لاہور کا سانحہ:اہم حقائق و رپورٹس

لاہور میں جمعرات 27جنوری کو ایک امریکی باشندے نے فائرنگ کر کے دو نوجوانوں کو قتل کردیا جبکہ مذکورہ امریکی باشندے کی مدد کو آنے والی دوسری گاڑی نے ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان کو کچل ڈالا جو کہ اگلے روز ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ ٹی وی چینلز میں اس واقعے کی خبر سنتے ہیں میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ کیا نو آبادیاتی دور واپس آگیا ہے؟ یہی کچھ برٹش راج میں برصغیر کے باشندوں کے ساتھ ہوتا تھا،ان کو غلام سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ملک کو مفتوحہ علاقہ سمجھا جاتا تھا اور ’’ گورا ساب ‘‘ کو ہر قانون سے استثنٰی حاصل ہوتا تھا کیوں کہ وہ آقاؤں کی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔

واقعے کی تفصیلات کے لاہور کے ایک معروف اور گنجان علاقے میں اس امریکی باشندے جس کا نام ریمنڈ ڈیوس بتایا جاتا ہے نے اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر ایک رکشہ الٹ دیا اور دوسری گاڑیوں کو سائڈ مارتا ہوا نکلنے لگا جس پر ٹریفک وارڈن اور اہل علاقہ نے اسے پکڑنے کی کوشش کی،اسی اثنا میں موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان اس کی گاڑی کے پاس آئے تو اس امریکی باشندے نے گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی ان پر فائرنگ کردی،جس سے ایک نوجوان موقع پر ہی ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا،زخمی نوجوان کو اس امریکی نے اپنی کار سے کچل کر ہلاک کر ڈالا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ دونوں نوجوانوں کو قتل کرنے کے بعد ریمنڈ نے اپنے موبائل سے ان کی تصویریں بنائیں اور قریباً ساتھ آٹھ منٹ تک جائے وقوع پر موجود رہا ۔ اس دوران ریمنڈ نے اپنی مدد کے لئے اپنے ساتھیوں سے رابطہ کیا جو کہ تھوڑی دیر کے اندر اندر وہاں پہنچ گئے۔ اس دوران عوام کو ہجوم بڑھتا گیا اور ان میں اشتعال پھیلتا رہا۔ یہ صورتحال دیکھ کر ان لوگوں نے فرار ہونے کی کوشش کی اور کوشش میں ریمنڈ کی مدد کے لئے آنے والی گاڑی نے ایک اور موٹر سائیکل نوجوان کو کچل ڈالا جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ ملزم کی مدد کے لئے آنے والے اس کے ساتھی تو گاڑی سمیت فرار ہوگئے لیکن ملزم کو لوگوں نے پکڑ لیا۔ ملزم کے قبضے سے بغیر لائسنس اسلحہ ،ممنوعہ بور کے ہتھیار اور وائرلیس سیٹ برآمد ہوا،جبکہ جس گاڑی میں وہ سفر کررہا تھا وہ سفارت خانے کی نہیں تھی بلکہ کرائے پر حاصل کی گئی تھی اور اسکی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی۔اور ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ملزم امریکی سفارت خانے کا ملازم ہے۔ شاعر نے کہا ہے کہ ع وقت کرتا ہے گردش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

