ایٹمی پاکستان دشمنوں کے نرغے میں کیوں ...؟

کامیاب ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ کے موقع پر لکھا جانے والا ایک منفرد آرٹیکل

تحریر : محمد اسلم لودھی
اگر ایبٹ آباد میں آپریشنز کی غرض سے آنے والے امریکی ہیلی کاپٹروں کو گرا لیا جاتا تو پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے جو خدشات اس وقت جنم لے رہے ہیں وہ پیدا نہ ہوتے ہیں ابھی اس سانحے کی دھول نہیں بیٹھی تھی کہ پاک بحریہ کے مہران ائیر بیس پر دہشت گردوں کے کامیاب حملے نے سیکورٹی نقائص کو مزید ننگا کر کے رکھ دیا ہے ۔اس حوالے سے کوئی بھی حکومتی دعوی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ دہشت گرد ( جن کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پیچھے امریکہ اور بھارت ہیں) جس طرح کامیابی سے جہاں چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں حملہ کرکے ایٹمی پاکستان کی سالمیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی پر حملہ ہو ٬یا کراچی میں مہران ائیر بیس پر یہ بات اب کسی سے مخفی نہیں رہی کہ جب تک اندرونی عناصر سپورٹ نہ کریں یا ملی بھگت سے حساس نوعیت کی اطلاعات لیک آﺅٹ نہ ہوں ٬اس وقت تک کوئی بھی دہشت گرد اتنی بڑی کاروائی نہیں کرسکتا ۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ مہران ائیر بیس پر دہشت گردوں کی کامیاب کاروائی پاکستان کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے کہ اس کے ایٹمی اثاثے بھی نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ مسرور ائیر بیس جہاں پاکستان نے ایٹم بم چھپا رکھے ہیں کسی بھی وقت دہشت گرد وہاں پر قابض ہوسکتے ہیں ۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ امریکی اخبار نے مسرور ایئر بیس پر ایٹمی ہتھیاروں کی بات کرکے ایک ایسا شوشا چھوڑا ہے جس کے پس پردہ محرکات نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ امریکن جرنیلوں اور نیٹو افواج کے کمانڈروں کی جانب سے جس قسم کی باتیں سامنے آرہی ہیں اس کا لب لباب مہران ائیر بیس سانحے کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ایٹمی ملک ہے اور وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کرنے کاہرگز اہل نہیں ہے یہ بہانہ بناکر کسی بھی لمحے صر ف امریکہ ہی نہیں افغانستان میں موجود نیٹو افواج بھی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کی جستجو رکھتی ہیں ۔

آج جبکہ پاکستانی عوام کامیاب ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ منا رہے ہیں ۔ اگر اس وقت کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ قومی قیادت ( میاں محمدنواز شریف )٬ عسکری قیادت( جنرل جہانگیر کرامت اور ایٹمی سائنس دان ( ڈاکٹر عبدالقدیر خان٬ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ساتھی ) اور پوری کائنات کے ولی٬ اپنے اپنے فرائض انتہائی کامیابی سے انجام دے رہے تھے ۔ اس بات کا اظہار اٹیمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ کہ " کامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد جب میں واپس اسلام آباد پہنچا تو اس وقت تک اخبارات میں میری کوئی تصویر شائع نہیں ہوئی تھی لیکن ایک دن مجھے ایک شخص ملا جس نے کہا کہ ایک بزرگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے کہا کہ اگر وہ واقعی بزرگ ہیں تو میں ان کو خود ملنے جاﺅں گا۔ چنانچہ چند دن بعد ڈاکٹر ثمر مبارک مند جب متعلقہ مقا م پر پہنچے تو اس لمحے اڑھائی تین سو افراد بزرگ شخصیت کے اردگرد جمع تھے ڈاکٹر ثمر کو دیکھ کر وہ بزرگ از خود اٹھ کر آئے اور مصافحہ کرتے ہوئے کہا کیا آپ ہی ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہیں جنہوں نے ایٹمی دھماکے کئے ہیں ۔۔