پاکستان کی سوشل میڈیا پر سب سے بااثر دو جماعتیں — پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعتِ اسلامی (جے آئی) — اس وقت ایک شدید آن لائن محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔
جس کا آغاز اُس وقت ہوا جب امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے جیل میں قید عمران خان کو غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ تنازعہ جلد ہی ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے خلاف ٹرینڈز کی شکل اختیار کرگیا۔
معاملہ اُس وقت گرم ہوا جب حافظ نعیم سے سوال کیا گیا کہ عمران خان، جو اڈیالہ جیل سے سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے پیغامات دیتے ہیں، اسرائیل کے خلاف کیوں خاموش ہیں۔ حافظ نعیم کے مؤقف پر پی ٹی آئی کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے شدید ردعمل دیا اور جے آئی کے رہنما پر منافقت اور اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لیے کام کرنے کا الزام لگا دیا۔
حافظ نعیم کے تبصرے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی نے سخت الفاظ میں ایک بیان جاری کیا، جس میں ان کی تنقید کو "لغو"، "بدنیتی پر مبنی" اور "اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کی ایک مایوس کن کوشش" قرار دیا۔
معاملہ اس قدر بڑھ گیا کہ پہلے پی ٹی آئی اور پھر جماعتِ اسلامی نے اس پر باقاعدہ بیانات جاری کیے، اور دونوں جماعتوں نے اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو متحرک کر دیا تاکہ اپنی اپنی حمایت میں ٹرینڈز چلائے جا سکیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا ڈپارٹمنٹ نے کہا: "ریموٹ کنٹرول سیاستدانوں کی عقل پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ حافظ نعیم ایک مقبول، قید شدہ لیڈر کے ایمان، غیرت اور فلسطین سے وابستگی پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ یہ سیاسی بدنیتی اور فکری غلامی کی انتہا ہے۔"
پی ٹی آئی نے یاد دلایا کہ چند ماہ قبل حافظ نعیم نے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ فلسطین کے حق میں مارچ پر بات ہو، جسے پی ٹی آئی نے "بلا مشروط" سپورٹ کیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا: "عمران خان ہی وہ واحد پاکستانی لیڈر ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسرائیل اور اس کے مقامی کٹھ پتلی حکمرانوں کے خلاف واضح اور بہادرانہ مؤقف اپنایا ہے۔ آج کے ہمارے بیانات اسی اصولی مؤقف کی عکاسی کرتے ہیں۔"
پی ٹی آئی نے جماعتِ اسلامی پر "منتخب مزاحمت" (selective activism) کا الزام بھی لگایا، اور سوال کیا کہ حافظ نعیم نے اپنی حالیہ تقریر میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان — جو غزہ امدادی قافلے کے دوران اسرائیل میں گرفتار ہوئے — کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھائی؟
پی ٹی آئی نے سوال کیا: "کیا آپ کو سینیٹر مشتاق احمد کے بارے میں بولنے کی 'ہدایت' موصول نہیں ہوئی؟ عمران خان کے خلاف تو آپ کی زبان چلتی ہے، لیکن ان کے لیے خاموش کیوں ہو جاتی ہے؟"
جماعتِ اسلامی نے فوراً جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی پر الزام لگایا کہ وہ حافظ نعیم کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور اپنے حامیوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
جے آئی نے اپنے بیان میں کہا: "جو بھی حافظ نعیم کی مکمل 20 منٹ کی تقریر سنے گا، اسے اندازہ ہو جائے گا کہ پی ٹی آئی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اپنے کارکنوں سے حقائق چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔"
جماعتِ اسلامی نے خود کو دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ "حقیقت کی بنیاد پر بات کرتی ہے، نہ کہ دشمنی کی بنیاد پر۔" جے آئی نے نشاندہی کی کہ جب دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں، پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں — پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نہ تو کوئی بڑا احتجاج کر رہی ہیں، اور نہ ہی فلسطین کو اپنی سیاسی ترجیحات میں شامل کر رہی ہیں۔
جے آئی نے کہا کہ حافظ نعیم نے بارہا عمران خان کو سیاسی قیدی قرار دیا ہے اور جمہوری آزادیوں کا مطالبہ کیا ہے — حتیٰ کہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجاً اپنی اسمبلی کی نشست بھی قربان کی۔ لیکن، جماعت کا کہنا تھا، کہ غزہ کا انسانی المیہ — جہاں 67,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں — "کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا موضوع نہیں ہونا چاہیے۔"
جماعت نے سوال اٹھایا کہ جب عمران خان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر سکتے ہیں، تو وہ اسرائیلی مظالم پر خاموش کیوں ہیں؟
علاوہ ازیں، جماعتِ اسلامی نے ماضی کی سیاسی شکایات کو بھی یاد دلایا، خاص طور پر کراچی کے میئر کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے 32 نمائندوں کی پراسرار گمشدگی، جس کے نتیجے میں پی پی پی کا میئر منتخب ہوا۔ حافظ نعیم کے مطابق یہ سب روکا جا سکتا تھا۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے معاملے پر، جماعتِ اسلامی نے مؤقف اپنایا کہ حافظ نعیم نے ان کی گرفتاری کے خلاف "اعلیٰ سطحوں پر" اور عوامی پلیٹ فارمز پر بارہا آواز اٹھائی ہے، اور پی ٹی آئی پر "جھوٹ بولنے" کا الزام عائد کیا۔
جماعت اسلامی نے ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ دہرایا، لیکن ساتھ ہی پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، اور پیپلز پارٹی کو چیلنج کیا کہ وہ واضح کریں کہ وہ اسرائیل مخالف مظاہروں کا انعقاد کیوں نہیں کرتے اور حماس کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کرتے۔
جماعت اسلامی نے دو ریاستی حل (Two-State Solution) کو بھی مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ بڑی سیاسی جماعتیں درپردہ اسرائیل کو تسلیم کر چکی ہیں۔