نئے اتحاد٬ بڑھتے اختلافات اور باغی گروہ

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص آشوب چشم میں مبتلا ہوگیا اور علاج کیلئے سلوتری ( جانوروں کے معالج ) کے پاس چلا گیا اس نے وہی دوا جو جانوروں کی آنکھوں پر لگاتا تھا اس کی آنکھوں میں لگا دی اس دوا سے بیماری نے کیا خاک ٹھیک ہونا تھا الٹا بیچارہ اندھا ہوگیااورآکر سلوتری سے جھگڑنے لگا یہاں تک کہ معاملہ عدالت میں جا پہنچا قاضی نے فیصلہ دیا کہ سلوتری پر کوئی تاوان نہیں اگر یہ شخص خود گدھا نہ ہوتا تو جانوروں کے معالج کے پاس کیوں جاتا داناﺅں کے نزدیک یہ کم عقلی کی بات ہے کہ وہ کام جس کیلئے تجربہ اور مہارت فن لازم ہو اُسے کسی ناتجربہ کار آدمی کے سپرد کیا جائے ۔۔۔

قارئین انتخابات کے موقع پر ٹکٹ تقسیم کرتے ہوئے جو مختلف پارلیمانی بورڈز بنے انہوںنے جو فیصلے کیے ان فیصلوں کے نتائج پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ایک باغی گروہ کی شکل میں سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں حلقہ ایل اے ون ڈڈیال سے لے کر حلقہ ایل اے 41تک جہاں جہاں دو یا دو سے زائد ٹکٹ کے امیدوار موجودتھے وہاں دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک نیا اتحاد سامنے آیا ہے اور ابھی کئی مزید اتحاد اور سیاسی جوڑتوڑ کے بعد گروہ بندیاں سامنے آئیں گی جتنا زیادہ امید کا اظہارکیا جارہاتھا کہ آمدہ انتخابات میں آزادکشمیر کے عوام برادری ازم اور علاقائی عصبیت سے نکل کر ایشوز اور ایجنڈا زپر اپنے قائدین کا انتخاب کریں گے اتنا ہی زیادہ یہ دونوں عصبیتں اورنفرتیں فروغ پار ہی ہیں اور ایسے ایسے نعرے بلند کیے جارہے ہیں کہ جنہیں سن کر یہ یقین نہیں ہوتا کہ آزادکشمیر کے عوام اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں یوں لگتا ہے کہ آج بھی ہم مہاراجہ ہری سنگھ کے ڈوگرہ عہد میں جی رہے ہیں صد افسوس ، صد افسوس ۔۔۔

قارئین! اس وقت مسلم کانفرنس اس تمام صورتحال کا بے پناہ فائدہ اٹھا سکتی ہے اور وہ اکثر مسافر جو اس گاڑی سے اتر کر دوسری گاڑیوں میں سوار ہو چکے تھے انہیں اچھی سیٹوں کی آفر لگا کر مسلم کانفرنس انہیں اپنی ”الیکشن بس “ کا حصہ بنا سکتی ہے دلچسپ ترین امر یہ ہے کہ صحافیوں کے باخبر حلقے اس وقت اس چیز کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اندرون خانہ اور پس پردہ ”بیرسٹر اینڈ سکندر“اور”عتیق اینڈ مجید“اتحاد بھی کام کر رہا ہے اور لاتعداد حلقوں میں یہ اتحاد سیٹوں کے فیصلے کریگا ۔ مقدر کے سکندر ہارے ہوئے کھلاڑی بھی بن سکتے ہیں اور چھپے رستم بھی سامنے آسکتے ہیں لیکن ان سب میں دیدئہ بینا یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ آزاد کشمیر کے غریب عوام کے مسائل کے حل کےلئے یہ پیش پردہ اور پس پردہ اتحاد کیا کام کر رہے ہیں کیا ان اتحادوں کے نتیجہ میں غریب عوام کو اعلیٰ تعلیمی سہولیات میسر آئیں گی ۔۔۔؟

کیا ان اتحادوں کے نتیجہ میں لاکھوں غریب کشمیریوں کو سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی بہتر سہولیات مل سکیں گی ۔۔۔؟

کیاان نئی صف بندیوں کے نتیجہ میں واقعتا وہ قیادت منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جائے گی کہ جو لاکھوں بے روزگار پڑھے لکھے نوجوانوں کو باعزت روزگار مہیا کرنے کےلئے منصوبہ بندی کر سکتی ہو ۔۔۔؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ان اتحادوں کے نتیجہ میں جو بھی قیادت سامنے آئیگی کیا وہ مسئلہ کشمیر حل کر کے آزادی کشمیر کی طرف قدم بڑھانے کے قابل ہو گی ۔۔۔؟

