سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ: ریسکیو اہلکار کتنی دیر میں پہنچے اور اب سوات میں کیا ہو رہا ہے؟

سوات میں ماحول اب بھی سوگوار ہے۔ تجاوزات ہٹا رہی ہیں،آگہی مہم چلائی جا رہی ہے اور لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ دریا سے دور رہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آئیں گے؟

’ہم بہت شرمندہ ہیں، ہم پنجاب سے آئے ہوئے مہمانوں کو بچا نہیں سکے اور اب وہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہر وقت رہتا ہے۔ رات کو خواب بھی اسی بارے میں آتے ہیں۔‘

یہ الفاظ ہیں ان عینی شاہدین کے جنھوں نے دریائے سوات کے کنارے پر کھڑے ہو کر ان افراد کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تھا جو سوات اور دیگر پہاڑی مقامات کی سیر کو گئے ہوئے تھے۔ فضل واحد دریائے سوات کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دن جب وہ موقع پر پہنچے تو دریا کے کنارے اس وقت کافی لوگ موجود تھے لیکن ’کسی نے ہمت نہیں کی کہ وہ ان کو وہاں سے بچا سکتا۔ ریسکیو والوں کو ہم نے فون کیا لیکن وہ کافی دیر سے آئے۔‘

تاہم اب سرکاری سطح پر ایک آگاہی مہم شروع کی گئی ہے اور لوگوں کو دریاؤں سے دور رہنے اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔

امدادی ادارے کو لوگوں کو بچانے کے لیے لائف جیکٹس اور دیگر سامان فراہم کیا جا رہا ہے اور دریاؤں کے ساتھ تجاوزات کو ختم کیا جا رہا ہے۔

سوات میں اب کیا ہو رہا ہے؟

سوات میں ماحول اب بھی سوگوار ہے۔ انتظامیہ ہوٹلوں کی تجاوزات ہٹا رہی ہیں، دریا کو محفوط رکھنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، ریسکیو اداروں کی جانب سے آگہی مہم چلائی جا رہی ہے اور لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ دریاؤں سے دور رہیں۔

حکومت کی جانب سے اس واقعے کی انکوائری بھی کی جا رہی ہے جس کے دوران اب تک چار افسران کو معطل کیا جا چکا ہے۔

لیکن کیا ان اقدامات سے لوگوں کو اطمینان ہو جائے گا کہ اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آئیں گے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت یہ بتا پائے گی کہ یہ واقعہ غفلت یا نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے اور کیا کسی کو سزا دی جائے گی؟

بی بی سی نے سوات میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سوات میں لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور حکومت کیا کہتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ہم نے ریسکیو حکام، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے حکام سمیت ہوٹل مالکان کا موقف بھی جاننے کی کوشش کی۔

’مجھے تو اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے‘

دریائے سوات میں لوگوں کے ڈوبنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

27 جون کو جب سوات بائی پاس روڈ پر ایک ہوٹل کے قریب 17 سیاح پھنس گئے تھے تو اسی وقت اسی دریا پر دیگر مختلف مقامات پر 70 سے زیادہ افراد سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر کو دریا سے نکال لیا گیا تھا جبکہ کچھ ڈوب گئے۔

تاہم یہ واقعہ اس وجہ سے لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوا کیونکہ اسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا تھا۔

وہ کل 17 افراد تھے جن میں بچے، خواتین، نوجوان اور بزرگ بھی شامل تھے۔ ان میں سے 10 کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر ڈسکہ سے تھا جبکہ 6 کا تعلق مردان اور ایک کا تعلق سوات سے بتایا گیا ہے۔

ایک عینی شاہد فضل واحد نے بتایا کہ ’بے بسی کیا ہوتی ہے اس وقت ہم نے دیکھا جب وہ سب ایک ایک کرکے پانی میں بہے جا رہے تھے اور لوگ کنارے پر کھڑے مجبور تھے کہ انھیں وہ بچا نہیں سکتے تھے۔‘

’میں جب آیا تو چیخ و پکار تھی۔ وہ مدد کے لیے آوازیں دے رہے تھے کہ ہمیں بچا لو، ہاتھ اٹھا رہے تھے۔ یہاں لوگ کوشش کر رہے تھے لیکن ان کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا کہ انھیں بچا سکتے۔‘