دیکھا جائے تو یہ واقعہ بھی اچانک پیش نہیں آگیا بلکہ دراصل ہمارے حکمرانوں کی بزدلی،امریکی چاپلوسی اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے امریکی مطالبات ماننے کا جو سلسلہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع کیا گیا،وہ سلسلہ موجودہ حکومت نے بھی جاری رکھا اور امریکی اہلکاروں کے جرائم پر گزشتہ کئی سالوں پردہ ڈالا جاتا رہا جس کے باعث ان امریکیوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے کہ اب انہوں نے ہمارے شہریوں کو قتل بھی کرنا شروع کردیا۔ کیا امریکی کارندوں کی پاکستان میں یہ پہلی کاروائی ہے؟ جواب ہے کہ نہیں بلکہ امریکی حکام اور خفیہ اہلکار کئی برسوں سے ایسے جرائم کرتے چلے آرہے ہیں۔ محب وطن عناصر اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے متعدد بار اس امر کی نشاندہی کی کہ پاکستان کے اندر حالات کی خرابی اور دہشت گردی کے ذمہ دار امریکی و بھارتی ایجنٹ ہیں اور وہ پاکستان میں تخریب کاری کی کاروائیوں میں ملوث ہیں لیکن حکمران بے غیرت بنے رہے اور بڑی ڈھٹائی سے ایس تمام کاروائیوں کو طالبان اور مذہبی جماعتوں کے سر ڈالتے آئے اور اس طرح ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی امریکی سازش کو پروان چڑھاتے آئے ہیں۔

آج سارے حکومتی ارکان پریشان ہیں اور ابھی تک کسی حکومتی رکن ،کسی نام نہاد عوامی لیڈر نے اس واقعے کی مذمت نہیں کی ہے۔ نواز شریف،چوہدری شجاعت،الطاف حسین،صدر آصف زرداری،وزیر اعظم گیلانی،رحمان ملک،بابر اعوان سب کے سب آئیں بائیں شائیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن کسی نے بھی کھل کر اس وقعے کی مذمت نہیں کی ہے۔ ہاں وہ مذہبی جماعتیں(جماعت اسلامی،جمعیت علماء پاکستان) جن کو امریکی ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’ ایک سیٹ والے سیاسی لیڈر(عمران خان) ہیں ‘‘ انہی لوگوں نے اس واقعے کی مذمت بھی کی اور اس کے خلاف مظاہرے بھی کئے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس واقعے پر امریکہ سے احتجاج کرنے کے بجائے الٹا لاہور کے پولیس حکام سے کہا ہے کہ وہ ملزم کو سفارت خانے کے حوالے کریں جس پر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے زبانی کہنے کے بجائے ملزم کی رہائی کا تحریری حکم دیا جائے۔

امریکہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے اور اس کے لئے بدنام زمانہ امریکہ ایجنسی ’’بلیک واٹر(ایکس زی ) ‘‘ کو اہداف سونپے گئے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ طالبان کے بھیس میں اس وقت امریکی اہلکار ہی ملک میں دہشت گردی کررہے ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق پچھلے چند برسوں میں متعدد بار کئی امریکی باشندوں اور خفیہ اہلکاروں کو مشکوک حالات میں،اور تخریب کاری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا لیکن امریکی مداخلت پر ان کو چھوڑ دیا گیا۔ سال 2009میں اسلام آباد میں چار امریکی باشندوں کو کالے شیشوں والی جیپ میں آٹو میٹک ہتھیاروں سمیت ایک ناکے پر روکا گیا تو انہوں نے اپنا تعارف بلیک واٹر کے تعلق سے کرایا،جب انہیں تھانے لیجایا گیا تو امریکی سفارت خانے کے افراد وہاں پہنچ گئے جن کے ساتھ ایک ایس پی آفتاب ناصر اور سرکاری افسر تھے،جنہوں نے تھانے والوں کو ڈرا دھمکا کر ان چاروں ملزمان کو رہا کرایا۔ اگست 2009میں نیدر لیند کے دو سفارتکار پرائیوٹ نمبر کی گاڑی میں بھاری اسلحے سمیت اسلام آباد میں پکڑے گئے، ان کے پاس سے دو سموک بم،دو فلیش بم،دو ہینڈ گرنیڈ،چار میگزینز کے علاوہ چھے بلٹ پروف جیکیٹس بھی برآمد ہوئیں۔ڈچ سفارت کار اس اسلحے کی برآمدگی کا کوئی جواز نہ پیش کرسکے،ان دونوں سفارت کاروں کو بھی امریکی سفارت کاروں کی مداخلت پر اسلحے سمیت جانے دیا گیا۔