قارئین! یہ سب سوال اور ان سوالوں سے ملتے جلتے کئی سوالیہ نشان سوچنے والے ذہنوں اور قوم کا درد رکھنے والے دلوں میں موجود ہیں ۔ یہ ایک افسوس اور سانحہ کا منظر ہے کہ جس عفریت نے گزشتہ 63سالوں سے کشمیری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے نفرتوں کا وہ اژدھا ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے اور کسی کے کان پر بھی کسی قسم کی جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ کشمیری قوم بلاشبہ راجپوت ،جاٹ، گجر، انصاری ، کشمیری، مغل، سدھن ، آرائیں ، بینس ، بھٹی قبائل سے لیکر درجنوں برادریوں پر مشتمل ہے اور یہ تمام برادریاں کشمیری قوم کا حسن ہیں مختلف اور متنوع ازہان اورطبیعتیں رکھنے والے یہ تمام کشمیری مخلص ، دیانتدار اور اہل قیادت کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں برادری ازم کے نام پر ورغلا کر غلط فیصلے کرنے کی طرف نہ ابھارا جائے یہی ہمارے دین کا درس ہے اور یہی ہمارے پیارے رسول ﷺ کے خطبہ حجتہ الودا ع کے موقع پر دیا جانے والا پیغام بھی تھا جو رہتی دنیا تک پوری امت کےلئے ایک نمونہ ہے ۔ کاش ، کاش ،اے کاش ہم اس پیغام کی روح کو سمجھ سکیں اور اس پر دل کی گہرائیوں کے ساتھ یقین رکھتے ہوئے عمل کر سکیں یہی ہمارے لئے بقاءاور فلاح کا راستہ ہے۔
بقول غالب ۔
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یارب !اسے قسمت میں عدو کی
اچھا ہے سرانگشت حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حو صلگی سے؟
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی

قارئین ! حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جو لینڈ سلائیڈ وکٹری اور دو تہائی اکثریت کے ” وفاقی دعوﺅں “ کے ساتھ میدان انتخاب میں اتر رہی ہے ان کے اپنے چند اختلافات بلاشبہ دو معزز ترین قائدین کےلئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن چکے ہیں اور وہ دو قائدین چوہدری عبدالمجید اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ہیں ان دونوں شخصیات کا قد کاٹھ اور اپنے اپنے حلقے کےلئے کی جانے والی کوششیں اور مختلف کام اپنی جگہ پر حیثیت رکھتے ہیں لیکن ”بیگم وزارت عظمیٰ“کی قبل ازوقت دوڑ اور منصوبہ بندی سے بلاشبہ ان دونوں شخصیات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کا فائدہ کوئی بھی تیسری قوت اٹھا سکتی ہے اگر یہ دونوں شخصیات آج بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتحاد اختیار کریں تو پاکستان پیپلزپارٹی بلاشبہ تخت کشمیر پر براجمان ہونے کی ناقابل شکست حیثیت اختیار کر سکتی ہے لیکن ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔۔۔؟“

قارئین ! پاکستان مسلم لیگ ن ایک تبدیلی کا پیغام لیکر آزاد کشمیر میں داخل ہوئی اور بد قسمتی سے تبدیلی کے اس پیغام کا راستہ بھی شائد قبائلی عصبیت نے روک لیا ۔گزشتہ روز حلقہ ایل اے ون ڈڈیال سے پاکستان مسلم لیگ ن کےلئے دن رات کام کرنے والے نوجوان رہنماءچوہدری آفتاب نے ایک ریڈیوسٹیشن پر انٹرویو دیتے ہوئے دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا کہ انہوں نے اس جماعت کی خاطر دن رات کام کیا ، گرفتاریاں اور پولیس تشدد بھی برداشت کیا ، میاں محمد نواز شریف کی پاکستان آمد کے موقع پر جنرل مشرف کے دور حکومت میں تکلیفیں بھی برداشت کیں اور مختلف ناکوں پر استقبال کی کوشش کے دوران لاٹھی چارج کا سامنا بھی کیا ، جب ٹکٹ دینے کا موقع آیا تو پاکستان مسلم لیگ ن کے چند قائدین نے میرٹ کو پس پشت ڈال کر برادری ازم کو فروغ دیا ۔ چوہدری آفتاب کا یہ انٹرویو پاکستان مسلم لیگ ن کےلئے خطرے کی گھنٹی اور جاگنے کا الارم ہے اب بھی وقت ہے غلط فیصلوں کو تبدیل کر کے درستگی کی طرف قدم بڑھائے جائیں ورنہ مورخ اور تاریخ ہمیشہ ہر شخصیت کا محاسبہ کرتے ہیں اور ان محاسبوں کو نسلیں یاد کرتی ہیں ۔۔۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
جمیل نے اپنے دوست سے کہا کہ
”میں جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں میری والدہ اسے پسند نہیں کرتیں کیا کروں؟“
دوست نے کہا
”بھئی تم ایسی لڑکی تلاش کرو جس کی شکل و صورت اور عادات تمہاری والدہ جیسی ہوں “
کچھ عرصے بعد دونوں دوستوں کی ملاقات ہوئی تو جمیل کہنے لگا
”یار میں نے تمہارے مشورے پر عمل کیا اور ایک ایسی لڑکی تلاش کی جو بالکل میری والدہ جیسی تھی ، انہی کی طرح باتیں کرتی تھی اور عادتیں بھی انہی جیسی تھیں وہ میری والدہ کو تو بہت پسند آئیں لیکن ۔۔۔“
دوست نے پوچھا ۔
”لیکن کیا۔۔۔؟“
جمیل نے بے بسی سے کہا
”لیکن میرے والد اسے پسند نہیں کرتے ۔“

قارئین ! اقرباپروری اور برادری ازم کی سیاست میں سب سے بڑی قباحت یہی ہے کہ کبھی کوئی امیدوار کسی کو پسند نہیں آتا اور کبھی کوئی ٹکٹ ہولڈر کسی کی نگاہ انتخاب میں نہیں جچتا ۔۔۔فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے برادری ازم کے بت ۔۔۔یا ۔۔۔میرٹ کی سیاست ۔۔۔؟
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337893 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More