ناکردہ گناہ کی سزا کاٹنے والے 5 افراد بے قصور کیسے ثابت ہوئے؟

دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو جرم کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور بےشک وہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کو بےقصور ہونے کے باوجود سزا مل جاتی ہے۔ آج ہم دنیا کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں بات کریں گے جن کو بے قصور ہونے باوجود سزا دی گئی ۔

James Richardson
اس پر1967 کے دور میں اپنے 7 بچوں کو زہر دیکر مارنے کا الزام تھا ۔ اس نے اپنی ملازمہ سے بولا تھا کہ جب بچے اسکول سے آجائیں تو انھیں کھانا کھلا دے اور اس دن کھانے میں خطرناک زہر ملا ہوا تھا جس سے سارے بچے ہلاک ہوگئے ۔ اس کو اس لیے مجرم قرار دیا گیا کیونکہ اس نے ایک لائف انشورنس کمپنی سے اپنی اور بچوں کی لائف انشورنس کروائی تھی ۔ اگلے دن جب ملازمہ کے بیگ سے زہر کی بوتل ملی تو اس نے بتایا کہ یہ بوتل اسے جیمز کے کمرے سے ملی تھی۔ جس جیل میں جیمز کو رکھا گیا وہاں کے قیدیوں نے بتایا کہ ان کے سامنے جیمز نے اپنا جرم قبول کیا ہے۔ اسے 25 سال کی سزا سنائی گئی ۔ لیکن 1988 میں خود اس کی ملازمہ نے پولیس میں جاکر اپنا گناہ قبول کرلیا کہ بچوں کے کھانے میں زہر اس نے ملایا تھا۔ 1989 میں جیمز کو 22 سال کی قید کے بعد آزادی مل گئی ۔لیکن اس کی ملازمہ نے ایسا کیوں کیا یہ کوئی نہیں جانتا ہے؟

image


Timothy bridges
1989 میں ایک نابینا عورت کو کسی نے لوٹا اور اس کو مار پیٹ کر بری طرح زخمی کیا اور یہ اس شخص کی شکل صحیح سے پہچان نہ سکی اور 13 ماہ بعد وہ مر گئی ۔کیس چلتا رہا اور پولیس کو کوئی ثبوت نہ ملا آخر 3 لوگ آئے اور انھوں کہا یہ سب ٹیموتی نے کیا ہے اور اس نے ہمارے سامنے اپنا جرم قبول کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ٹیموتی کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس کے فنگر پرنٹ کیس سے میچ نہیں ہوتے تھے پھر بھی اس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ 2016 میں اس کا کیس ہائی لائٹ ہوا اور پتہ چلا کہ پولیس کی کرپشن کی وجہ سے انھوں نے غلط آدمی کو سزا دی تھی۔ اور اس شخص کو 2016 میں بے قصور قرار دیا گیا۔ لیکن اس وقت تک 25 سال گزر چکے تھے ۔ جس کے بعد اسے 10 ملین ڈالر معاوضے کے طور میں دئیے گئے ۔

image


Richard Phillips
اس کے اوپر 1972 میں ایک شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس کیس کا پہلا گواہ اس کا سالا تھا اس نے پولیس کو بتایا کہ یہ قتل ریچرڈ اور اس کے ایک دوست نے مل کر کیا ہے۔ اس شخص کو صرف اس کے سالے کے کہنے میں گرفتار کیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا اور اس کے سالے کی گواہی سے اس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس نے سوچا کہ کیس کو دوبارہ کھولا جائے لیکن اس کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔2010 میں قاتل نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور اس کے سالے نے ہی یہ قتل کیا تھا 2017 میں ریچرڈ کو آزاد کردیا گیا اور اس وقت تک 45 سال گزر چکے تھے ۔

image


Nicholas yarris
نکولس کو 1981 میں ایک عورت کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا ۔اصل میں لڑکی کے قتل سے 4 روز قبل اس شخص کی اس لڑکی سے ٹریفک کی وجہ سے روڈ کے درمیان میں اس کی لڑائی ہوئی تھی اور اس وجہ سے اس کو گرفتار کیا گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ 2003 میں جب DNA ٹیسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کے جب لڑکی کا قتل ہوا اس وقت یہ شخص وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ اس کو 2005 میں رہا کردیا گیا لیکن تب تک 22 سال گزر چکے تھے۔ اور اسے 2 ملین ڈالر بھی دئیے گئے ۔

image


James bain
1974 میں فلوریڈا کے ایک علاقے سے ایک بچے کو کسی نے اغوا کرلیا کچھ عرصے بعد جب بچہ ملا تو اس نے پولیس کو اغوا کرنے والے کا حلیہ بتایا پولیس نے اس جگہ کی چھان بن کی جس جگہ بچے کو رکھا گیا تھا ۔ اس بچے نے بتایا کہ اس شخص کا نام جم تھا ۔ پولیس نے جیمز کو گرفتار کرلیا بچے نے کئی لوگوں میں سے اسی کو پہچانا کیونکہ جیمز کی مونچھیں تھی جبکہ جیمز کی بہن کا کہنا تھا کہ وہ اس رات گھر پر ہی موجود تھا۔ لیکن اس کو صرف اس کی مونچھوں کی وجہ سے عمر قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ بچے نے بتایا کہ اغوا کار کی مونچھیں تھی ۔2001 میں DNA ایجاد ہونے کے بعد کیس کو دوبارہ کھولا گیا تو پتہ چلا کہ جیمز بےقصور ہے۔ جب اسے 2014 میں آزادی ملی تو یہ جیل میں 35 سال گزار چکا تھا ۔ اس کو حکومت کی جانب سے 7۔1 ملین ڈالر دئیے گئے-

image
YOU MAY ALSO LIKE:

It's frustrating to be wrongfully accused of anything, but I can't imagine sitting on trial, hearing the judge read a guilty verdict, knowing all the while that you're innocent. With sayings like “Justice prevails” and “The truth will set you free,” it's a total letdown of the system when someone is wrongfully convicted—especially when that conviction carries with it a life-altering sentence.