روبرو ہے ادیب: تنزیلہ احمد

تحریرو ملاقات: ذوالفقار علی بخاری
برقی پتہ:
[email protected]
تنزیلہ احمد کا شمار ادب اطفال کی موجودہ دور کی چند بہترین خواتین لکھاریوں میں ہوتا ہے، اپنی جگہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر تیزی سے بناتی چلی جا رہی ہیں۔ اپنی زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کے بعد خوب اپنی ذات پر کام کرنے کا بھی حوصلہ رکھتی ہیں۔ہمیشہ آگے بڑھتے رہنا اور پیچھے مڑ مڑ کر نہ دیکھنا. بلندی پر جاتے ہوئے ارادے اونچے مگر نگاہیں نیچی رکھنا. نئی نئی منزلوں کی کھوج میں سرگرداں رہناان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

اپنی رائے کا بھرپور اظہار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں اورمثبت سوچ کی حامل یہ لکھاری نت نئے موضوعات پر لکھنا بھی خوب جانتی ہیں۔تنزیلہ احمد حساس بھی بے حد ہیں لیکن ملنسار بھی خوب ہیں۔نتزیلہ احمد اپنی ہم عصر خواتین لکھاریوں سے کچھ یوں بھی ممتاز ہو رہی ہیں کہ یہ انفرادیت قائم کرنے کے لئے بھی خوب کام کر رہی ہیں، اگرچہ مزاح نگاری سے قدرے فاصلے پر ہیں مگرراقم السطور کے مطابق یہ مزاح بہترین لکھ سکتی ہیں،خوش گفتارلکھاری اپنے کام پر دھیان رکھتی ہیں جو کہ ان کی تحریروں میں مزید نکھار لا رہا ہے۔


ہم نے ان کی ذات کے چند مزید گوشے آپ کے سامنے لانے کے لئے ایک ملاقات رکھی ہے جس کی روداد آپ کی خدمت میں پیش ہے، امید ہے کہ آپ کو تنزیلہ احمد کی باتیں ان کی تحریروں کی مانند خوب پسند آئیں گی۔


سوال: آپ کا ادبی دنیا میں وارد ہونا کیا کوئی اتفاقی حادثہ ہے؟
جواب: اتفاقی تو نہیں۔۔۔ آفاقی بھی نہیں۔۔۔ حادثہ بہرکیف ہے جس کی پرورش زمانے نے برسوں کی۔۔۔!
٭٭٭٭٭
سوال: قلم اور کتاب سے رشتہ کب جڑا؟
جواب: جب سے ہوش سنبھالا قلم اور کتاب کو دوست پایا۔۔۔ کبھی ڈائری نہیں لکھی ہاں مگر میرے دل کی ڈائری میں ہر چھوٹا بڑا واقعہ محفوظ ہوتا رہا جزئیات سمیت۔۔۔
تحریری سفر کا باقاعدہ آغاز تین چار برس قبل انگلش بلاگز سے کیا۔ مصروفیت سے جب وقت ملتا اور کچھ دل چسپ لگتا تو اسے تختہ مشق بنا لیتی۔۔ اللہ کا شکر کہ جہاں بھی بلاگز بھیجے شائع ہوتے رہے۔ مگر تسلسل سے نہ لکھ سکی۔
الف کتاب کا آغاز ہوا تو اردو فکشن لکھنے کی طرف دھیان گیا۔۔۔ دل میں پنہاں احساسات کو الفاظ کی زبان ملی اور یوں کہانیاں جنم لیتی چلی گئیں۔ افسانے، ناولٹ، ناولز۔۔۔
یہ اللہ کا کرم ہے کہ مجھ ایسی نوآموز نے شروعات میں ہی الف کتاب کے سالانہ مقابلوں کے لیے دو ناول لکھے۔ پہلا قابل اشاعت کی لسٹ میں شامل ہوا اور دوسرے نے سو سے زائد ناولوں میں سے ٹاپ 6 میں اپنی جگہ بنائی۔۔۔ یہ الگ کہانی کہ ناولز ابھی تک الف کتاب کے پاس ہیں شائع نہیں ہو پائے۔
تیسرا مکمل ناول تین برس سے اپنے پاس سنبھالے بیٹھی ہوں۔ ایک نامور آن لائن ڈائجسٹ اسے شائع کرنے کے لیے رضامند تھا مگر میں چاہتی ہوں کہ خواتین کے کسی نامور ڈائجسٹ کی زینت بنے۔
