اینیورزم
یہ اینیورزم انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب کوئی انفیکشن دماغ کی شریانوں کو متاثر کرتا ہے تو یہ ان کی دیوار کو کمزور بنا دیتا ہے۔ اس سے گٹھلی بننے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔
برین اینیورزم یا دماغ میں گٹھلی کی علامات
برین اینیورزم خطرناک نہیں ہے جب تک کہ یہ پھٹ نہ جائے۔ اگر یہ پھٹ جائے تو اس کی وجہ سے انتہائی خطرناک صورت حالت پیدا ہوتی ہے جسے سب ایراکنائڈ ہیموریج (ایس اے ایچ) کہا جاتا ہے۔ اس سے دماغ میں خون رسنے لگتا ہے اور دماغ کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
علامات میں سر میں شدید درد کا ہونا شامل ہےعلامات
برین اینیورزم کے پھٹنے کے بعد اس کی علامات مندرجہ ذیل ہیں۔
- اچانک، شدید اور ناقابل برداشت سر درد (جیسے کسی نے آپ کے سر پر زور سے مارا ہو)
- گردن میں اکڑن
- متلی اور قے
- روشنی کو دیکھتے وقت درد
لیکن جب تک یہ نہیں پھٹتا ہے اس اینیورزم کی عام طور پر کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی، خاص طور پر اگر یہ چھوٹا ہو۔
اگر یہ بڑا ہو جائے تو یہ قریبی اعصاب پر دباؤ ڈال سکتا ہے، جس سے سر درد، بینائی میں تبدیلی، یا چہرے کے سن یا شل ہوجانے جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔
برین اینیورزم کیوں ہوتا ہے؟
محققین پوری طرح سے یہ نہیں سمجھ سکے کہ خون کی شریانیں کیوں کمزور ہو جاتی ہیں تاہم اس کی چند اہم وجوہات میں تمباکو نوشی، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ خاندان کے کسی رکن کو دماغی اینیورزم کی شکایت جینیات کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔
بعض اوقات خون کی شریانیں پیدائش سے ہی کمزور ہوتی ہیں۔
سر کی چوٹ، شراب اور منشیات کا استعمال بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔
برین اینیورزم کسی بھی عمر میں کسی کو بھی ہو سکتا ہے، لیکن 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں زیادہ عام ہے۔ یہ مردوں کے مقابلے خواتین میں زیادہ عام ہے۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال ہر پندرہ ہزار میں سے ایک شخص کے دماغ میں گٹھلی پھٹ جاتی ہے۔
امریکہ میں قائم برین اینیورزم فاؤنڈیشن کے مطابق امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ افراد میں اس کے آٹھ سے دس کیسز سامنے آتے ہیں۔
اس سے بچنے کے لیے تمباکو نوشی اور تلے ہوئے کھانے سے پرہیز بتایا جاتا ہےاس کا علاج کیا ہے؟
میو کلینک امریکہ کی ایک نجی تنظیم ہے جو صحت سے متعلق تحقیق کرتی ہے۔ تنظیم نے برین اینیورزم کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔
پھٹ جانے والے برین اینیورزم کے دو عام علاج ہیں: سرجیکل کلیپنگ اور اینڈو ویسکولر تھراپی۔
بعض صورتوں میں یہ طریقہ علاج نہ پھٹے ہوئے اینیورزم کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس میں فوائد سے زیادہ خطرات مضمر ہو سکتے ہیں۔
سرجیکل کلیپنگ
اس طریقہ کار میں اینیورزم کو بند کرنا شامل ہے۔ نیورو سرجن کھوپڑی کی ایک ہڈی کو ہٹا کر اینیورزم تک پہنچتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اس شریان کا پتہ لگاتے ہیں جو اینیورزم کو کھلا رہی ہے۔ ایک چھوٹی دھاتی کلپ وہاں رکھی جاتی ہے تاکہ خون کے بہاؤ کو اینیورزم میں روکا جا سکے۔
سرجیکل کلپنگ کو بہت موثر سمجھا جاتا ہے۔ کلیپنگ کیے ہوئے اینیورزم دوبارہ نہیں بنتے ہیں۔ خطرات میں دماغ میں خون بہنا یا خون کا جمنا شامل ہے۔
سرجیکل کلپنگ سے صحت یاب ہونے میں تقریباً 4 سے 6 ہفتے لگتے ہیں۔ اگر اینیورزم پھٹا نہیں ہو تو لوگ ایک یا دو دن میں ہسپتال سے گھر جا سکتے ہیں۔ پھٹ جانے والی گٹھلی کے لیے ہسپتال میں طویل قیام کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اینڈو ویسکولر علاج
یہ سرجیکل کلپنگ سے کم ناگوار ہے اور بعض اوقات اس سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ایک پتلی ٹیوب (کیتھیٹر) خون کی نالی کے ذریعے گٹھلی تک جاتی ہے اور اس میں دھات کی خاص کوائل ڈالی جاتی ہے۔
سرجیکل کلپنگ کی طرح، یہ طریقہ کار دماغ میں خون بہنے یا خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کا معمولی خطرہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس میں یہ خطرہ بھی ہے کہ گٹھلی دوبارہ ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس لیے وقتاً فوقتاً امیجنگ ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔
فلو ڈائیورژن یا بہاؤ کا رخ موڑنا
یہ بھی ایک اینڈویسکولر علاج ہے۔ اس میں شریان میں ایک سٹنٹ ڈالا جاتا ہے تاکہ خون کے بہاؤ کو اینیورزم سے ہٹا دیا جائے۔ یہ گٹھلی پھٹنے کے خطرے کو کم کرتا ہے اور جسم کو اسے ٹھیک کرنے میں مدد کرتا ہے۔
یہ طریقہ علاج بڑی گھٹلی یا ان عام اینیورزم کے لیے مفید ہے جن کا علاج سرجری یا کوائلنگ سے مشکل نظر آتا ہے۔
برین اینیورزم سے کیسے بچيں؟
اینیورزم روکنے، اس کے پھیلاؤ یا پھٹنے کا خطرہ کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسی عادتوں سے بچیں جو آپ کی خون کی نالیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
اس کے لیے آپ تمباکو نوشی، بہت زیادہ تلی بھنی چیزیں کھانے، بے قابو ہائی بلڈ پریشر اور زیادہ وزن یا موٹاپے سے بچیں۔