فضل واحد نے کہا کہ ’ہم بے بس تھے، ان کی مدد نہیں کر سکے۔ ہم صوبہ پنجاب کے لوگوں سے بہت شرمندہ ہیں۔ یہ لوگ تو سوات کے مہمان تھے۔‘

ایک مقامی ٹی وی سے وابستہ کیمرہ مین خواجہ عرفان بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’لوگوں نے ریسکیو اہلکاورں کو فون کیے، کچھ لوگ بھاگے کہ کہیں سے رسی یا کوئی ٹیوب وغیرہ لے آئیں لیکن اس وقت جمعہ کا دن تھا، دوکانیں بند تھیں۔ ہوٹل اور قریبی گھروں میں کوئی اتنی لمبی رسی نہیں تھی کہ ان تک پہنچائی جا سکتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب سے یہ واقعہ دیکھا ہے وہ رات کو سو نہیں سکتے اور ’جب سوچتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔‘

اب تک کیا انکوائری ہوئی ہے؟

یہ واقعہ صبح کے وقت پیش آیا جب سیالکوٹ ڈسکہ سے سیاح سوات کے بائی پاس روڈ پر ناشتے کے لیے رکے تھے۔

یہ سیاح ہوٹل کے ساتھ بہتے دریا کے قریب چلے گئے اور وہاں تصویریں بنانے لگے۔

تاہم خیبر پختونخوا میں بارشوں اور سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ تھی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ دریا کے قریب نہ جائیں۔ لیکن یہ سیاح اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ شاید اس سے لاعلم تھے۔

سٹی میئر سوات شاہد علی خان کے مطابق محکمہ ایریگیشن کو خوازہ خیلہ سے سیلاب کی اطلاع تھی اور مقامی انتظامیہ کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ ’لیکن یہ آگاہی وٹس ایپ گروپس اور ای میل کی حد تک رہی۔ عملی طور پر نہ تو ایریگیشن کے محکمے کے لوگ دریا کے کنارے موجود تھے اور نا ہی مقامی انتظامیہ یا پولیس کے لوگ موجود تھے تاکہ وہ لوگوں کو دریا کی جانب جانے سے روکتے۔‘

’ہوٹل مالکان یا ان کے عملے نے بھی انھیں روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے۔‘

ہوٹل مالکان کا کہنا تھا کہ ان کے عملے نے ان لوگوں کو وہاں جانے سے روکا تھا۔ ایک ہوٹل مالک ڈاکٹر امجد نے بتایا کہ ’ایک چوکیدار نے انھیں آوازیں دیں کہ واپس آجاؤ سیلاب آ رہا ہے لیکن وہ سیاح یہ کہہ رہے تھے کہ بس ایک دو فوٹو اور سیلفیاں لیتے ہیں پھر آتے ہیں۔‘

اس مقام پر جب ہم پہنچے تو دیکھا کہ ایک حفاظتی دیوار تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس کے لیے تعمیراتی کمپنی نے بجری اور ریت کا ایک عارضی بند باندھ رکھا تھا جس کی وجہ سے دریا کا رخ دوسری جانب ہو گیا تھا۔ یہ بند ان سیاحوں سے کوئی چار یا پانچ سو میٹر دور ہوگا۔

وہاں موجود ایک ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ 27 جنوری کو ’جب سیلاب آیا تو وہ عارضی بند پانی کو روک نہیں سکا اور بند پانی میں بہہ گیا جس کی وجہ سے پانی کا تیز ریلہ ادھر ہوٹل کے قریب سے گزرنے لگا جہاں پہلے پانی نہ ہونے کے برابر تھا جس وجہ سے یہ سیاح وہاں پھنس گئے تھے۔‘

کمشنر ملاکنڈ عابد وزیر نے اپنی ابتدائی انکوائری رپورٹ میں کہا ہے کہ ’سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے متاثرہ سیاح 8 بجکر 31 منٹ پر ہوٹل پہنچے اور 9 بجکر 31 منٹ پر دریا کی جانب چلے گئے تھے۔‘