ڈاکٹر صاحب نے کہا جی میں وہی ہوں ۔ پھر الگ بیٹھتے ہوئے بزرگ نے فرمایا آپ کو حیرت نہیں ہوئی کہ میں نے آپ کو کیسے پہچان لیا ہے ۔ ڈاکٹر ثمر نے کہا واقعی یہ میرے لیے حیرانی کی بات ہے ۔بزرگ نے فرمایا کہ نماز عصر کے بعد ہر روز مسجد نبوی میں نبی کریم ﷺ کا دربار لگتا ہے جہاں پوری دنیا کے ولی ٬ قطب ٬ ابدال اور صالحین جمع ہوتے ہیں ۔وہاں تین مرتبہ آپ کی شبیہ دکھا کر نبی کریمﷺ نے دنیا کے تمام ولیوں کو حکم دیا تھا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ڈاکٹر ثمر سمیت جو لوگ ایٹمی دھماکوں میں شریک ہیں ان کی ہر ممکن حفاظت کی جائے ۔بزرگ نے فرمایا میں بھی وہاں موجود تھا ۔ پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بزرگ نے کہا ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں کیا دھماکوں سے کچھ پہلے کمپیوٹر وائرز شارٹ نہیں ہوگئی تھیں ۔ایک شام صرف پانچ کلو مرغی کا گوشت تھا جبکہ کھانے والے 135 افراد تھے ۔ جہاں آپ اور آپ کی ٹیم کے ارکان کئی مہینوں تک رہائش پذیر تھے وہاں سانپ اور بچھو کتنے تھے کسی ایک سانپ یا بچھو نے بھی آپ یا آپ کے کسی مددگار کو ڈسا ۔ڈاکٹر ثمر کے لیے یہ باتیں باعث حیرت تھیں ان کے بقول ان باتوں کا علم صرف انہیں یا ان کے چند ساتھیوں کو تھا۔ ڈاکٹر ثمر نے بزرگ سے پوچھا کہ آپ کو ان باتوں کاعلم کیسے ہوا تو انہوں نے بتایا کہ جب آپ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت کے لیے ایٹمی دھماکوں کے انتظامات کررہے تھے تو اس وقت نبی کریم ﷺ کے حکم پر پوری کائنات کے ولی٬ قطب ٬ ابدال اور صالحین آپ اور آپ کی ساتھیوں کی حفاظت کررہے تھے پھر بزرگ نے کہا کہ کمیپوٹر کی شارٹ وائر خود بخود کیسے ٹھیک ہوگئی اسے ٹھیک کیا گیا تھا ٬ پانچ کلو گوشت 135 افراد نے جی بھر کیسے کھایاکہ گوشت پھر بھی بچ گیا ۔ سانپ اور بچھو کی خصلت تو ڈسنا ہوتی ہے انہوں نے آپ یا آپ کے ساتھیوں کوکیوں نہیں ڈسا ۔ جب اللہ کے حکم پر آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے سے انکار کرسکتی ہے تو سانپ اور بچھو آپ کو کیسے ڈس سکتے تھے۔" ڈاکٹر ثمر کہتے ہیں کہ اس سے پہلے میں روحانیت کو نہیں مانتا تھا لیکن اس واقعے کے بعد میرا ایمان اور پختہ ہوگیا کہ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت کرنے والے صرف ہم نہیں ہیں بلکہ رب کائنات نبی کریم ﷺ اور ولی قطب ابدال اور صالحین اس ملک کے حقیقی محافظ ہیں ۔ عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بالکل درست کہاکہ اگر 1971 میں پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو بھارت کو کبھی یلغار کی توفیق نہ ہوتی ۔اب بھی پاکستان پر حملہ کرنے سے بھارت اس لیے ڈرتا ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم موجود ہے ۔ لیکن جب سے امریکہ نے القاعدہ اور طالبان سے امریکہ کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان میں اپنے منحوس قدم رکھے ہیں دہشت گردی کے واقعات اور سانحات نہ صرف بڑھتے جارہے ہیں بلکہ مسلسل ہمارا تعاقب کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ تائید غیبی کی مدد ہم سے کیوں چھن چکی ہے اس کا جواب بدترین اعمال کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کی بددیانتی نااہلی کرپشن کے ساتھ ساتھ خدا اور رسول ﷺ سے مدد مانگنے کی بجائے امریکہ کو اپنا آقا بنالینا بھی ہے اور ڈالروں کے لالچ میں امریکی ایجنٹوں اور تخریب کاروں کو کچھ اس طرح کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ انہوںنے پورے ملک میں اپنا جاسوسی اور دہشت گردی کا جال بچھا لیا ہے بھارت اسرائیل اور کٹھ پتلی افغان حکمران پہلے ہی پاکستان کے ازلی دشمن ہیں ۔اس لمحے جبکہ ایٹمی پاکستان قومی قیادت کے فقدان اور نااہلیت کی بنا پر پوری دنیا میں تماشا بنتا جارہاہے ۔ہر محب پاکستانی غم فکر اور تشویش میں مبتلا دکھائی دیتا ہے لیکن پاکستانی حکمران خطرات کا مقابلہ کرنے کی بجائے صرف یہ کہہ کر اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں کہ دشمن ایسی کاروائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ہمارے عزائم کو متزلزل نہیں کرسکتا ۔