بچوں کے لیے لکھنے کا آغاز ڈیڑھ دو برس قبل کیا۔ گزشتہ ایک برس سے بچوں اور بڑوں کے مختلف رسائل کے لیے تسلسل سے لکھ رہی ہوں۔ خود کو ابھی طفل مکتب سمجھتی ہوں۔
٭٭٭٭٭
سوال: آپ کی تحریروں سے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ گہرا مشاہدہ رکھنے والی لکھاری ہیں؟
جواب: شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ذیادہ تر ہڈ بیتی، آنکھوں دیکھی اور جگ بیتی کو الفاظ کا خوش نما پیراہن پہنا کر داستانوں کی صورت قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔۔۔ اگر فینٹیسی پر مبنی کچھ لکھا بھی تو کرداروں کو سمجھ کر، انھیں محسوس کر کے بیان کیا۔
٭٭٭٭٭
سوال:کیا آپ کی ذات میں بچپنا ابھی تک موجود ہے؟
جواب: دل تو بچہ ہے جی۔۔۔
٭٭٭٭٭
سوال: اولین تحریر کی اشاعت نے آپ پر کیا اثرات مرتب کیے؟
جواب: ہر پلیٹ فارم پر اولین تحریر کی اشاعت نے ہمیشہ خوش گوار اثرات مرتب کیے۔ آگے بڑھنے اور بہتری لانے کی لگن کو مہمیز ہی کیا۔۔۔
٭٭٭٭٭
سوال: آج کی خواتین لکھاریوں کو کن موضوعات پر خوب لکھنا چاہیے؟
جواب: معاشرتی اور سماجی مسائل۔۔۔ ایسے موضوعات جو کبھی پرانے نہیں ہو سکتے۔ ان پر لکھنا چاہیے مگر مثبت۔۔۔ سوچ کا زاویہ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہی رونا دھونا، مظلومیت، گھریلو سیاست اور منفی پیغام واختتام سے لبریز کہانیاں مجھے ناپسند ہیں۔
سسپنس، پراسرار، ہارر، مزاح، تاریخ ایسے موضوعات پر طبع آزمائی کرنی چاہیے۔ یہ میرے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ معلوماتی کہانیاں بھی۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
سوال:پہلی مرتبہ جب تحریر کے ناقابل اشاعت کا سنا تو کیا جذبات تھے؟
جواب: ملے جلے سے جذبات تھے۔ دل برا کرنے کی بجائے وجہ پر غور کیا۔ تب ادراک ہوا کہ تحریر کو صحیح جگہ پر بھیجنا کتنا اہم ہے۔ جب سے رسائل کے مزاج کے حساب سے تحریریں بھیجنی شروع کیں تب سے ناقابل اشاعت والا معاملہ قابو میں ہے۔
جہاں تک بچوں کے ادب کی بات ہے تو ایک دو رسائل نے شروعات میں میری کہانیاں یہ کہہ کر ناقابل اشاعت قرار دیں کہ "طویل ہیں اور بچوں کے حساب سے آپ کا اسلوب بہت پختہ ہے۔" اس سے سیکھا اور بھرپور کوشش کی کہ بچوں کے حساب اور ان کی سوجھ بوجھ کے مطابق ہی لکھوں۔
٭٭٭٭٭
سوال:کس ادب اطفال کے لکھاری کو خوب پڑھا ہے؟
جواب: محترم اشتیاق احمد صاحب اور فاروق انجم صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ بچپن میں بہت سے رسائل پڑھے۔ گھر میں ہر ماہ رسائل آتے تھے کبھی نونہال، تعلیم و تربیت، پھول، ذوق و شوق تو کبھی بچوں کا باغ وغیرہ۔ دیگر رسائل بھی کبھی کبھار پڑھ لیتی تھی۔
٭٭٭٭٭
سوال: آپ عمدہ حس مزاح رکھتی ہیں ابھی تک کوئی مزاحیہ کردار کیوں نہیں تخلیق کیا ہے؟