رپورٹ کے مطابقہوٹل کے ایک سکیورٹی گارڈ نے سیاحوں کو دریا میں جانے سے روکا لیکن وہ ہوٹل کے پیچھے طرف سے گئے تھے۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق 9 بجکر 45 منٹ یعنی سیاحوں کے دریا میں داخل ہونے کے 14 منٹ بعد پانی کی سطح بڑھنے پر ریسکیو کو کال کی گئی اور متعلقہ امدادی کارکن 20 منٹ بعد 10 بجکر 5 منٹ پر جائے وقوعہ پہنچے گئے تھے۔ ’سیلاب کے خطرات کے پیش نظر تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ کیا گیا تھا۔‘

سیلاب کے بعد17 پھنسے سیاحوں میں سے 4 کو اسی وقت ریسکیو کر لیا گیا تھا اور 12 افراد کی ڈیڈ باڈیز نکال لی گئیں۔

انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ حادثے کے بعد حکومت نے ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی اور خوازہ خیلہ سوات کو معطل کر دیا ہے۔ ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر سوات اور تحصیل میونسپل آفیسر سوات کو بھی معطل کیا گیا ہے۔

ریسکیو آپریشن کیسے ہوا؟

اس واقعے کے بعد مقامی ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر کو معطل کر دیا گیا اور اس عہدے پر رفیع اللہ مروت کو تعینات کیا گیا ہے۔

ان سے جب ہم نے پوچھا کہ یہ واقعہ کیسے ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں جیسے ہی اطلاع ملی ایک منٹ کے اندر گاڑی روانہ کر دی گئی تھی اور دس سے بارہ منٹ میں گاڑی وہاں پہنچ گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شروع میں جب کال آئی تو اس میں یہ کہا گیا کہ بچے ہوٹل میں پھنس گئے ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ دریا کے اندر پھنس گئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس وقت بہت کم تھا۔ اگر تھوڑا اور وقت ہوتا تو ان سیاحوں کو بچا لیا جاتا۔‘

رفیع اللہ مروت نے تسلیم کیا کہ ’اہلکاروں کی تربیت اور کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے اب جدید سامان اور دیگر وسائل بھی حکام کی جانب سے فراہم کیے جا رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ڈرون بھی فراہمکیا جائے گا جس کی کارکردگی کو شدید موسم یا تیز ہوا میں دیکھا جائے گا کہ اس وقت یہ کیسے کام کرتا ہے۔‘

’وقت ہوتا تو ہم سب کو بچا سکتے تھے‘

اس سال کے چھ مہینوں میں لوگوں کے ڈوبنے کے 28 واقعات پیش آ چکے ہیں۔

ریسکیو کے ڈرائیور عصمت علی ایک مقامی دیسی ساختہ کشتی میں سوار ہو کر لوگوں کو بچانے کے لیے گئے تھے۔

عصمت علی نے بتایا کہ ان کے پاس وقت بہت کم تھا اور ’کشتی سیدھا جاتی نہیں ہے بلکہ کشتی کو دور سے سیلاب میں ڈالا گیا اور سیلاب کا پانی اتنا تیز تھا کہکہ کشتی کو کنٹرول کرنا مشکل تھا۔‘

’میں جب کشتی میں سوار ہوا تو اس وقت صرف چھ افراد وہاں موجود تھے۔‘

عصمت علی نے بتایا کہ ’سیلاب میں کشتی بہت تیزی سے جا رہی تھی اور اسے روکنے کی تدبیر ایک ہی تھی کہ جس جگہ وہ لوگ پھنسے ہوئے تھے اس کے ساتھ کشتی کو روکوں لیکن جب کشتی وہاں پہنچی دو بندے سیلاب میں گر گئے جبکہ تین نے کشتی کو پکڑ لیا اور انھیں ہم خشکی پر لے آئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے پاس وقت ہوتا تو ہم سب کو بچا سکتے تھے لیکن چند میٹر کے فاصلے پر بند ٹوٹنے سے سیلاب سیاحوں تک بہت جلدی پہنچ گیا تھا۔‘

سیاحتی مقام پر دریاؤں میں چارپائیاں؟

اکثر اگر آپ شمالی علاقوں کی جانب جائیں تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہوٹل مالکان سیاحوں کے لیے دریا یا آبی گزرگاہوں کے اندر چارپائیاں رکھ دیتے ہیں اور سیاح اس کا لطف لیتے ہیں۔

لیکن دوسری جانب ان ہوٹل مالکان کے پاس حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے کہ اگر کہیں سے کوئی پانی کا ریلہ آ جائے یا کوئی حادثہ پیش آ جائے تو موقع پر ان کی مدد کی جا سکے۔