ایک اطلاع کے مطابق مہران ائیر بیس پر اورین طیارے( جس کی مالیت اڑھائی ارب ڈالر بتائی جاتی ہے) چین سے ملنے والے تین D-7ہیلی کاپٹروں بھی مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اس طرح کل نقصانات کا اندازہ 10 ارب ڈالر لگایا جارہا ہے اس قدر بڑا نقصان اس پاکستانی قوم کو برداشت کرنا پڑے گا جو پہلے ہی 40 ارب ڈالر کی عالمی سطح پر مقروض ہے اندرونی قرضہ جات اس کے علاوہ ہیں ۔ یہ نقصان کیسے پورا ہوگا اور کب ہوگا اس کے بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن جس طرح پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نعمان بشیر نے کہا کہ نہ تو یہ حملہ سیکورٹی نقص ہے اور نہ ہی کوئی بڑانقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ انہوں نے یہ بات کس بنیاد پر کہہ دی کیونکہ سانحہ مہران ائیر بیس کے بعد نہ صرف پاکستان کے تمام دفاعی ادارے نااہل ثابت ہورہے ہیں بلکہ ہمارے سیکورٹی اور دفاعی اداروں کی نااہلی امریکہ اور بھارت جیسے دشمن ملکوں کو جارحیت کی کھلی دعوت دینے کے بھی مترادف ہے ۔امریکہ اور بھارت تو پہلے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے اور دبوچنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔

امریکہ کی بات تو الگ ہے بھارت کے مقابلے میں بھی پاک بحریہ کی جنگی صلاحیت پہلے بھی نہ ہونے کے برابر تھی مجھے یاد ہے کہ معرکہ کارگل جن دنوں عروج پر تھا تو بھارت نے پاکستان کی بحری ناکہ بندی کی دھمکی دے کر پاکستان کو وادی کارگل سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور کردیا تھا۔پاکستان کے پاس صرف ایٹم بم اور اس کے جری اور بہادر فوجی جوان ہیں جو اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر وطن عزیز کی حفاظت میں ہمیشہ سر بکف رہے ہیں اس کے برعکس اگر جدید ٹیکنالوجی اور جنگی سازومان کو دیکھا جائے تو بھارت پاکستان سے کہیں زیادہ بڑا طاقتور اور جارح ملک نظر آتا ہے ۔ جس کی تمام تر توجہ صرف اور صرف اپنے دفاع پر ہے وہ ایک طرف پاکستان تو دوسری جانب چین کے مقابل سینہ تانے کھڑا ہے ۔ پاکستانی افواج پر کبھی تنقید نہ ہوتی اگر ایبٹ آباد کامیاب امریکی آپریشن اور مہران ائیر بیس کے سانحات رونما نہ ہوتے ۔لیکن اب جبکہ یہ سانحات افواج پاکستان اور سیکورٹی ایجنسیوں کی نااہلی غفلت اور کمتر دفاعی صلاحیت پر منتج ہوچکے ہیں تو ہر شخص یہ کہتا ہوا سنا جارہا ہے کہ فوج کی صلاحیتوں کو اس لیے زنگ لگ رہا ہے کہ اس کی توجہ اب دفاع وطن پر نہیں رہی بلکہ ملک بھر میں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹیوں کے قیام اور وہاں دنیا بھر کی جدید سہولتوں کی فراہمی پر مرکوز ہوچکی ہے ۔ اگر دیکھاجائے تو یہ بات غلط بھی نہیں ہے صرف لاہور میں ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے سات فیز معرض وجود میں آچکے ہیں والٹن روڈ سے بی آر بی نہر تک دفاعی ادارے کی نگرانی میں خوبصورت اور پرآسائش بنگلے قطار در قطار دکھائی دیتے ہیں ۔

