حماس کے راکٹ اور ہمہ گیر بیداری کی لہر

اسرائیل اور فلسطین کے حالیہ تصادم میں جو لوگ جانی و مالی نقصان کی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی نظروں سے بے شمار کامیابیاں اوجھل ہوجاتی ہیں۔فتح و شکست کے پیمانے یکساں نہیں ہوتے۔ یہی وجہ کہ کچھ لوگوں کو مفتوح بھی فاتح نظر آتا ہے۔ ایک زمانے تک مسجد اقصیٰ کی بازیابی ساری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ تھا لیکن وقت کے ساتھ اسے فلسطینی مسلمانوں تک اور پھر غرب اردن میں بسنے والے القدس کے فلسطینیوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ مغرب اور اسرائیل کی بہت بڑی نظریاتی کا میابی تھی اس لیے کہ اب اس کی دشمنی ایک بے بس خطے میں بسنے والے مسلمانوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ اس مرتبہ جمعتہ الوداع کے دن جب مسجد اقصیٰ کے اندر نہتے مسلمانوں پر گولیاں چلا کر 180 لوگوں کو زخمی کیا گیا تو اسرائیل کو یہی توقع رہی ہوگی کہ اب وہ لوگ دبک کر اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں گے ۔ دنیا کے دوچار ممالک اس پر تنقید کرکے خاموش ہوجائیں گے ۔ باقی لوگ اپنی خصوصی دعاوں پر اکتفاء کرلیں گے اور یوم یروشلم کے دن یہودی انتہا پسندوں کو آزادی کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں گھسنے کی چھوٹ مل جائے گی ۔ حکومت اسرائیل ان کو یہ سہولت فراہم کرکے اپنا سیاسی روٹیاں سینکے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ساری دنیا مسلمانوں اور انصاف پسندوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور امریکہ کے لیے سلامتی کونسل میں اپنے حلیف اسرائیل کی مدافعت مشکل ہوگئی۔

یہ انقلاب اس لیے آیا کہ غرب اردن کے مسلمانوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر مسجد اقصیٰ کے تقدس کو بحال رکھنے کا فیصلہ کیا اور یوم یروشلم کے دن بڑی تعداد میں مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے ۔ اس طرح سرکاری حفاظتی دستوں کے ساتھ از سرِ نو تصادم ہوا ۔ مسجد کے اطراف میں بڑے پیمانے پر سرکاری دستوں کی تعیناتی عمل میں آئی ۔ اس کی حکومت اسرائیل کی پر زور مذمت کرنے والی حماس نے شام ۶ بجے تک مسجد کے اطراف سے حفاظتی دستوں کو ہٹانے کی وارننگ دی اور بصورت دیگر حملے کی دھمکی دے دی ۔ مغرور اسرائیلی سرکار نے اقتدار کے نشے میں اسے نظر انداز کردیا اور پھر غزہ سے راکٹ کے حملوں کا آغاز ہوگیا ۔ اس کے بعد حالات کا نقشہ بدلتا چلا گیا ۔ اس حملے نے نہ صرف غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے اندر زبردست جوش و ولولہ پیدا کیا اور وہ سڑکوں پر اتر آئے بلکہ اسرائیل کے کئی شہروں میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوگئی اور اسرائیل کو پورے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرنا پڑا۔ ان حفاظتی دستوں کوجو مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تعینات کیےگئے تھے واپس بلا کر اپنے شہروں میں یہودیوں کی حفاظت کے لیے بلانا پڑا۔ اس سے غرب اردن میں آباد کار یہودی عدم تحفظ کا شکار ہوگئے۔