جب کہ سال 2008میں ایک اہم واقعہ پیش آیا تھا اور اگر اس واقعے کی سنجیدگی سے تفتیش کی جاتی تو بہت سے اہم انکشافات ہوسکتے تھے لیکن اس واقعے کو بھی دبا دیا گیا۔ واقعے کے مطابق اسلام آباد کے انتہائی اہم سیکٹر ایف ایٹ تھری میں چار مسلح امریکی باشندوں کو جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں ’’افغانوں کے بھیس ‘‘ میں گرفتار کیا گیا۔ یہ چاروں امریکی رات گئے اس علاقے میں مشکوک انداز میں گشت کررہے تھے اور اہم عمارتوں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ گرفتاری کے بعد انکشاف ہوا کہ جن کو طالبان سمجھ کر گرفتار کیا گیا وہ تو امریکی باشندے نکلے۔ ان امریکی باشندوں کے قبضے سے آٹو میٹک رائفلیں،اور دستی بم برآمد ہوئے۔ اگر ان گرفتار شدگان سے پولیس ’’ پاکستانی انداز ‘‘ میں تفتیش کرتی تو کئی اہم انکشافات ہوسکتے تھے لیکن افسوس ان چاروں ملزمان کو بھی امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر چھوڑ دیا گیا۔

7جنوری 2010کو گوادر میں پولیس حکام نے ایک امریکی قونصلیٹ کی جعلی نمبر پلیٹ کی حامل گاڑی کو تربت سے گوادر جاتے ہوئے روکا،تلاشی کے دوران اس گاڑی سے امریکی قونصلیٹ کراچی کی جعلی نمبر پلیٹیں بھی برآمد ہوئیں۔لیکن اس بارے میں کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور اس معاملے کو بھی دبا دیا گیا۔25اگست 2009 کو چار امریکیوں کو غیر قانونی اسلحہ سمیت پشاور موڑ پنڈی سے گرفتار کر کے مارگلہ تھانے لایا گیا لیکن ان لوگوں کے خلاف کیس نہیں بننے دیا گیا اور ان کو بھی رہا کردیا گیا۔یہ کچھ اہم واقعات ہم نے یہاں بیان کئے ہیں جبکہ ایسے واقعات بھی ہمارے علم میں آئے ہیں کہ سوات میں فوجی آپریشن سے قبل سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے کئی طالبان کے بارے میں معلوم ہوا کہ سرے سے مسلمان ہی نہیں بلکہ را کے ایجنٹ اور ہندو ہیں۔ جبکہ کئی مقامی لوگوں نے اس با ت کی نشاندہی کی کہ طالبان کے سوات میں طالبان کے روپ میں گھومنے والے افغانی یا پختون نہیں بلکہ امریکی اہلکار ہیں جو کہ اردو اور پشتو بھی جانتے ہیں۔

ان سب واقعات کو نظر میں رکھیں اور پھر حالیہ سانحے کا جائزہ لیں تو بہت ساری باتیں سامنے آتی ہیں اطلاعات کے مطابق لاہور کے واقعے کا مرکزی ملزم ریمنڈ ڈیوس جس کو سفارتی اہلکار ظاہر کیا گیا ہے دراصل سفارتی اہلکار نہیں ہے،وہ 9دفعہ پاکستان آیا ہے اور ہر دفعہ سفارتی ویزے کے بجائے وزٹ ویزا پر یہاں آیا ہے۔ اس واقعے سے چند ماہ قبل بھی وہ جعلی نمبر پلیٹ کی گاڑی پر سفر کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ یہ ملزم بھی اردو اور پشتو زبانیں جانتا ہے اور جائے وقوع پر اس نے لوگوں سے اردو میں بات چیت کی۔اس کے پاس سے غیر قانونی اور بغیر لائسنس اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ جبکہ ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کے پاس سے ممنوعہ بور کے کارتوس (BULLETS) برآمد ہوئے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ ملزم نے اپنے پستول کو ممنوعہ گولیوں ’’ ہالو پوائینٹ ‘‘ سے لوڈ کر رکھا تھا۔یہ گولیاں آج سے سو سال قبل 1899میں ممنوعہ قرار دی گئی ہیں اور عالمی کنونشن کے مطابق وار زونز اور شہری علاقوں دونوں میں ان گولیوں کے استعمال پر پابندی ہے۔ اس گولی کی خاص بات یہ ہے کہ اس گولی کے خول میں تین مزید گولیاں ہوتی ہیں جو کہ جسم کے کسی بھی حصے میں داخل ہوکر پھٹ جاتی ہیں اور متاثرہ حصہ مکمل بیکار ہوجاتا ہے اور آپریشن کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ملزم کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ بدنام زمانہ تنظیم بلیک واٹر کا کمانڈر اور سی آئی اے کا سابق ملازم ہے۔ (اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کے دوران ملزم کے بلیک واٹر سے تعلق کے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کی۔) ملزم کے پاس سے وائر لیس سیٹ بھی برآمد ہوا ہے اور وہ جس گاڑی میں سفر کر رہا تھا اس کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی۔

