اسسٹنٹ کمشنر باجوڑ فیصل اسماعیل کے کزن شکیل احمد جب بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے تفصیلات بتا رہے تھے تو پس منظر میں گھر والوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں جو اس صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہے۔
’ہمیں انٹرنیٹ سے پتا چلا کہ باجوڑ میں اس طرح دھماکہ ہوا اور اس میں میرے کزن اے سی باجوڑ فیصل اسماعیل بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی ہم سب گھر والوں پر قیامت ٹوٹ گئی۔ ہم نے فوری طور پر ان کو فون ملایا۔ بار بار ملایا مگر ان کا فون بند جا رہا تھا۔ پھر ہم باجوڑ کی طرف روانہ ہوئے لیکن پھر ان کے آفس سے ایک کولیگ نے فون کیا کہ آپ نہ آئیں فیصل کی شہادت ہو چکی ہے۔‘
اسسٹنٹ کمشنر باجوڑ فیصل اسماعیل کے کزن شکیل احمد جب بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے تفصیلات بتا رہے تھے تو پس منظر میں گھر والوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں جو اس صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہے۔
یاد رہے کہ بدھ کے روز باجوڑ میں ایک بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر ناوگئی باجوڑ فیصل اسماعیل سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں اسسٹنٹ کمشنر ناوگئی فیصل اسماعیل، تحصیلدار ناوگئی عبدالوکیل سمیت تین دیگر افراد شامل ہیں۔
شکیل احمد نے بتایا کہ ’جوان بیٹا فوت ہونے پر والدین کا حوصلہ ٹوٹ رہا ہے اور ان پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ دونوں حیات ہیں لیکن ابھی شدید تکلیف سے گزر رہے ہیں اور ان کے آنسو تھم نہیں رہے۔‘
ان کے مطابق ’فیصل کا دو سالہ چھوٹا بیٹا تو اپنے نقصان سے بھی بے خبر ہے مگر بڑا بیٹا مسلسل روتا رہا ہے اور اس کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔‘
’یہ دکھ سہنا کسی کے لیے آسان نہیں‘
35 سالہ فیصل اسماعیل کا تعلق سوات کے علاقے اوڈی گرام سے تھا، وہ شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ تھے۔
شکیل احمد کے مطابق فیصل اسماعیل ان کے ہم عمر اور گہرے دوست تھے اور ان دونوں کے گھروں کی دیوار سوات کے علاقے میں جڑی ہوئی ہے۔
اوڈی گرام کے اس محلے میں فیصل کرکٹ کھیلتے بڑے ہوئے جہاں شکیل کے مطابق آج تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
شکیل نے بتایا کہ ’آخری بار جب ہماری بات ہوئی تو فیصل نے کہا کہ محرم کے بعد اگلے ویک اینڈ پر میں چھٹی پر آوں گا تو ہم سب کزن اور دوست مل کر گھومنے پھرنے چلیں گے مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس سے پہلے ہی وہ اپنے آخری سفر پر چلے گئے۔ یہ دکھ سہنا ہم میں سے کسی کے لیے آسان نہیں۔‘
فیصل اسماعیل کی سی ایس ایس میں کامیابی
شکیل کے مطابق فیصل اسماعیل نے سی ایس ایس اپنی خواہش پر کیا اور جس وقت انھوں نے امتحان میں کامیابی حاصل کی پورا محلہ ان کے استقبال میں پھولوں کے ہار لیے موجود تھا۔
’ہمارے دادا سمیت فیصل کے والدین اور ہمارا پورا خاندان سڑک پر پھول لیے ان کے استقبال کے لیے موجود تھا اور وہ دن ہم سب کے لیے اعزاز کا دن تھا۔ سب اس کامیابی پر بہت خوش تھے۔‘
شکیل کے مطابق فیصل نے ابتدائی تعلیم کیڈٹ کالج کوہاٹ میں حاصل کی تھی اور بورڈ میں بھی ان کی پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔
’پھر نسٹ سے جیو انفارمیٹکس میں انجینئیرنگ کی جس کے بعد سی ایس ایس کا امتحان کلیئر کیا اور ان کی پوسٹنگ بونیر میں ہوئی جس کے بعد وہ وزیرستان، کوہاٹ اور پھر باجوڑ میں تعینات رہے۔ باجوڑ میں وہ چھ ماہ سے تعینات تھے۔‘
شکیل کے مطابق فیصل انتہائی نفیس، خود دار، فرض شناس، انسان دوست اور فطرت سے پیار کرنے والے انسان تھے۔ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔
شکیل نے بتایا کہ ’فیصل کی شادی کو تقریباً سات سال ہو چکے تھے۔ بچپن میں خاموش طبیعت تھے لیکن جو بھی ٹاسک ملتا تھا اس کو پورا کرتے اور رزلٹ بہترین رہتا تھا۔ پچھلے ہفتے انھوں نے چھٹی پر جمعہ، ہفتہ اور اتوار کا دن گھر پر گزارا اور پھر ڈیوٹی پر گئے لیکن زندہ واپس نہ آئے۔‘
شکیل کے مطابق ’فیصل محلے کے بزرگوں کی بہت عزت کرتے تھے ان کے لیے ہمیشہ کرسی چھوڑ کر جگہ دیتے تھے۔ افسر بننے کے باوجود ان کی یہ عادت برقرار رہی۔ عید کے موقع اور تقریبوں میں خود اٹھ کر سب کو میزبان کے طور پر پوچھتے، پانی خود پلاتے اور ان کی خاطر کرتے۔‘
شکیل نے بتایا کہ فیصل کے والد ریٹائرڈ سکول ہیڈ ماسٹر ہیں اور فیصلخود اپنے بیٹے کو اعلی تعلیم دے کر ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔
صحافی زبیر خان کے مطابق فیصل اسماعیلکے والد برسوں تک شعبہ درس وتدریس سے منسلک رہنے کے بعد پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے۔ فیصل اسماعیل کے ایک بھائی فوج میں کرنل ہیں جبکہ ان کے ایک کزن میجر شعیب کچھ سال قبل سکردو میں ہیلی کاپیٹر حادثہ میں ہلاک ہوگے تھے۔
اوڈی گرام سے صحافی برکت علی نے بی بی سی کے عزیز اللہ خان کو بتایا کہ فیصل اسماعیل نے پی ایم ایس کی تیاری کی اور صوبے میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
’تنخواہ اتنی نہیں کہ گاڑی خرید سکوں‘
صحافی برکت علی نے فیصل اسماعیل کے چچا طاہر اور شوکت کے حوالے سے بتایا کہ گذشتہ اتوار کو وہ گاڑی خریدنے کی خوشی میں رات کا کھانا کھانے گئے۔
صحافی برکت علی کے مطابق ان کے چچا شوکت نے بتایا کہ اس سے قبل جب بھی میں نے فیصل سے پوچھا کہ آپ گاڑی کیوں نہیں لیتے تو وہ جواب دیتے تھے کہ ’میری تنخواہ اتنی ہی ہے کہ میں گاڑی خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
صحافی برکت علی نے فیصل اسماعیل کے چچا طاہر اور شوکت کے حوالے سے مزید بتایا کہ فیصل بہت ملنسار اور شریف النفس انسان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فیصل اسماعیل کے عملے کے افراد بھی کہتے تھے کہ ہم نے اتنا شریف النفس انسان نہیں دیکھا۔‘
اڈی گرام سے سابق ممبر ڈسڑکٹ کونسل اور فیصل اسماعیل کے ماموں زاد بھائی اکرام اللہ خان بتاتے ہیں کہ ’فیصل اسماعیل بچپن ہی سے الگ فطرت کے ساتھ پیدا ہوئے۔۔۔ وہ سب سے مختلف تھے۔ ان کا فوکس ہمیشہ صرف اور صرف مثبت سرگرمیوں کی طرف ہوتا تھا۔ وہ کبھی بھی کسی نفی سرگرمی میں نہیں پائے گے تھے۔بچپن اور زمانہ طالب علمی میں ان کا سارا فوکس صرف تعلیم حاصل کرنا ہی ہوتا تھا۔‘
اکرام اللہخان کا کہنا تھا کہ اپنے علاقے کے ہر فردکے ساتھ ان کا ذاتی رابطہ ہوتا تھا۔ ’اسسٹنٹ کمشنر بننے کے بعد ان کو کم ہی وقت ملتا کہ وہ گاوں آتے مگر جب بھی آتے تو اپنے علاقے میں ہونے والی غمی، خوشی میں اپنی حاضری لگاتے تھے۔ رشتہ داروں اور لوگوں سے خود ملنے جاتے تھے۔ ان کو دیکھ کر کبھی بھی ایسے نہیں لگتا کہ وہ اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں۔‘