یہ تو خیراسرائیل کے اندرون ملک کی صورتحال تھی کہ بار بار سائرن بجتے ہی اپنے آئرن ڈوم (آہنی گنبد ) پر فخر کرنے والے یہودیوں کو زیر زمین بنکر یا محفوظ کمروں میں دبک کر بیٹھ جا نا پڑتا تھا لیکن یہ آگ دیکھتے دیکھتے سرحدوں پر پہنچ گئی اور وہاں بھی خطرات منڈلانے لگے ۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف ہزاروں جانبازوں نے اردن سے اسرائیلی سرحد کی جانب کوچ کیا اور غرب اردن کے علاقہ میں داخل ہوگئے ۔ لبنان کی سرحد بساطین القلیلہ سے اسرائیل کی جانب تین راکٹ بھی چھوڑے گئے ۔ روسی ساخت کے ان میزائلوں کے الجلیل الشلومی میں گرنے کی تصدیق اسرائیلی فوج نے کی ۔ اسکے علاوہ لبنانی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے بھی اسرائیلی سرحد احتجاج کیا اور اند ر داخل ہونے کی کوشش کی۔ بیروت کے اندر تین دن قبل شیخ جراح کے علاقہ سے فلسطینی بیدخلی کے خلاف بہت بڑا مظاہرہ ہو چکا ہے۔

لبنان کی جانب سے پیش قدمی اسرائیل کے لے تشویش کا سبب بنی ہے۔ اسرائیلی فوج نے خبردار کیا ہے اگر لبنان نے تل ابیب کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں‌ گے لیکن حماس نے اس کی دھمکیوں کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان افیحائی ادرعی نے ایک بیان میں تسلیم کیا کہ لبنان سے دو مشتبہ افراد کو سرحد میں د اخل ہو کر کارروائی کرنے سے روکنے کے لیے شہید کردیا گیا۔ صہیونی فوج کے ترجمان نے لبنان کی سرحد پر مارون الراس اور العدیسہ کے مقامات پر فوج کی بھاری نفری تعینات کرنے کا اعلان کیا لیکن اب وہ اپنی فوج کہاں کہاں لگائیں گے ؟ ویسے تو لبنانی فوج نے سرحد پر تمام راستے سیل کردیئے ہیں مگر فلسطینی تنظیموں نے لبنان کے اندر قائم نہر البارد ، البداوی، الرشیدیہ اور عین الحلوہ کے پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پذیر فلسطینیوں سے اسرائیل کی سرحد پر جمع ہو کر احتجاج کا اعلان کررکھا ہے۔ لبنان میں تقریباً ۲ لاکھ فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں ۔اس دوران اسرائیلی فوج نے لبنانی سرحد حزب اللہ کے 21 سالہ محمد طحان کو شہید کرکے ایک نیا محاذ کھول لیا ہے۔ جب وہ لوگ بھی میدان میں اتریں گے تو اسرائیل کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

لبنان کے ایک دن بعد اسرائیں فوج نے شام کی سرزمنا سے بھی راکٹ داغے جانے کا دعویٰ کال اور کہا کہ یہ راکٹ چونکہ ویران علاقے مںل گرے اس لیے کوئی نقصان نہںہ ہوا ہے۔اسرائیزم فوج کے ترجمان نے کہا کہ شام کی سرزمنی سے اسرائیہ علاقوں پر تنا راکٹ داغے گئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل حماس کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو اب صرف غزہ سے نہیں بلکہ مختلف محاذ پر خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور ان سب کا مقابلہ کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا ۔ حماس نے اسرائیل کے آس پاس بسنے والے مختلف فلسطینی کیمپوں کے نوجوانوں میں بیداری کی لہر پیدا کردی ہے۔جن فلسطینیوں کو ملک بدر کیا گیا تھا اب وہ علم بغاوت بلند کررہے ہیں ۔ حماس نے ان کے اندر غیر معمولی جذبہ عمل اور مزاحمت کا حوصلہ پیدا ہوا ہے ۔ یہ نہایت خوش آئند تبدیلی ہے اس لیے حکومتوں کو زیر دام کرنا جس قدر آسان ہے عوامی بغاوت کو کچلنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔

حماس کے اس راکٹ حملے نے مصالحت پسند الفتح کو بھی اپنی حکمت عملی بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ فلسطیاس اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے ابتدا میں صرف وعظ و نصیحت پر اکتفاء کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ بتر المقدس کی آزادی کے بغر امن کا قاہم ممکن نہں ۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیو حملہ بنو الاقوامی قواننب کو کھلی پامالی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم ایسا مستقل حل چاہتے ہںا جس مںے فلسطنک پر کسی کا قبضہ نہ ہو اور کوئی آباد کاری نہ ہو مگر اسرائل القدس پر اپنا قبضہ مسلط کرنا چاہتا ہے۔اسرائلئ نے غرب اردن اور غزہ کی پٹی مں فلسطو اوں پر وحشاانہ جنگ مسلط کی ہے جب کہ فلسطیضہ قوم قابض دشمن کی جارحیت کے خلاف لڑ رہی ہے۔اس پورے بیان میں حالات سے واقفیت کرانے کے بعد اپنا موقف تو واضھ کیا گیا تھا مگر کسی عملی اقدام کا شائبہ تک نہیں تھا ۔ صدر عباس نے یہ اہم انکشاف بھی کا تھا کہ اسرائیھا جارحیت کے خلاف وہ روزانہ کی بناحد پر امریہ۔ کے ساتھ رابطے مںک ہں ۔ ان کی سفارتکاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے اسرائیل کی بمباری کو حق بجانب ٹھہرادیا اور سلامتی کونسل کے اجلاس کو ویٹو کے زور سے ملتوی کردیا۔

حماس کے حملے سے دباو میں آخر خالی خولی لفاظی کرنے والے محمود عباس کو بھی اپنا لب و لہجہ بدلنا پڑا ۔ حکمران جماعت ’فتح‘ نے ایک طویل عرصے کے بعد اسرائلخ کے ساتھ غرب اردن کی سرحد متارکہ کے قریب واقع فلسطیحر شہروں مںا احتجاجی ریا غں نکالنے کا اعلان کیا۔محمود عباس نے دیکھا کہ غزہ کی پٹی پر مسلسل تن دنوں کی بمباری کے تناظر مںو جاری کشداگی کے خلاف مغربی کنارے مںہ احتجاج کا سلسلہ اب زور و شور کے ساتھ شروع ہوچکا ہے۔ اس بابت فلسطیار مظاہرین اور اسرائیتو فوجوںں کے درماان جھڑپںے ہورہی ہںت۔ غرب اردن کے تارییش شہر الخللہ اور جننل مںر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لےں اشک آور گس کے شیل بھی برسائے گئے لیکن یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ جمعہ کے بعد سے تقریباً 100 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔شمالی جنن کے الجلمہ کراسنگ کے قریب بھی فلسطیسل مظاہرین اور اسرائیخل فوجوجں کے درماںن جھڑپںس ہوئی ہںر۔ ایسے میں گول مول باتیں کرکے عوام کو افیون پلاتے رہنے سے ساکھ کے خاک میں مل جانے خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس لیے مجبوراً فتح کو یہ احتجاج کا اعلان کرنا پڑا۔

اس تبدیلی نے وقت کے پہیے کا رخ بدل دیا ہے۔ مرحوم یاسر عرفات کی قیادت میں فتح فلسطینی حقوق کی خاطر لڑنے والی سب سے بڑی تنظیم تھی لیکن امریکہ اور اسرائیل نے بڑی چالاکی سے اسے کیمپ ڈیوڈ میں اپنے جال کے اندر پھنسا لیا۔ اس کے بعد محمود عباس کے آتے آتے فتح کے دانت اور ناخن نکال کر اسے سرکس کا شیر بنادیا گیا جو ہنٹر کے اشارے پر اچھل کود کرتا تھا لیکن اب حماس کی دلیری نے اس کو بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ فتح کو اب یا تو میدان عمل میں آکر کشمکش کی پرانی راہ اختیار کرنی ہوگی یا وہ ماضی کی ایک داستانِ پارینہ بن جائے گی ۔ یہ حماس کی یہ سب سے بڑی فتح ہے کہ اس نے ایک سوئے ہوئے شیر کو بیدار کردیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک زمانے تک حماس کو ناعاقبت اندیش کہنے والے محمود عباس کو اب حماس کے ساتھ قاہرہ میں طے پانے والا معاہدہ یا د آرہا ہے جس میں فلسطینی کی داخلی وحدت کو وقت کی اہم ضرورت تسلیم کیا گیا تھا ۔ القدس کے دفاع برپا حالیہ معرکے کو وہ اس وحدت کا مظہر قرار دے رہے ہیں۔موجودہ منظر نامہ کی یہ کامیابیاں فتح مبین کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں ۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1225084 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.