ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں جنگلی حیات کو وہ تحفظ حاصل نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک میں دستیاب ہے۔ اسی طرح ملک کے وائلڈ لائف پارکس، سفاری پارکس یا اکثر چڑیا گھر بھی عالمی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اکثر پاکستان کے مختلف چڑیا گھروں اور وائلڈ لائف پارکس میں جانوروں کو ناکافی سہولیات کی فراہمی کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ راولپنڈی کے لوہی بھیر وائلڈ لائف پارک میں پیش آیا، جو محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کے تحت کام کرتا ہے۔ یہاں مختلف اقسام کے جانور موجود ہیں اور شہری بڑی تعداد میں روزانہ تفریح اور جانوروں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔جون 2025 میں عیدالاضحیٰ کے تیسرے روز پارک کے عملے نے ایک انکلوژر میں موجود چھ ہرنوں میں سے چار کو زخمی حالت میں پایا۔ زخموں کی شدت اس قدر تھی کہ وہ جانبر نہ ہو سکے اور ہلاک ہو گئے۔
یہ پارک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، جس میں ایک ہی وقت میں اتنی تعداد میں ہرن ہلاک ہوئے۔
اس واقعے کے بعد محکمہ وائلڈ لائف پنجاب نے باقاعدہ انکوائری کا آغاز کیا، جس کی نگرانی محکمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم کر رہی ہے۔ انکوائری کا مقصد یہ جاننا ہے کہ واقعہ کیسے پیش آیا۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے اس واقعے کے بعد پارک کے ڈپٹی ڈائریکٹر راجہ احسان کو معطل کر کے ان کی جگہ عارفہ بتول کو ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات کر دیا ہے۔عارفہ بتول کا مؤقف
ردو نیوز نے معاملے کی تفصیلات جاننے کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر عارفہ بتول سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا، اُس وقت وہ تعینات نہیں تھیں، تاہم اب وہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکی ہیں اور پارک میں جانوروں کے تحفظ اور بہتر انتظامات کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
جب ان سے ہرنوں کی ہلاکت کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارک کی باڑ ٹوٹنے کے باعث جنگلی کتے یا گیدڑ اندر داخل ہو گئے اور انہوں نے ہرنوں پر حملہ کیا۔ تاہم ان کے ذاتی معائنے میں باڑ کے ٹوٹنے یا کسی اور واضح سکیورٹی خامی کے شواہد نہیں ملے۔
عارفہ بتول کا کہنا تھا کہ ہرنوں کی ہلاکت کا واقعہ عید کے تیسرے دن پیش آیا، جب پارک میں عملے کی حاضری معمول سے کم ہوتی ہے۔ (فوٹو: فیس بک لوہی بھیر پارک)
یاد رہے کہ انکوائری ابھی جاری ہے، تاہم غالب امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ باہر سے کوئی جنگلی جانور، ممکنہ طور پر کتا یا گیدڑ پارک میں داخل ہوا اور ہرنوں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئے اور بعد ازاں ہلاک ہو گئے۔
جانوروں کی حفاظت کے اقداماتاس سوال کے جواب میں کہ کیا پارک میں پہلے سے جانوروں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات موجود تھے، عارفہ بتول کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ عید کے تیسرے دن پیش آیا، جب پارک میں عملے کی حاضری معمول سے کم ہوتی ہے کیونکہ اکثر عملہ چھٹی پر ہوتا ہے۔ اسی کمی کے باعث ممکنہ طور پر کوئی جنگلی جانور پارک میں داخل ہوا اور ہرنوں پر حملہ آور ہوا۔ تاہم، حتمی نتیجہ انکوائری رپورٹ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔کتنے ہرن ہلاک ہوئے؟عارفہ بتول نے تصدیق کی کہ انکلوژر میں مجموعی طور پر چھ چیتل ہرن موجود تھے، جن میں سے چار زخمی حالت میں پائے گئے اور وہ سب ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے ہرنوں میں ایک نر اور تین مادہ شامل تھیں۔ اب انکلوژر میں صرف دو ہرن باقی ہیں۔
پنجاب حکومت نے ہرنوں کی ہلاکت کے بعد پارک کے ڈپٹی ڈائریکٹر راجہ احسان کو معطل کر کے ان کی جگہ عارفہ بتول کو تعینات کر دیا ہے۔ (فوٹو: فیس بک لوہی بھیر پارک)
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پارک میں جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے مکمل عملہ موجود ہے، وزیٹرز کی آمد و رفت معمول کے مطابق جاری ہے، اور جانوروں کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
ماحولیاتی اور جانوروں کے حقوق کے ماہر کا تجزیہپاکستان کی پہلی اینیمل لا فرم ’انوائرنمنٹل اینڈ اینیمل رائٹس کنسلٹنٹس پاکستان‘ کے بانی التمش سعید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وائلڈ لائف پارکس کے لیے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے، جن میں مناسب اور محفوظ باڑ یا چار دیواری شامل ہے تاکہ نہ تو باہر کے جانور اندر آ سکیں اور نہ اندر کے جانور باہر جا سکیں۔ ایسی کسی کوتاہی کی صورت میں انسانوں اور جانوروں دونوں کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وائلڈ لائف قوانین کے سیکشن 18-A میں رواں سال ترمیم کی گئی ہے، جس کے تحت پارک کی باڑ مکمل اور مضبوط ہونی چاہیے اور کسی بھی جگہ اس میں خلا یا ٹوٹ پھوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس قانون کی خلاف ورزی ہو تو اس پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔التمش سعید نے کہا کہ پاکستان کے بیشتر وائلڈ لائف پارکس میں اس قسم کے مسائل عام ہیں، جن کی وجہ سے جانور متاثر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر صرف متعلقہ افسر کو معطل کر کے معاملے کو دبا دیا جاتا ہے، جب کہ اصل مسئلہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