انگریزوں نے فوج کو اس لیے شہری سہولتوں سے دور رکھا تھا کہ شہروں میں آکر فوج کی جنگی صلاحیت کو زنگ لگ جاتا ہے لیکن سویلین اور فوجی انتظامی اداروں کی لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت کی بنا پر شہر کچھ اس بے ترتیبی اور غیر منصوبہ بندی سے پھیلتے جارہے ہیں کہ نہ صرف فوجی یونٹ بلکہ ائیرپورٹ سمیت حساس ترین مقامات بھی سویلین آبادیوں کے گھیرے میں آچکے ہیں ۔یہ بات صرف مہران ائیر بیس تک ہی محدو د نہیں رہی بلکہ لاہور انٹر نیشنل ائیرپورٹ سمیت تمام ائیرپورٹس اور حساس نوعیت کے مقامات سویلین آبادیوں میں گھر گئے ہیں ۔ افسوس تو اس بات ہے کہ کس گھر میں کون رہتا ہے کہاں سے آیا ہے اور کیا کرتا ہے کسی بھی انتظامی ادارے کو اس کی خبر نہیں ہوتی ۔ جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتاہے تو چنددن کی پکڑ دھکڑ کے بعد ایک بار پھر غفلت کی چادر تان کر انتظامیہ اگلے سانحہ رونما ہونے تک سو جاتی ہے ۔

جہاں تک مہران ائیر بیس پر دہشت گردوں کے کامیاب حملے کا تعلق ہے اس بارے میں حیران کن شواہد منظر عام پر آرہے ہیں ۔ سیکورٹی اہلکاروں کے مطابق حملہ آور سویلین معلوم نہیں ہوتے تھے بلکہ انتہائی ماہر فوجی کمانڈوز کے انداز میںنہ صرف کاروائی کررہے تھے بلکہ آپس میں گفتگو کا انداز بھی فوجیانہ تھا جو کوئی غیر ملکی زبان میں گفتگو کررہے تھے ۔تحقیقات کرنے والی سیکورٹی ٹیم کے مطابق عموما دہشت گردوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ تباہی اور ہلاکتیں ہوتاہے لیکن اس کے برعکس حملہ آور واضح مقصد لے کر ائیر بیس کی دیوار پھاند کر نہ صرف اندر داخل ہوئے بلکہ انہوں نے پاکستان کے فضائی نظام کو مفلوج کردینے والے جاسوسی طیارے اورین اور ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنایا ۔پھر انہوں نے جس رنگ کی وردی پہن رکھی تھی ان کو خفیہ کیمرے محفوظ ہی نہیں کرسکے ۔بلکہ ان کے پاس اندھیرے میں دیکھنے والے مخصوص چشمے بھی تھے جن سے استفادہ کرنے کے لیے سالوں کی تربیت درکار ہوتی ہے ۔ یہ تمام شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ مہران ائیر بیس پر طالبان یا کسی دوسری دہشت گرد تنظیم نے حملہ کیا تھا بلکہ 16 گھنٹے کا یہ جنگی معرکہ سوائے امریکن کمانڈوز یا بلیک واٹر کے ایجنٹوں کے اور کوئی بھی نہیں کرسکتا ۔ یہ بات اس شک کو مزید تقویت دیتی ہے کہ حملہ آور اورین طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو تباہ کرنے کے بعد بیس پر موجود صرف چینی انجینئروں کی بیرک میں فائرنگ کرتے ہوئے کیوں گھسنا چاہتے تھے جبکہ نیوی کمانڈوز نے چینی انجینئروں کو بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی تو حملہ آوروں نے راکٹ لانچر فائر کرکے ان بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے کی ہر ممکن اس لیے جستجو کی کہ چینی انجینئروں کی ہلاکت کے بعد چین بھی پاکستان کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے گا اور پاکستان امریکہ اور بھارت کے لیے تر نوالہ ثابت ہوگا ۔اس کے باوجود پاکستان میںامریکی سفیر کیمرون منٹر شکوے کے انداز میں کہتے ہیں کہ مہران ائیر بیس پر حملے کے حوالے سے بھی امریکہ پر ہی شک کیاجارہا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ شک صرف پاکستانی عوام اور میڈیا کررہا ہے پاکستانی حکمران امریکہ کی ناراضگی سے ڈر کر اس نہج پر سوچنا بھی گناہ عظیم تصور کرتے ہیں بلکہ وزیر داخلہ رحمان ملک ہر سانحے کی طرح اس مرتبہ بھی طالبان اور ظالمان کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔لیکن حقائق اور شواہد یہ بتاتے ہیں کہ مہران ائیر بیس پر انتہائی ماہر امریکی کمانڈوز نے طالبان کا روپ دھار کر حملہ کیاتھااور حملے کے مقاصد کیا تھے وہ امریکن اور نیٹو جرنیلوں کے بیانات سے صاف ظاہر ہورہے ہیں لیکن جہاں ہمیں دوست کے روپ میں امریکہ اور نیٹو افواج پر کڑی نگاہ رکھنی ہے وہاں ہمیں اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کوتلاش کرکے ان کا ہر ممکن ازالہ بھی کرنا پڑے گا ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ چاروں اطراف سے کچی آبادیوں میں گھیرا ہوا مہران ائیر بیس کا سیکورٹی پلان نہ ہونے کے برابر تھا چھوٹی سی چار دیواری پر کانٹے دار تار لگا کر یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ کوئی اس دیوار کو عبور کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان تاروں کو کاٹتے وقت سیکورٹی آلارم کا اہتمام تھا کہ فوری طور پر سیکورٹی ایجنسیاں حملہ آوروں کا تعین کرکے نقصان پہنچانے سے پہلے ان کا تدارک کرسکتیں ۔