نام نہاد حق پرست : شرم تم کو مگر نہیں آتی

قارئین کرام جیسا کہ ہم نے کہا تھا کہ نام نہاد حق پرستوں کا مکروہ اور اصل چہرہ دکھانے کی مزید بھی کوششیں کی جائیں گی تو اس حوالے سے مزید ثبوت بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ نام نہاد حق پرستوں کے پر زور حامی ہمارے ان محترم بھائی نے َ َ ایم ایم اے کی بحالی اور مولانا و قاضی صاحبان َ َ کے نام سے تین حصوں میں کالم ہماری ویب کے فورم پر پیش کئے۔ ان کالمز کا پوسٹ مارٹم کیا تو کیا نتیجہ نکلا یہ ہم ابھی آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ لیکن بہرحال ان کی اس حرکت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہمیں ایم کیو ایم فوبیا لاحق نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایم کیو ایم کے خلاف کوئی جھوٹا اور من گھڑت مواد شائع کرتے ہیں اور نہ ہی حقائق کو توڑ مروڑ کر ان کے خلاف سامنے لاتے ہیں (جیسا کہ نام نہاد حق پرستوں اور ان کے حامیوں کا ہم پر الزام ہے )

لیکن یہ لوگ کس طرح جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کو بدنام کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ موصوف نے جو حرکت کی ہے وہ فرد واحد کی نہیں ہے بلکہ دراصل یہ متحدہ کے کارکنان و لیڈران اور حامیوں کے کردار کی ایک ہلکی سی جھلک ہے کہ اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لئے ہر حد سے گزر جاؤ،اخلاقیات کو پائمال کردو،اور مظلومیت کا ڈھنڈووا پیٹتے رہو اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ باور کراتے رہو کہ ہم نے یہ مذموم فعل کو ملک و قوم کی فلاح لئے اپنی ایک عظیم خدمت گردانتے رہو اور جہاں تک ممکن ہوسکے مخالفین پر کیچڑ اچھالتے رہو۔۔بہرحال ١٧ دسمبر کو شائع ہونے والے مضمون َ َ ایم ایم اے کی بحالی اور مولانا و قاضی صاحبان َ َ کا پہلا اور دوسرا حصہ روزنامہ آج کل کی ویب سائٹ دس دسمبر کو پر شائع ہونے والے سجاد حیدر کے کالم کو چوری کرکے اور اس میں کچھ اپنی باتیں شامل کرکے اس کو انتہائی دیدہ دلیری سے اپنے نام سے پیش کردیا گیا۔ لیکن یہاں مزید ظلم یہ کیا گیا کہ اس کالم میں جو جو باتیں جماعت اسلامی اور قاضی حسین احمد صاحب کی تعریف و حمایت میں تھیں ان کو اڑا کر صرف اپنے مطلب کی لائیں لیکر قارئین کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ اب ہم یہاں اصل مضمون پیش کررہے ہیں۔ اس کو سامنے رکھ کر موصوف کے مضامین کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ جناب نے کس طرح قائد سے وفاداری نبھانے کی کوشش کی ہے۔

روزنامہ آج کل نیٹ ایڈیشن مضمون : ایم ایم اے نظریہ ضرورت کی گرفت میں ۔تحریر : سجاد حیدر
مضمون کا لنک:
https://www.dailyaaj.com.pk/articledetails.php?ColumnId=2707&ColumnistId=23

اصل مضمون درج ذیل ہے
بعض مبصرین کا خیال تھا کہ مولانا محمد خان شیرانی کی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت سے تقرری کے عوض جمعیت علمائے اسلام (ف) ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت کی حمایت کرے گی لیکن سینٹ میں جے یو آئی (ف) کی جانب سے آر جی ایس ٹی کی شدید مخالفت سے ان مبصرین کی رائے کی نفی ہوئی۔ شاید یہ تبصرہ نگار بھول گئے تھے کہ مولانا محمد خان شیرانی کی بحیثیت چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل تعیناتی جے یو آئی (ف) کی تازہ شرط نہیں تھی بلکہ یہ معاملہ تو اس وقت سے متعلق تھا جب رواں سال مئی جون اور جولائی کے مہینوں میں متحدہ مجلس عمل کو سرد خانے سے نکال کر اس کے مفلوج جسم میں نئی روح پھونکنے کی کوششیں کی گئیں ۔

قوم نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمان کو اچانک ایم ایم اے کی بحالی کے لئے فعال کردار ادا کرنے کی فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے ذاتی طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں جنہیں سیاسی مذہبی جماعتیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ غیر فعال اتحاد کی بحالی میں دلچسپی لی اور اس حوالے سے قاضی حسین احمد سے خصوصی طور پر ملاقات بھی کی ۔ اس سلسلے میں 13 جون کو لاہور میں مجلس عمل کی بحالی کے حوالے سے متعلقہ جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا جس کے اختتام پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر ایم ایم اے کی تمام جماعتیں اتفاق رائے سے جے یو آئی (ف) سے حکومت سے علیحدگی کا مطالبہ کریں تو وہ یہ مطالبہ مان لیں گے۔ بعد ازاں جے یو آئی (ف) کی اپنی پارلیمانی پارٹی نے بھی جمعیت کی مرکزی مجلس عاملہ سے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

بائیس جولائی کو اسلام آباد میں ایم ایم اے کے سربراہی اجلاس میں بھی ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور یہ طے پایا کہ تمام رہنما اپنی اپنی متعلقہ جماعتوں کی مجالس عاملہ سے رجوع کر کے 22 جولائی کے اجلاس میں سامنے آنے والی تجاویز کے حوالے سے حتمی رائے لینے کے بعد مجلس کے آئندہ سربراہی اجلاس میں جو ابوالخیر محمد زبیر کی سربراہی میں منعقد ہو گا حتمی فیصلوں کا اعلان کریں گے ۔ اس موقع پر یہ توقع ظاہر کی گئی کہ تقریباً ایک ماہ بعد ایم ایم اے کا سربراہی اجلاس دوبارہ منعقد ہو گا جس میں تمام معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی انہی ایام میں متعدد مبصرین کی رائے تھی کہ مولانا فضل الرحمان وفاقی حکومت سے اپنے کچھ مطالبات منوانے کے لئے ایم ایم اے کی بحالی کے دباؤ کا حربہ استعمال کر رہے ہیں جن میں سرفہرست مولانا شیرانی کی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے تقرری ہے اور چونکہ اس مطالبے کی تکمیل کی یقین دہانی کردی گئی ہے اس لئے اب جے یو آئی (ف) ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے فعال نہیں رہے گی۔

بائیس جولائی کو گزرے تقریباً ساڑھے چار ماہ ہو گئے ہیں اور اب تک نہ ہی مجلس عمل کے سربراہان کا وہ اجلاس منعقد ہو سکا جو ابوالخیر محمد زبیر کی سربراہی میں منعقد ہونا تھا اور نہ ہی مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ایم ایم اے کی بحالی میں وہ غیر معمولی دلچسپی دوبارہ دیکھنے میں آئی جو جون اور جولائی میں نظر آئی تھی ،جس سے ان تبصروں کو جو مذکورہ مہینوں میں مولانا شیرانی کی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل تقرری کے حوالے سے کئے گئے تھے تقویت ملتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ مولانا شیرانی کی تقرری کا آر جی ایس ٹی کے نفاذ کے معاملے پر جے یو آئی (ف) کی حمایت حاصل کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تقرری سابقہ یقین دہانیوں کا ثمر ہے ۔

خیر بات ہو رہی تھی ایم ایم اے کی بحالی کی ۔ چند ہفتے قبل جے یو آئی (ف) کے صوبائی سربراہ شیخ الحدیث مولانا امان اللہ نے اپنے دورہ ملاکنڈ کے دوران قاضی حسین احمد کو ایم ایم اے کی بحالی میں رکاوٹ قرار دیا جو اس لحاظ سے ایک ذمہ دار شخص کا غیر ذمہ دارانہ بیان ہے کہ ایم ایم اے کے قیام میں قاضی حسین احمد کا کردار سب سے زیادہ مخلصانہ اور فعال رہا ۔ قاضی حسین احمد نے ایم ایم اے کو حقیقت کا روپ دینے اور پروان چڑھانے میں وہی کردار ادا کیا جو کسی اجڑے ہوئے چمن کو سرسبز و شاداب بنانے میں مالی کا یا کسی بنجر زمین کو لہلہاتے ہرے بھرے کھیت کا روپ دینے میں دہقان کا ہوتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کھیت میں اگنے والی فصل اور اس باغ میں لگنے والے پھلوں کا زیادہ حصہ مولانا امان اللہ کی جماعت کے حصے میں آیا ۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر کب تک جماعت اسلامی ایم ایم اے کے تناظر میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتی رہے گی ۔ملک میں شریعت کے نفاذ اور تعمیر و ترقی کے لئے اتحاد و اتفاق کی ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن جس اتحاد کا مقصد مخصوص سیاسی اہداف کی تکمیل رہ جائے اور جو اپنے قیام کے مقاصد کو پس پشت ڈال دے اس اتحاد کو باقی رکھنے کا کیا فائدہ ۔ یہ کیا کہ جب کسی کو ایم ایم اے کا نام استعمال کرنا مقصود ہو گاتو اتحاد کے سربراہان کی ملاقاتیں بھی ہو جائیں گی اور سربراہی اجلاس بھی منعقد ہو جائیں گے اور جب اس نام کے استعمال کی ضرورت نہیں رہے گی تو متعلقہ جماعتوں کے دوسرے اور تیسرے درجے کے قائدین کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہوتی رہے گی اور اتحاد کسی نئی ضرورت کی تکمیل کے لئے استعمال ہونے کے انتظار میں سرد خانے میں پڑا رہے گا ۔

شرعی تقاضوں کی بنیاد پر قائم ہونے والا یہ سیاسی اتحاد اپنے منشور اور قیام کے مقاصد کی حد تک ہر دلعزیز اور خوش کن تھا لیکن عمل کے میدان میں ان توقعات کی تکمیل میں ناکام رہا جو اس سے وابستہ کی گئیں لہٰذا آنے والے وقت میں اگر نظریہ ضرورت کے تحت اس اتحاد کے مفلوج جسم میں جان ڈال بھی دی جاتی ہے تو یہ ملک اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام کے ساتھ زیادتی ہو گی جو جماعت اسلامی کے کردار اور مقام سے میل نہیں کھاتی لہٰذا کم از کم جماعت اسلامی کو جو اس اتحاد کی حقیقی معنوں میں خالق ہے ایم ایم اے کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے اور اپنے اصولوں کی پاسداری کے لئے اگر جماعت اسلامی کو کوئی کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑے تو اسے بروقت پی لینا چاہئے تاکہ وہ مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے تعین میں آزاد ہو کر مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے فیصلے کر سکے۔

قارئین ہم اس سلسلے میں نام نہاد حق پرستوں کی مزید حرکتیں بھی آپ کے سامنے لائیں گے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458512 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More