جواب: چند ایک مزاحیہ کہانیاں لکھی تو ہیں۔ مگر مزاحیہ کردار تخلیق کرنے کی نہیں ٹھانی۔ مجھے لگتا ہے ابھی انصاف نہیں کر پاؤں گی۔
٭٭٭٭٭
سوال:اچھی کہانی لکھنے کا آپ کی نظر میں کیا طریقہ کار ہے؟
جواب: میرا ماننا ہے کہ اچھی کہانی اپنے آپ کو لکھوا لیتی ہے۔ بس اچھا لکھنے کی لگن اور نیت ہونی چاہیے۔ مطالعہ اور مشاہدہ سونے پہ سہاگہ ٹھہرے۔۔۔
٭٭٭٭٭
سوال: زمانہ طالبعلمی میں کس طرح کی طالبہ تھیں، غیر نصابی سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیا کرتی تھیں؟
جواب: بہت لائق فائق، پڑھاکو اور اپنے کام سے کام رکھنے والی ہونہار طالبہ۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بس اتنا حصہ لیتی کہ تقریبات میں منتظمین میں شامل ہوتی یا کوئی نظم وغیرہ پڑھ لیتی۔
٭٭٭٭٭
سوال: ایک لکھاری کے لئے تعلیم اورمشاہدہ کتنا ضروری ہے؟
جواب: تعلیم تو ہر کسی کے لیے اشد ضروری ہے چاہے قلم کار ہو یا قاری۔ جہاں تک مشاہدہ کا سوال ہے تو مجھے لگتا ہے اس کے بنا قلم کار متاثرکن فن پارہ تخلیق نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭٭
سوال: کیا آج کے ادب اطفال کے لکھاری بچوں کی نفسیات کے مطابق لکھ رہے ہیں؟
جواب: بہت سے لکھ رہے ہیں۔ بہت کم ایسے ہیں جو لکھ تو بامقصد رہے ہیں مگر وہ بچوں کی نفسیات کے حساب سے بہت گنجلک ہے۔
٭٭٭٭٭
سوال: آپ کبھی اپنی آپ بیتی لکھنا چاہیں گی؟
جواب: جی نہیں۔
٭٭٭٭٭
سوال: مسائل سے لڑنے کا بہترین طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟
جواب: مسائل سے لڑنے کا بہترین طریقہ مسائل کو حل کرنے کی نیت ہے۔ مسائل سے چھپیں نہ بلکہ مسائل کے سامنے ڈٹ جائیں اور ٹھان لیں کہ یہ مسئلہ نہیں رہے گا۔۔۔ تو پھر واقعی ہی نہیں رہے گا۔۔!
٭٭٭٭٭
سوال: آپ آج کی عورت کے آزادی کے نعرے کی تائید کرتی ہیں؟
جواب: آزادی کا وہ نعرہ جو آج کی عورت شاہراؤں پر اپنی بے توقیری کر کے لگاتی ہے اس کی تائید نہیں کر سکتی۔ مسلمان عورت کی آزادی اعتدال پسندی اور اس کی بہتری کے لیے متعین کیے گئے اسلامی حدود و قیود میں ہے۔
٭٭٭٭٭
سوال: والدین نے آپ کو آگے بڑھنے میں کتنا تعاون کیا ہے؟
جواب: بہت ذیادہ۔
٭٭٭٭٭
سوال: ایک اچھے لکھاری میں آپ کن خصوصیات کا ہونا ضروری سمجھتی ہیں؟
جواب: مشکل سوال ہے۔۔۔ میری نظر میں ایک اچھے قلم کار کو معاملہ فہم، خود شناس۔ معتدل و مثبت مزاج، باادب اور بااخلاق ہونا چاہیے۔ زبان و بیان پر عبور اضافی خوبی۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
سوال: لڑکیاں خود کو کیسے بہادر بنا کر اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکتی ہیں؟
جواب: لڑکیاں بس اپنے کردار کو مضبوط بنا لیں۔ مضبوط کردار کی لڑکیاں بہادر اور باہمت ہوتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
سوال: اپنے تعلیمی سفر، مشاغل اور ناپسندیدہ عادات کے حوالے سے کچھ آگاہ کیجئے۔
