پاکستان میں 'گڑیاؤں کے گاﺅں' کی جرمن ملکہ

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کا تعلق تو کسی اور ملک سے ہوتا ہے، مگر وہ کسی اور ملک جاکر وہاں کے کسی مقام میں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔

ایسی ہی ایک کہانی جرمنی سے تعلق رکھنے والی گرافک ڈیزائنر ڈاکٹر سینتا سر کی ہے، جنہوں نے ایک پاکستانی گاﺅں میں لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا۔

ڈان کے مطابق پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں واقع گاﺅں 'ٹھٹہ غلام کا دھیروکا' میں ڈاکٹر سینتا سر کو گڑیاﺅں کے گاﺅں کی ملکہ سمجھا جاتا ہے۔
 

image


ڈاکٹر سینتا سر اس گاﺅں میں جاری پاک جرمن ترقیاتی منصوبے کی بانی ہیں، جس کا آغاز 25 سال قبل ویمن آرٹ سینٹر نامی ایک دستکاری مرکز سے ہوا۔

وہ خود بتاتی ہیں کہ ' مجھے ٹھٹہ غلام کا دعوت نامہ ملا تھا، وہاں جانے کا مقصد اس گاﺅں کی ترقی کی خواہش بنی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ' میں وہاں اپنا خرچہ خود اٹھاتی تھی، تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنوں، مجھے دن میں ایک مرتبہ بہت لذیذ کھانا دیا جاتا، مجھے چولہے کے پاس بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی جبکہ یہ ایک بہت مختلف احساس تھا، وہاں سڑکیں نہیں تھیں، نہ بجلی تھی اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔ اس گاﺅں میں بنیادی سہولیات نہیں تھیں'۔

ڈاکٹر سینتا سر 1990 میں پہلی بار اپنے شوہر کے ہمراہ ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا آئیں اور گاﺅں کے باسیوں کی میزبانی سے متاثر ہوکر انہوں نے اس جگہ کی ترقی و بہبود کا ارادہ کرلیا۔

ان کے بقول ' مجھے ایسی شے کی تلاش تھی جو کہیں بھی ہو، میں بازاروں میں گئی اور ڈھونڈا کہ وہاں کئی ایسی شے موجود نہیں، میں نے دیکھا کہ وہاں ہاتھ سے بنی ایک گڑیا بھی دستیاب نہیں تھی'۔

ڈاکٹر سینتا سر کا یہ ترقیاتی منصوبہ گاﺅں کی زندگی میں مثبت انقلاب لے کر آیا۔
 

image


اب اس گاﺅں میں ہاتھ سے بنی 100 سے زائد مختلف طرح کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ' میں نے اجرک کے نمونوں پر شیشے کی کڑھائی والے کرسمس کارڈز تیار کروائے، سنہری رنگت والے یہ کارڈز اتنے خوبصورت تھے کہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوگئے'۔

بحثیت گرافک ڈیزائنر سینتا سر کو دستکاری کے نمونوں میں شروع سے ہی گہری دلچسپی تھی۔

وہ ٹھٹہ غلام کا دھیروکا کی خواتین اور لڑکیوں کی کشیدہ کاری میں مہارت سے بے حد متاثر ہیں۔

انہوں نے منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ' اس منصوبے کے تحت اگر 100 روپے کی آمدنی ہو تو 30 روپے دستکار خواتین کو دیے جاتے اور 30 روپے نئے سامان کی خریداری کے لیے مختص کیے جاتے جبکہ باقی اسکول کی عمارت کی تعمیر کے لیے رکھ لیے جاتے تھے، وہاں پر کوئی عمارت نہیں تھی، یعنی ہمیں کارخانے تعمیر کرنے تھے اور آہستہ آہستہ خواتین کو ایسا ماحول فراہم کرنا تھا، جہاں وہ تسلی اور آرام و سکون کے ساتھ کام کرسکیں'۔
 

image


اب ویمن آرٹ سینٹر میں خواتین گڑیائیں اور کئی دیگر انتہائی اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔

ڈاکٹر سینتا سر کے مطابق ' اگر کوئی خاتون تنہا اور خودمختار طور پر اعلیٰ معیار کا کام مکمل کرسکتی ہے، جسے 'فرسٹ کلاس' نوعیت کا معیاری کام کہا جاسکتا ہے، تو ایسی خواتین کو گھر بیٹھے کام کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے'۔

اس ویمن آرٹ سینٹر کو سینتا سر کے اعزاز میں Senta Siller Art Center کا نام دیا جاچکا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ' اس عمل کے دوران لڑکیاں باہمت بھی ہوگئیں، وہ مجھے کہنے لگی کہ سینتا تم جیسے پہلے یہ کام سرانجام دو گی، ہم ویسے ہی اس کو دہرائیں گے، اب ہمیں کوئی ڈر نہیں ہے'۔
 

image


یہاں بننے والی گڑیائیں پاکستان کے مختلف علاقوں کی ثقافتوں کی آئینہ دار ہیں۔

جرمن خاتون نے پاکستان کی تعریف ان الفاظ میں کی کہ ' مجھے پاکستان بہت پسند آیا، کیونکہ لوگ بہت زیادہ دوستانہ مزاج رکھتے ہیں، جبکہ موسم میرے لیے اچھا اور ایک دم گرم ہے، میں پاکستان سے بے حد متاثر ہوئی ہوں'۔

ڈاکٹر سینتا سر ریٹائرمنٹ کے بعد برانڈن برگ میں ناﺅن نامی چھوٹے سے شہر میں رہائش پذیر ہیں۔
 

image


آخر میں وہ کہتی ہیں کہ 'یہ ترقیاتی مدد ایک معاشرے کی نچلی سطح سے اوپر کی جانب تھی، نہ کے 5 لاکھ کی امداد بالائی سطح پر لگائی جائے اور نچلی سطح تک کچھ بھی نہ پہنچ پاتا‘۔
 

 
YOU MAY ALSO LIKE:

Women Art Center at the village Thatta Ghulamka Dhiroka, district Okara in Punjab has been renamed as Senta Siller Art Center (SSAC) to honour the German lady Dr. Senta Siller, who had initiated this center back in 1993. This decision was agreed made and announced at a meeting in the Center, which was attended by a number of village girls and women, who have worked with Dr. Senta Siller, the honourable Mother of Dolls over the decades.