الیکشن 2011 ....فکرانگیز پہلو

ہمارے ہاں الیکشن تو کئی سالوں سے ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک ہمارے ہاں جمہوری اقدار فروغ نہیں پاسکیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے رویے غیر جمہوری اور سفاکانہ ہوتے جارہے ہیں۔ جمہوریت تو انسانی آزادیوں کا نام ہے۔ جس میں سب سے زیادہ سوچنے، سمجھنے اور اپنی رائے قائم کرنے اور اس رائے کی پرچار کرنے کی آزادی شامل ہوتی ہے۔ انتخاب مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور اور ایجنڈے کو پسند کرنے یا رد کرنے کا نام ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں پارٹی پالیسی اور ایجنڈے کا سرے سے کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ سارا انتخابی عمل خالصتاً امیدوار کے گرد گھومتا ہے۔ نظریات کا عمل دخل صرف دو فیصد رہ گیا ہے۔ اٹھانوے فیصد ووٹ برادری، دھڑے، فرقے اور دوستی اور ذاتی مفادات کی بناء پر ڈالے جاتے ہیں۔ جب انتخاب کی بنیاد کسی سیاسی جماعت کی پالیسی نہ رہے، کسی امیدوار کا کردار نہ رہے بلکہ اصل معیار برادری، دھڑا، دوستی، مفاد اور فرقہ بن جائے تو پھر جو کچھ منتخب ہوگا، وہ ایسا ہی ہوگا جیسا گزشتہ پانچ سالوں میں چار وزراءاعظم کا انتخاب ہے۔ ہر منتخب فرد قابل خرید ہوگا، اس کے پیش نظر کوئی پروگرام اور ایجنڈا نہیں بلکہ چمک اور اس کی مقدار ہو گی۔ نہ کوئی پارٹی ڈسپلن ہوگا اور نہ پارٹی ہوگی۔ ہر منتخب فرد اپنے فیصلے کرنے میں آزاد اور خودمختار ہو گا۔ ہم یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں اور مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ جب تک قوم میں شعور پیدا نہیں ہوتا تب تک ہم اسی خود کش نظام کا حصہ بنے رہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ پڑھ لکھ کر انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے، جبکہ ہمارے خطے میں پڑھ لکھ کر انسان مزید متعصب، خودغرض اور سفاک ہو جاتا ہے۔ علم جب صرف انگریزی اور اردو کے چند حروف کی پہچان تک محدود ہو جائے تو پھر ایسے علم سے یہی کچھ برآمد ہوگا جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ علم محض حروف کی پہچان نہیں بلکہ اس پہچان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حقیقی علم سے آگاہی لازم ہے۔ خدائی ہدایات سے عاری علم امریکہ جیسی سفاکیت، روس جیسی استعماریت ، بھارت جیسی ہٹ دھرمی ،چین جیسی بے چین اور پاکستان (بشمول کشمیر) جیسی بے حسی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔

علم جب حق اور باطل ، سچ اور جھوٹ، بھلائی اور برائی، انصاف اور بے انصافی، جہالت اور آگاہی ، ظالم اور مظلوم کے درمیان تمیز نہ کرسکے تو وہ علم نہیں کھلی جہالیت ہے۔ عالم اسلام کے نامور علمائے کرام سید قطب ؒشہید اور سید ابواعلیٰ مودودیؒ نے موجودہ تعلیمی نظام اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے کلچر کو جدید جہالیت سے تعبیر کیا ہے۔ آزادکشمیر میں شرح خواندگی ساٹھ فیصد تک پہنچ چکا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اچھے اور برے کی تمیز، حق اور ناحق میں فرق اور اچھائی کا ساتھ دینے اور برائی سے نفرت کرنے کے بجائے قبیلائی عصبیت، مفادت پرستی،دھڑے بندی اور فرقہ واریت جیسے ناسور دن بدن فروغ پا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ محراب و ممبر اور خانقاؤں کے وابستگان بھی عقل کے بجائے پیٹ سے سوچنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہر ایک شے قابل خرید ہے، اہل دانش بھی اپنی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں بھی مفادات اور ذاتی پرخاش کی بھینٹ چڑھاتے جار ہے ہیں۔

ہرطرف بے چینی،بے مروتی اور عدم احترام کا دور، دورہ ہے۔مسلمان، مسلمان سے خائف اور متصادم ہے۔ کہیں کسی طرح کی اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں۔ نہ دوستی، رشتہ داری کے لیے کوئی اخلاقی تقاضے روا رکھے جاتے ہیں اور نہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی اخلاقیات کا کوئی وجود پایا جاتا ہے۔ نفسا نفسی ، خودغرضی اور لوٹ مار نے سارے معاشرے کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اعتماد اور بھروسہ کہیں بھی موجود نہیں۔ باپ اور بیٹا تک ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ قرآن پر کیے گئے حلف بھی اب قابل بھروسہ نہیں رہے۔ گزشتہ سالوں میں ہمارے ممبران اسمبلی نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جو عہد و پیما کیے پھر انہیں حرف غلط کی طرح خود ہی مٹا دیا۔ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو سکتا ہے۔ ان دنوں ووٹوں کے لیے دی جانے والی نقد رقوم بھی قرآن پر حلف لے کر دی جا رہی ہیں۔ جب معاشرہ اس سطح پر پہنچ جائے تو پھر اسے خدائی غضب اور تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

ہادی دو عالم، امام الانبیاءﷺ نے ان حالات کے بارے میں پیشنگوئی فرمائی تھی کہ جب تم نیکی کا حکم دینے اور برائی کو روکنے کا فرض ادا نہیں کرو گے تو تم پر ظالم حکمران مسلط کر دئے جائیں گے، ذلت اور رسوائی تمہارا مقدر ہو گی ۔ تمہارے نیک لوگ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں گے تو وہ قبول نہیں ہوں گی۔ پیشنگوئی آج روز روشن کی طرح ہمارے معاشرے کی عکاسی کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال بد کے نتائج سے محفوظ رکھے۔ تاہم ایک امید کی کرن یہ بھی موجود ہے کہ ان ساری برائیوں میں شریک ہر فرد اب بھی ان برائیوں سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے اندر خیر کی طاقت اس کو شرمندہ کرتی ہے اور ہر ایک برائیوں کے اس سمندر سے نکلنا چاہتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی اس پیشن گوئی کے اندر ہی اس کا علاج بھی موجود ہے کہ اگر مسلمان اللہ کی طرف لوٹ جانے پر تیار ہو جائیں، نیکی کا حکم دینے لگیں اور برائی سے روکنے لگیں تو وہ اس صورت حال سے نجات پا سکتے ہیں۔

الیکشن کو بعض لوگ دینی دائرے سے باہر تصور کرتے ہیں ، حالانکہ ایک مسلمان ملک میں قوم کی امانتیں سپرد کرنے کا خالصتا دینی فریضہ ہے۔ اسے دینی روح کے ساتھ ہی انجام دینا چاہیے۔ لاکھوں انسانوں کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینا اگر دینی معاملہ نہیں تو پھر دین کس شے کا نام ہے۔ الیکشن کے دوران ہر انسان کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اس موقع پر ہر فرد کی اسلام سے وابستگی، برادری اور قبیلے سے وابستگی، سچ اور جھوٹ سے وابستگی، اچھائی اور برائی سے تعلق سب کچھ عوام کے سامنے آ جاتا ہے۔ پورا معاشرہ گواہ بن جاتا ہے کہ کس نے حق، سچ اور انصاف کے لیے اپنے قبیلے، اپنے فرقے، اپنی رشتہ داری، اپنے دھڑے اور اپنے مفادات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ضمیر کے مطابق حق کا ساتھ دیا اور وہ بھی لوگ بھی مردہ جانور کی طرح عوام کے سامنے آجاتے ہیں جو سارے نظریات ، اللہ تعالیٰ اور محمد عربی ﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اپنے قبیلے، اپنے دھڑے، اپنے فرقے اور اپنے مفاد کی خاطر اپنا وزن اللہ کے باغیوں، شیطان کے دوستوں اور کرپشن، بے حیائی اور گمراہی کی راہ پر چلنے والوں کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح ہر انسان الیکشن کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ پورے معاشرے کے سامنے بھی عیاں ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود سچ کے بجائے جھوٹ کا ساتھ دینے پر اصرار کرنے والوں کو اس معاشرے پر رحم کھانا چاہیے۔

معاشرے کے صاحب علم و یقین اور اقامت دین کے تقاضوں کو سمجھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرے کو قہر خداوندی سے بچانے کے لیے دن رات محنت کریں، مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور محمد ﷺ کی اطاعت کی دعوت پر جمع کریں اور اس ظالمانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے پوری جرات سے میدان میں نکلیں۔ اگر وہ بھی مصلحتوں کا شکار رہے، معمولی، معمولی مفادات اور پریشانیوں کے اسیر بنے رہے تو پھر اللہ کا فیصلہ نافذ ہو کر ہی رہے گا۔ صاحب بصیرت حضرات کو اپنی اور قوم کی بھلائی کے لیے زندگی کا ایک، ایک لمحہ قوم کو اللہ کی طرف پلٹنے میں لگا دینا ہوگا، تب ہی خیر کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105932 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More