جواب: جامعہ پنجاب سے مارکیٹنگ میں ماسٹرز ڈگری آنرر رول سے حاصل کی ہے۔ مشاغل میں لکھنا، پڑھنا، گھر کو سجانا سنوارنا، مصوری، ڈو اٹ یور سیلف کرافٹس اور گھومنا پھرنا وغیرہ شامل ہے۔
ناپسندیدہ عادات بہت حساس ہونا، جذباتیت، جلدی غصہ آنا، دوسروں سے دل برا کر لینا وغیرہ تھیں۔۔۔ بہت حد تک ان پہ قابو پا چکی ہوں۔
٭٭٭٭٭
سوال: آج کے کن نئے لکھاریوں کے کام کو بے حد پسند کرتی ہیں؟
جواب: ادب اطفال میں ابھی میں نئی ہوں۔ باقی پرانے ہی ہیں۔ سب کے کام میں کچھ نہ کچھ پسند آتا ہے۔
٭٭٭٭٭
سوال: قارئین کی پذیرائی کی آپ کے نزدیک کتنی اہمیت رکھتی ہے؟
جواب: پزیرائی چونکہ حوصلہ ا‌فزائی میں شمار ہوتی ہے اس لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اور مثبت تنقید بھی۔۔۔۔ ہمیشہ تعمیری تنقید سے ہی سیکھا ہے۔
٭٭٭٭٭
سوال: انگریزی کی بہ نسبت اُردو میں لکھنا کتنا دل چسپ تجربہ ہے؟
جواب: انگلش سے اردو تک کا سفر مشکل تجربہ رہا۔۔۔۔ خیالات کو انگلش بلاگز میں ڈھالنا مشکل نہ تھا۔ کہ اسائنمنٹس، پراجیکٹس وغیرہ کی بدولت ایم ایس ورڈ میں لکھنے کی عادت تھی اور خوب روانی بھی۔۔۔
میں نے کا‏غذ پر بہت کم لکھا ہے۔ "سیو پیپر سیو ٹریز" پر یقین رکھتی ہوں۔ اس لیے جب ایم ایس ورڈ میں ہی اردو ٹائپنگ شروع کی تو کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کون سی کی پریس کروں گی تو کیا حرف آئے گا۔ مستقل مزاجی سے محنت کرنے کے بعد اردو لکھنے میں روانی آئی ہے۔ اب اردو لکھنا ذیادہ دل چسپ لگتا ہے۔ الحمداللہ!
٭٭٭٭٭
سوال: اُردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے لکھاریوں کو کیا کچھ کرنا چاہیے؟
جواب: اگر اردو میں کہانی لکھ رہے ہیں تو بس اردو الفاظ کا ہی استعمال کریں۔ رومن اور زبردستی کے انگلش الفاظ سے مکمل پرہیز۔۔۔ خود بھی اب کوشش کرتی ہوں کہ کہانیوں میں انگلش کے الفاظ کم سے کم استعمال کروں۔ بالخصوص بیانیہ میں۔۔۔ اردو کے متبادل لفظ گوگل کرتی ہوں، ڈکشنری دیکھتی ہوں اور پھر تحریر میں شامل کرتی ہوں۔
٭٭٭٭٭
سوال:فطرت کے قریب رہنے کا کتنا شوق ہے؟
جواب: فطرت کے قریب رہنے کا شوق میری فطرت کا خاصہ ہے۔ زندگی کی اصل دل کشی ہی فطرت کے نزدیک جانے پر محسوس ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سوال:آپ کے مستقبل کے ارادے کیا ہیں؟
جواب: نیک ارادے ہیں۔ ان شاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭
سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: قارئین کی ہمت کو داد کہ اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کر ہماری کہانیاں پڑھنے اور سراہتے ہیں۔ یوں ہی ہماری تحریروں کو وقت دیتے رہیے۔۔۔ خوش رہیں، آباد رہیں۔ بہت دعائیں
٭٭٭٭٭ختم شد
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482316 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More