طنز تنقید مشورے اور بہت کچھ

میرے والد صاحب مرحوم کے ایک ہی چچا تھے، حضور کا شغل یہ تھا کہ ریٹائرڈ لائف میں اپنے حجرے میں بیٹھے رہتے اور ہر راہ چلتے بندے پہ یا تو جملے کستے، یا اس کی نقل اتارتے یا پھر ہر کس و ناکس کا تمسخر اڑاتے۔ آزو بازو میں بیٹھے ہم عصر بھی قہقہ لگا لیتے اور تو کوئی کام دھندہ تھا نہیں صبح سے شام بلکہ عشاء کی نماز کے بعد تک یہ محفل سجی رہتی ۔ میں وہ زمانہ یاد کرتا ہوں تو اپنے آپ اور اپنی گئی گزری قوم پہ نہایت غصہ آتا ہے کہ اس قوم کے بڑے بھی کسی کام کے نہیں تھے ان کی بعد کی نسل نے بھی کوئی تیر نہ مارا اور چھوٹوں کو تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ بڑے جو کرتے آرہے تھے وہ روش چھوٹوں نے بھی قائم رکھی ہے بڑے حجروں، بازاروں ، چوراہوں اور بیٹھکوں میں بے جا کی ہانک کر وقت تباہ کرتے تھے آج کی نسل T.Vاور سوشل میڈیا میں گم اپنا وقت تباہ کر رہی ہے صرف ایک چھوٹی سی بات شیئر کرنی ہے اور بس پھر کیا طنز تنقید اور مشوروں کے ساتھ ساتھ بدتمیز یوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ جسے وزیراعظم صاحب کی جیت اور مہینے بھر کا جائزہ ہی لے کر دیکھئے اس پورے ایک مہینے میں جہاں وہ وزیراعظم بنے ہیں وہاں طرح طرح کی چیزیں سوشل میڈیا اور پھر TVچینلز پہ تسلسل کے ساتھ آ رہی ہیں۔ جن میں سب سے اہم لوٹی ہوئی دولت کو وطن واپس لانا۔ قرض نہ لینا، ڈیمز بنانا، لوگوں کو صحت ، تعلیم اور چھت کی سہولتیں بہم پہنچانا وغیرہ وغیرہ ۔ سوشل میڈیا پہ تو لوگ ایسے مشورے دے رہے ہیں جیسے عمران صاحب کو خود کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی۔ اور لوٹی ہوئی دولت تو ایسے مانگ رہے ہیں جیسے وہ کسی درخت پہ لگے ہوئے ہیں۔ عمران خان ہیلی کاپٹر میں چڑھ کر اتار لائیں گے کئی شیئر کی ہوئی چیزیں تو نہایت ہی دلچسپ ہوتی ہیں جیسے وزیراعظم جلد از جلد کرپٹ افراد کو گرفتار کر کے لوٹا ہوا مال برآمد کرے اور سب کو پھانسی دے دے۔ ایک عام بچارہ پاکستانی جو نہایت ہی معصوم ہے انہیں کیا خبر کہ سزا اورجزا کا قانون اصل معنوں میں لاگو کر دیا گیا تو بد عنوانی کی سزا اگر چین کی طرح سزائے موت ہوتیتو حکمران طبقہ ، پوری کی پوری افسر شاہی اور دیگر جرائم میں ملوث افرادکا جھتہ ، جاگیردار، صنعت کار ، بینک کار جنہوں نے اربوں روپے اس قوم کی خاص افراد کو قرضہ کے طور پر دیئے اور ان کو معاف کرائے بلکہ ایک لمبی فہرست ہو گی جن میں خود انصاف کرنے والے ججز بھی شامل ہونگے۔

عوام سمجھ لیں کہ کم از کم پاکستان میںاسی دن پھانسی چڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی تو میری ناقص رائے یہ ہے کہ عوام تھوڑا صبر و تحمل سے کام لیں اگر یہ حکومت بھی ڈھکوسلہ نہ ہوئے تو شروعات تو بہتر لگتی ہیں آئندہ کا پتہ نہیں۔ پر دنیا اور یہ قائم ہے ۔ پاکستانی قوم پانچ برس انہیں بھی آزما لیں۔ ابھی تو موجودہ گورنمنٹ نے پول کھولنا شروع کر دیئے ہیں۔ جیسے وزیراعظم ہائوس کا رقبہ اس میں کام کرنے والے خادم، درجن در درجن گاڑیاں اس پر اٹھنے والے اخراجات اور سب سے اہم چیز آٹھ بھینسوں کی دستیابی جس سے تازہ دودھ حاصل کیا جاتا تھا پھر دیگر صوبوں میں گورنر ہائوسز وزیراعلیٰ ہائوسز افسر شاہی کے افسروں کے محلات، ان کی عیاشیاں یہ سب اور بہت سی چیزوں کا پردہ چھاک کرنا اور عوام کی آنکھیں کھولنا سب موجودہ حکومت کی کریڈٹ پہ جاتا ہے ابھی حال ہی میں برطانیہ کے ساتھ منی لانڈرنگ اور چوروں قاتلوں کے تبادلے کے قانون اور معاہدہ پر دستخط ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ ان سے لوٹی ہوئی دولت لانے کیلئے راہ ہموار کرنا بھی ایک بہت بڑی کامیابی ثابت ہو گی دیگرکاموں میں افسر شاحی کے قبلہ درست کرنا اور سرکاری زمین اور دیگر اثاثے و اگزار کرنا ۔ٹیکس کا نظام مضبوط اور مستحکم بنانا۔ ڈیمز اور توانائی کے منصوبوں پر کام کا آغاز کرنا۔بلکہمہنگائی میں پھنسی جنتا کو سہولتیں بہم پہنچانا۔ صحت ، تعلیم اور سر کے چھت کا انتظام کرنا۔ یہ ساری باتیں اور ان باتوں کو عملی جامہ پہنانا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں لیکن ان تمام باتوں کیلئے ضرورت ہے پیسے کی پیسہ پاکستان میں دو طرح سے آسکتا ہے ۔ نمبر 1قرضہ لیکر نمبر 2بڑے بڑے مگر مچھوں سے وصول کر کے۔ جبکہ اس کے بعد اس پیسہ کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیا جائے اور پھر عوام ہی دن رات کی محنت سے اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرے کیوں صرف مشوروں سے نہیں کام کرنے سے ہوتا ہے باتوں سے نہیں۔

Muhammad Sohail Monis
About the Author: Muhammad Sohail Monis Read More Articles by Muhammad Sohail Monis: 2 Articles with 1235 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.