یہ خبر بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ جنوبی وزیر ستان سے کچھ عرصہ پہلے گرفتار ہونے والے نیوی اہلکار نے دوران تفتیش بحری تنصیبات پر بڑے حملوں کی نشاندھی کر دی تھی جس کے بعد کراچی میں نیوی بسوں پر حملے بھی ہوچکے تھے لیکن بحریہ کے ذمہ دار حلقوں نے اس کے باوجود مہران ائیر پورٹ سمیت حساس ترین مقامات پر فول پروف سیکورٹی کا کوئی انتظام نہ کرکے اپنی ناکامی اور نااہلی کو ثابت کردیا ہے ۔یہ ایک ایسا الزام ہے جس سے کوئی بھی پہلو تہی نہیں کرسکتا ۔

اورین طیارے کی تباہی کے بعد ایک طرف مالی نقصان تو دوسری جانب فضائی نگرانی کی صلاحیت انتہائی کم نہ ہونے کی بنا پر پاک بحریہ کسی بیرونی حملہ آور کو نہ تو دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی اس کے خلاف جوابی کاروائی کرنے کی پوزیشن میں رہ گئی ہے ۔ یہ بتاتا چلوں کہ سیکورٹی اداروں پر اب تک 40 سے زائد حملے کئے جاچکے ہیں جبکہ 9/11 کے بعد پاکستان میں 3322 بم اور خود کش دھماکے ہوچکے ہیں جن میں 35 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار اور شہری جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اس بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے بعد ان کے لواحقین اور پسماندگان پر کیا گزرتی ہوگی اس کا تو کسی کو انداز ہ ہی نہیں ہے ہمارے حکمران تو صرف یہ کہہ کر جان چھڑوا لیتے ہیں کہ یہ دھماکے دہشت گردی کے خلاف ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کرسکیں گے چاہے پورا پاکستان ملبے کا ڈھیر بن جائے اور ساری پاکستانی قوم اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تھک جائے ۔

کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ کسی ایک جگہ بھی دھشت گردوں کو ناکامی کا سامنانہیں کرنا بلکہ دہشت گرد جب کسی مقام پر حملہ آور ہوتے ہیں تو سیکورٹی کے تمام تر انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ بھاری جانی و مالی نقصان پہنچانے کے باوجود حملہ آور پکڑے بھی نہیں جاتے بلکہ نہایت سکون کے ساتھ فرار بھی ہوجاتے ہیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے خطرات نہیں ٹلتے ۔ صدر وزیر اعظم وفاقی وزراءسمیت تمام وزرائے اعلیٰ گورنر صاحبان بلٹ پروف گاڑیوں پر سیکورٹی کے پورے لشکر کے ساتھ خود کو محفوظ بنا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ سارا پاکستان محفوظ ہوچکا ہے لیکن دوسری جانب دہشت گرد بھاری اور جدید ترین اسلحے سمیت نہ صرف ایک شہر سے دوسرے شہر آزادانہ طور پر نقل و حرکت کررہے ہیں بلکہ سیکورٹی اداروں کی ناک کے نیچے انہوں نے تخریب کاری کا اپنا جال بھی بچھا رکھا ہے ۔جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو چند دن کی پکڑ دھکڑ کے بعد ایک بار پھر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں اور اگلے سانحے کے رونما ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔لاہور میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملہ کی بات ہو مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر دہشت گردوں کے حملے کا ذکر ہو یا ایلیٹ فورس کے ہیڈکوارٹر پر دہشت گردوں کی یلغار کا تذکرہ ہو ۔ ہر جگہ نہ صرف دہشت گرد حملے کرنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ حملے کے بعد نہایت سکون سے فرار بھی ہوگئے یہی کچھ مہران ائیر بیس پر بھی ہوا ہے جہاں دو حملہ آور ہلاک جبکہ باقی دو فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوگئے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کے پاس نہ صرف مہران ائیر بیس پر موجود طیاروں ہیلی کاپٹروں حفاظتی عملے اور ان کے لیے تعمیر کردہ برجیوں اور کنٹرول ٹاور کی مکمل تفصیلات موجود تھیں بلکہ وہ تمام اندرونی راستوں اور تنصیبات سے باخبر تھے ۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اسی ائیر بیس پراورین طیاروں کو اپ گریڈ کرنے والے امریکی ٹیکنیشنز بھی موجود تھے جو یہاں کے تمام رازوں سے آشنا تھے کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوںنے تمام معلومات دہشت گردوں کو فراہم کی ہوں یا ان کے تعاون سے یہ حملہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہو۔ لیکن اس اہم نکتے کی جانب کسی کا دھیان نہیں جارہا کیونکہ امریکی ہمارے ان داتا ہیں وہ ڈالر دے کر ہماری آزادی اور خود مختاری کو ہر سطح پر پامال کررہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے وہ ( پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کے لیے ) سب کچھ کرسکتے ہیں بلکہ اب کر بھی رہے ہیں ۔

بہرکیف امریکی جارحیت اور دہشت گردوں کی یلغار کے مقابلے ہماری پے درپے ناکامیوں نے نہ صرف سیکورٹی اداروں کا مورال گرا دیاہے بلکہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ وہ دعوے کہاں گئے جن کے بل بوتے پر کہاجاتا تھاکہ پاکستان کادفاع نا قابل تسخیر ہے اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ وہ ناقابل تسخیر دفاع اور محفوظ ہاتھ اب کہاں چلے گئے35 ہزار شہادتوں کے باوجود ہم دنیا بھر میں ایک تماشا بن کے رہ گئے ہیں ۔جب تک سیکورٹی حصار سے نکل کر اور بلٹ پروف گاڑیوں سے اتر کر تمام امریکیوں اور ان کے ایجنٹوں کو پاکستان سے نکال کر دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو ان کی کمین گاہوں میں گرفت میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک نہ تو اس ملک کو محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ایٹمی پاکستان کے تحفظ اور بقا کی کوئی ضمانت دی جاسکتی ہے ۔ہر سانحے کے بعد مداریاں کی طرح حکمران بیان بازی شروع کردیتے ہیں اور پس پردہ عوامل ایک بار پھر پس پردہ ہی رہ جاتے ہیں۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ولولہ انگیز قیادت میں پاک فوج کے ایک دستے نے برطانیہ میں ایکسرسائز کیمبریئن پٹرول میں گولڈ میڈل جیت کر یہ ثابت کردیا ہے کہ جنگی اسلحی اور معاشی ترقی کی بنیاد پر نہیں لڑی جاتیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی مہم سر کرنی ہو تو بے خوف قیادت ‘ جذبہ ایمانی ‘ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر بات کرنے کا جذبہ ہی کامیابیوں کے پس منظر میں دکھائی دیتا ہے یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ایکسر سائز کیمبریئن پٹرول برطانوی آرمی کی ایک انتہائی اعلی درجے کی ایکسر سائز ہے جو ہر سال برطانیہ کے علاقے ویلز میں منعقد کی جاتی ہے اس میں دنیا بھر کی افواج کے منتخب دستے شرکت کرتے ہیں اس تین روزہ ایکسرسائز میں 8 رکنی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں ان ٹیموں کو دشمن کی صفوں میں سرایت کرنا ‘ اس کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا ‘ ہر طرح کی رکاوٹیں عبور کرنا ‘ انتہائی قریب سے دشمن کی جاسوسی کرنا اور حقیقی جنگی ماحول میں وہاں سے صحیح سلامت واپس آنا شامل ہے ۔پاک فوج نے اس ایکسرسائز میں گولڈ میڈل حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے بھارت اور امریکہ ان مقابلوں میں بمشکل سلور میڈل حاصل کرسکے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.