مسجد اقصیٰ ،فلسطینی ، اسرائیلی جبر تشدد اور پاکستان

قارئن! تقریباََ دوہفتے پہلے جب اسرائیلی فورسزنے مسجد اقصیٰ میں گھس کرنمازیوں پرتشدد کیا ،اور اندھا دھند گولیاں چلاکر ،آنسو گیس استعمال کرکے ظلم و جبر کی گھناؤنی تاریک میں مذید ایک باب کا اضافہ کیا ۔اس کی ویڈیوز خبریں سوشل میڈیا پر آنے کیساتھ ہی حسب سابق پاکستان میں تشویش کی لہرپیدا ہوئی ۔ہرطبقہ و حلقہ کی جانب سے اسرائیلی جبر و تشددپر سختی نفرت و مذمت کااظہار کیا گیا۔جوکہ فطری بات ہے ۔ پاکستانیوں کے دل و دماغ میں اچھے جذبے اور سوچ ہمیشہ سے موجود رہتی ہے۔اس لئے نفرت و مذمت کااظہار ہونے لگا۔لیکن اس دوران ایک خطرناک ’’کاریگری ‘‘بھی شروع ہوئی ۔سوشل میڈیا پر بطور خاص ’’پاک فوج ‘‘کو فلسطینیوں کی مدد کیلئے جانے یا بھیجے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اور بھی کچھ باتیں عام ہوئیں۔جوکہ مسلح افواج پاکستان کیخلاف عوامی ذہن سازی کی مکروہ و گھناؤنی سازش کے سوا کچھ نہیں ۔فرض کرلیں ایسے مطالبہ میں کچھ لوگوں کی سادہ دلی کا عمل دخل بھی ہے تو پھربھی دیکھنا تو ہوگا کہ آخر کون ہے؟یا کون کون ہے جو اس نازک صورتحال میں بھی پاک فوج کو اپنی مکاری کا نشانہ بنانے کی کوشش کررہا ہے۔اور اسے کیسے روکاجاسکتا ہے؟؟میرا ذاتی خیال ہے کہ قبلہ اؤل کی آزادی ،کشمیریوں پر اپنے ہی وطن میں زمین تنگ کئے جانے پر معاشی طور پر بڑے اور موثر ممالک سمیت فوجی اعتبار سے مضبوط ممالک کا ایک کردار بنتا ہے ۔مثلاَتمام مسلمانان عالم کیلئے عقیدتوں کی سرزمین پر موجود حکمرانوں کی معاشی طور پرمضبوطی اور بااثرہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟اور پھرتین سال پہلے ’’اسی سرزمین ’’سعودی عرب‘‘کی سرگردگی میں ایک ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘بھی قائم ہوچکا ۔جسکامینڈیٹ قبلہ اؤل کی آزادی کیلئے یا پھرکم ازکم مسجد اقصیٰ کی حُرمت قائم رکھنے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی روک تھام کیلئے ’’دباؤڈالنا‘‘ضرور ہونا چاہیے تھا۔اگر اس پلیٹ فارم سے اسرائیل کو مسجد اقصی ٰ کی بے حُرمتی اور فلسطینیوں پرجبرو تشددسے بازرہنے کیلئے للکاراجاتا۔لازمی طور پر اسرائیل رُک جاتا ۔کہ وہ آگاہ ہوتا کہ ’’41اسلامی ممالک کے اتحاد‘‘کا مرکزی ہدف قبلہ اؤل کی آزادی اور فلسطینیوں کے وطن اور حقوق کاتحفظ ہے۔نہ کہ کچھ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر صاحبو ! یہاں اسرائیل ہی کیا جُملہ طاغوتی طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ ’’سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد کی تشکیل کی حقیقت کیاہے؟؟‘‘یہی نہیں اس حقیقت سے فلسطینی بھی اچھی طرح آگاہ ہیں ۔وہ بھی جانتے ہیں کہ ’’سعودی حکمران‘‘اور اُنکا بنایا گیا اتحاد اُنکے لئے نہیں ہے۔اسی طرح OICنامی پلیٹ فارم بھی موجود ہے ۔لیکن یہ سب کہاں چھپے ہیں؟؟؟شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں سے ایسی آوزیں بھی اُٹھنے کی باز گشت ہے ۔جن میں پاکستان اور مسلح افواج کو مخاطب کیا گیا ہے۔اور یہ بڑی بات ہے کہ فلسطینیوں میں ایک توقع ایک اُمید پائی جاتی ہے ۔پاکستان سے متعلق ۔۔۔۔مگر اس پر ناخوش ہونے کی ضرورت ہے ،نہ بغلیں بجانے کی ۔۔کوئی بھی مظلوم و محکوم ہووہ یہی چاہتا ہے کہ طاقتور و بااثر قوت اُسکی مدد کرے۔اب فلسطین ہویا مقبوضہ کشمیر ،پاکستان ،مطلب افواج پاکستان پر توقعات و اُمیدیں ضرور ہیں ۔لیکن یہاں دیکھنا یہ ہوگا کہ آیاہم سفارتی ،محاذ پر کوئی قابل ذکر ،پُراثر کردار نبھانے کی پوزیشن میں ہیں؟اگر ہیں تو پھر مناسب یہی ہوسکتا ہے کہ بڑے اور بااثر ممالک پر واضع کیا جائے کہ فلسطینیوں کیساتھ اسرائیلی جبر تشددکسی کے مفاد میں نہیں ۔لہذا اس مسئلہ کو حل کیا جائے ۔۔۔۔۔یہی ترکیب و تدبیرکشمیرکے سلسلے میں بھی ہوسکتی ہے ۔مگر ایسا نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ پاکستان کی معیشت لوٹی جاچکی ہے ۔اور قرضوں تلے دبی قوم کی عزت و وقار ،انااور دبدباخواب خیال ہی تصور ہوگا۔لہذا سفارت محاذ پر آپکا کردار موثر نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔اب آتے ہیں سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کی جانب۔۔۔۔۔یہ اتحاد سعودی حکمرانوں کے دفاع اور ان حکمرانوں کے مخالفین کو سبق سیکھانے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے ۔اس لئے اتحاد بھی اسرائیل کو دباؤ میں لانے کی کسی بھی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔

ان زمینی حقائق و حالات میں کم ازکم اتنی بات تو سمجھ میں آجانی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر ’’ایک سازش کے تحت مسلح افواج ‘‘کو قبلہ اؤل کی آزادی /فلسطینیوں کی مددکیلئے جانے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے پاکستان کی حکومت و فوج ، سے متعلق منفی سوچوں کوتقویت دی جارہی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ تکنیکی اعتبار سے بھی اور ایک ایٹمی و مضبوط فوجی طاقت کی حیثیت سے بھی پاکستان چاہ کر بھی کھلے بندوں ،فلسطینیوں کی مدد نہیں کرسکتا ۔البتہ اگر سعودی عرب سمیت بااثر اسلامی ممالک چاہیں تو ’’پوشیدہ رہ کراپنے طریقے سے فلسطینیوں کی مدد‘‘کی جاسکتی ہے۔اور اسرائیل کا دماغ بھی ٹھکانے لایا جاسکتا ہے ۔مگر بات پھر وہی ہے کہ فلسطینیوں کو اُنکے اپنے وطن میں ہی ،قابضین کے جبرو تشد سے بچانا اورقبیلہ اؤل کی آزادی، بڑے مسلمان ممالک کا ایجنڈاہی نہیں ہے۔گھوم پھرکر ترکی رہ جاتا ہے جو فلسطینیوں کی بات تو کرتا ہے مگر جوسعودی عرب کے حکمران ’’پاکستان میں ‘‘ارتعغرل غازی‘‘آن ائیرہونا پسند نہیں کرتے ۔وہ ترکی کو اچھی نظرسے کیسے دیکھیں گے ۔۔۔۔؟؟اسی طرح ایران ،جوکہ ممکنہ حد تک فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی طبعیت ٹھکانے لگانے کیلئے کردار ادا کرتاہوگا۔وہ بھی ’’اُمہ یا سوتیلی اماں ‘‘کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔۔۔۔لہذا حکومت پاکستان ،قومی سلامتی کے اداروں کو ملک میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ’’فکری و نظریاتی تخریب کاری‘‘کو بے رحمی سے روکنے پر توجہ دینی ہوگی ۔تاکہ اپنے ہی عوام کواپنے اداروں کیخلاف بدظن و بدگمان کرنیکی عالمی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرانسیسی صدر کی جانب سے توہین رسالتؐ،پر سب سے زیادہ ردعمل پاکستان مین آیا ،سفیرنکالنے کا مطالبہ ہوا ،پورا ملک جام کردیا گیا۔نتیجہ ایف اے ٹی ایف کی تلوار بدستور لٹکی ہوئی ہے۔اور گرے لسٹ سے وائٹ میں آنے سے جو ثمرات مل سکتے ہیں وہ دُور ہوچکے ۔پچھلے دنوں مذدی خبریں آئیں کہ رپی یونین کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف ایک قرارداد میں رُکن ملکوں سے کہا گیا ہے کہ’’ اگر پاکستان توہین کے قانون (Blasphemy Law) کو ختم نہیں کرتا تو وہ پاکستان کے ساتھ GSP Plusتجارتی معاہدہ ختم کردیں‘‘۔۔۔یہی نہیں۔ یورپی یونین پارلیمنٹ کی اِس قرارداد سے کچھ دن پہلے امریکہ میں مذہبی آزادی کیلئے کام کرنیوالی ایک تنظیم United States Commission on International Religious Freedomنے اپنی تازہ رپورٹ میں امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے متعلق سفارش کرتے ہوئے کہاہے کہ’’ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دی جانے والی آئینی شق کو ختم کروانے کے لئے امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا جائے‘‘

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسوقت پاکستان بطور خاص نشانہ پر ہے ۔اور سارا عالم کفر ،اچھی طرح جانتا ہے کہ ’’پاکستان کی فوجی طاقت ‘‘راہ میں حائل ہے ۔اس لئے وہ اپنے مقصد کیلئے ایسا کوئی حیلہ بہانہ کام میں لانا چاہتے ہیں جس سے’’گروہی ،لسانی ،علاقائی ،مسلکی‘‘طور پر منقسم پاکستانی قوم میں ’’مسلح افواج ‘‘کیلئے بدگمانی پیدا کی جاسکے ۔صرف یہی صورت ہے جس سے دشمن کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں مددمل سکتی ہے ۔اور وہ مسلسل اس پر کام کررہا ہے۔۔۔۔۔لہذا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔اگر اب ذرا بھربھی کوتاہی کی گئی تو سمجھ لیجئے ،مختلف مورچوں پر جیتی ہوئی جنگیں ،پاکستانیوں کی صفوں میں ہارنا ہونگی ۔اگرایسا ہونے لگا تو پھراُن قربانیوں کا کیا ہوگاجو مادر وطن کی سلامتی ،ترقی و استحکام کیلئے ہر ہر محاذ پر دی گئی ہیں؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
Agha Safeer Kazmi
About the Author: Agha Safeer Kazmi Read More Articles by Agha Safeer Kazmi: 16 Articles with 8339 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.