ان سب شواہد سے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ملزم اس علاقے میں کسی واردات کی نیت سے گھوم رہا تھا اور مشکوک حرکات پر جب لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور مزاحمت پر دونوں نوجوانوں کو ہلاک کردیا۔ یہ بات واضح رہے کہ گزشتہ سال سے لاہور دہشت گردی کی وارداتوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور چند دن پیشتر بھی حضرت امام حسینؓ کے چہلم کے موقع پر بھی لاہور میں دہشت گردی کی ایک بڑی واردات ہوئی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ملزم کسی واردات ہی کی منصوبہ بندی کرنے اور ریکی کرنے کے لیے مزنگ چوک کے اس گنجان آباد علاقے میں آیا ہو؟

اب یہ کیس ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک آزمائش ہے کہ آیا وہ غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملزم کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہیں یا پھر امریکہ کی تابعداری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے اس مجرم کو امریکہ فرار کراتے ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ حکمران جنہوں نے ناکردہ گناہ کی پاداش میں مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86سال قید کی سنانے پر امریکہ سے کوئی احتجا ج نہیں کیا تھا اب وہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے مجرم امریکی کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کے لئے بھی یہ سوچنے کا مقام ہے کہ وہ غور کریں کہ اس وقت ملک میں جو انتشار،دہشت گردی اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہے اس کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ امریکہ چاہتاہے کہ ملک میں بد امنی و فسادات ہوں،عوام باہم دست وگریباں ہو، اس مقصد کے لئے پہلے پہلے شعیہ سنی فسادات کی کوشش کی گئی اس میں ناکامی کے بعد اب دیوبندی اور بریلوی فسادات کی کوشش کی جارہی ہے عوام کو چاہئے کہ آپس میں الجھنے کے بجائے اصل دشمن کو پہچانیں۔ ویزستان کے علاقے میں گزشتہ سال،آئی ایس آئی کے سابق افسر کرنل امام ،اور ایک برطانوی صحافی سمیت چار افراد کو طالبان نے اغواء کرلیا، ان میں سے ایک خالد خواجہ کو گزشتہ سال قتل کردیا گیا۔ رواں ماہ کرنل امام جو کہ طالبان کے پر جوش حامی اور ان کے خلاف فوجی کاروائی کے مخالف تھے ان کو بھی قتل کردیا ۔ جبکہ گزشتہ ماہ انہی طالبان نے ایک امریکی گلوکار کو بھی اغواء کرلیا تھا لیکن اس کو چند دنوں بعد ہی چپ چاپ رہا چھوڑ دیا گیا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ طالبان نے اپنے ایک اہم اور پرجوش حامی کو تو قتل کردیا لیکن انہیں طالبان نے دشمن قوم کے ایک فرد اور وہ بھی گلوکار کو زندہ چھوڑ دیا؟ اگر قارئین اس بات پر غور کریں گے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1456243 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More