دریائے سوات کے کنارے ہوٹل مالکان نے بھی کرسیاں لگا رکھی تھیں اور اور ہوٹل سے دریا تک جانے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ اس بارے میں انتظامیہ یا متعلقہ اداروں نے کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی انھیں روکا گیا۔

صوبائی حکومت نے اب دریا کے کنارے تعمیر شدہ ان ہوٹلوں کو گرا دیا ہے جن کے بارے میں دستاویزات میں تجاوزات کا الزام ہے۔

اس بارے میں ہوٹل مالکان کا اپنا موقف ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ’یہ زمین ان کے آباؤ اجداد کے وقت سے ہے‘ اور یہ کہ ’اس میں تجاوزات کہیں نہیں ہے اور ان کے پاس عدالت کے فیصلے موجود ہیں۔‘

ہوٹل مالک ڈاکٹر امجد نے بتایا ’یہاں باثر افراد کے ہوٹل کو کچھ نہیں کہا جا رہا جبکہ جن کے پاس اثر رسوخ نہیں ہے ان کے ہوٹل گرائے جا رہے ہیں۔‘

ایک ہوٹل مالک رحمت علی نے بتایا کہ ’یہ جھوٹ ہے کہ ہوٹل مالکان نے تجاوزات بنائی ہیں۔ یہاں قانون نہیں ہے دستاویز دکھانے کے باوجود ہمارے ہوٹل گرائے گئے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس کوئی لائف جیکٹ یا رسی نہیں تھی۔ ’ہم کیا، یہاں ریسکو اور انتظامیہ کے لوگ آئے تو ان کے پاس بھی کچھ نہیں تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ کسی کو منع نہیں کر سکتے کہ وہ دریا میں نہ جائیں۔ ’اگر ہم روکتے ہیں تو کمیٹی کے لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ کیوں لوگوں کو منع کرتے ہیں، ہم نے تو باڑ بھی لگائی تھی جسے کمیٹی نے اکھاڑ دیا اور کہا کہ آپ دریا پر قبضہ کر رہے ہیں۔‘

کس ادارے کی کتنی ذمہ داری؟

خیبر پختونخوا کے ان سیاحتی مقامات پر متعدد اداروں کی ذمہ داریاں ہیں۔ ان میں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے علاوہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور ٹورزم پولیس بھی شامل ہیں۔

اسی طرح ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی زمہ داری ہے کیونکہ یہی محکمہ سیلاب کی وارننگ جاری کرتا ہے۔ اس کے بعد ریسکیو کا ادارہ ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ جب الرٹ جاری ہوا اور ایمر جنسی نافذ تھی تو پھر ادارے حرکت میں کیوں نہیں آئے؟

سوات کے سٹی میئر شاہد علی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ہم سب کی زمہ داری تھی، تمام اداروں کی ذمہ داری تھی اور تمام ادارے ناکام ہوئے ہیں۔ وہ اپنی اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کر سکے۔‘

شاہد علی خان کے مطابق ریسکیو 1122 کو انھوں نے کہا تھا کہ صرف ایک جگہ ان کی گاڑیاں نہ ہوں بلکہ دریا کے کنارے بھی ان کا سٹینڈ ہونا چاہیے ’کیونکہ شہر سے گاڑی نکلتے اور دریا تک پہنچنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سیاحوں کو دریا کی طرف جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ لوگ دور دور سے یہاں دریا کے پاس بیٹھنے کے لیے ہی آتے ہیں اور ہم انھیں ڈرائیں کہ دریا کی طرف نہ جاؤ بلکہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات ہونے چاہییں تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دریائے سوات میں صرف ایک جگہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسائل کا گڑھ ہے۔‘

’یہاں دریا کی چوڑائی کا علم نہیں ہے۔ کہیں یہ تنگ اور کہیں یہ بہت زیادہ چوڑا ہے۔ اسی طرح دریا کے کنارے ایک طرف باغات اور کسان قبضے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری جانب تعمیرات کے لیے لوگ دریا میں ہوٹل بنانے اور زیادہ منافع کمانے کے لیے دریا کو رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

’اس کے علاوہ مختلف محکموں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اگر نیت صحیح ہو تو حکومت ان مسائل کو بہتر انداز سے حل کر سکتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts