میری کتاب بیتی: زندگی پر مطالعہ کے اثرات

میری کتاب بیتی: زندگی پر مطالعہ کے اثرات
٭
پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر ایمرٹس۔ منہاج یونیورسٹی، لاہور
شائع شدہ: ماہنامہ آن لائن میگزین ”علم دوست“ کراچی، جون 2021ء
مطالعہ یعنی reading کی اہمیت و افادیت سے کون انکاری ہے۔ مطالعہ سے مراد پڑھنا ہے۔ علم کی فضیلت اور اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔نبی آخرالزماں حضرت محمد وﷺ پر قرآن کریم کے نزول کا آغاز سورۃ العلق سے ہوا جس کا پہلا لفظ ”اقرا“ یعنی ’پڑھ‘ سے ہوا۔ اللہ کے فرشتے جبرائیل علیہ السلام نے غار حرا میں آپ ﷺ سے کہا ”پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا“۔ لفظ ”پڑھیے‘ تین بار دھرایا۔گویا وحی مبارک کا پہلا لفظ ”اقرا“ یعنی پڑھ تھا۔ مفکر اسلام حافظ ابن عبدالبر نے کیا خوب کہا کہ ”علم حاصل کرو۔ اس کی مدد سے حق اور باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ علم جنت کے راستے کو روشن کرتا ہے۔ جب ہمارا کوئی دوست نہیں ہوتا تو وہ ہمارا ساتھ دیتا ہے وہ مصیبت کے وقت ہماری ڈھارس بندھاتا ہے۔ دشمنوں کے مقابلے میں ہتھیار کا کام دیتا ہے اور دوستوں کے مابین زینت ہے۔ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ قوموں کو بلند مقام عطا فرماتے ہیں اور ان کو نیک مشاغل کی طرف رہبری کا منصب سپرد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے نقش قدم کی پیروی اور ان کے اعمال کی نقل کی جاتی ہے ان کی رائے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے“۔اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم، نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ سے عقیدت ومحبت، والدین کی دعاؤں، کتاب سے انسیت و عقیدت، مطالعہ کا شوق ہی ہے کہ مجھے علم وادب، تصانیف و تالیفات سے جڑے نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہوچکا۔ درس و تدریس، تحقیق میں رہنمائی اور تصنیف و تالیف کا تسلسل جاری و ساری ہے۔ زندگی کے اس سفر میں مطالعہ کا کلیدی کردار رہا۔ یہ مطالعہ ہی ہے جو علمی و ادبی عمل کو نہ صرف برقرار رکھتا ہے بلکہ اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے میں بنیادی طور پر راجستھانی یا راجپوت ہوں، راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیات کو جنم دیا۔ بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع دہلی کے بعد مظفرنگر (یوپی)کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔ مظفر نگر ایک ایسی مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیا ئے کرام اور فقہا ئے اسلام کو جنم دیا، اہل علم ودانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی،اس اعتبار سے مجھے ایسی متبرک سر زمین سے نسبت حاصل ہے جس کی کوکھ نے عظیم ہستیوں کو جنم دیا۔ میرے خاندان میں اکثر احباب تدریس اور شاعری سے شغف
رکھتے ہیں،صاحب دیوان شاعر بھی ہیں اور بے دیوان شاعر بھی، نثر نگار بھی ہیں، مصنف اور مؤلف بھی، علم و ادب سے جو تھوڑی بہت رغبت مجھ میں آئی وہ میرے اجداد کا ورثہ ہے۔
ہو کیوں نہ ناز مجھے سخنوری پہ رئیسؔ
میرے ہی اجداد کا ورثہ ہے جو مجھے ملا ہے
میری پیدائش پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب کے ایک گاؤں نما شہر ”میلسی“ میں ہوئی۔ لیکن تمام زندگی کراچی میں بسر ہوئی۔تعلیم و تربیت، کسب معاش تمام مراحل کراچی ہی میں طے ہوئے۔ مَیں اپنی زندگی کی 72 بہاریں دیکھ چکا ہوں، الحمد اللہ اپنی زندگی سے ہر طرح مطمئن اور خوش ہوں۔ میری تخلیقی زندگی کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی، یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ میرے خاندان میں علم و ادب کا ماحول کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔراجستھان کے معتبرومعروف اورصاحبِ دیوان شاعر تھے،وکالت ان کا پیشہ تھا، بیکانیر، راجستھان کے نامی گرامی وکیل تھے، بعد میں بیکانیر ہائی کورٹ کے جج، پھر چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ وہ جناب ِ بیخود ؔ دہلوی کے خاص تلامذہ میں سے بھی تھے۔ آزادؔ صاحب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نثر نگار بھی تھے، تصوف ان کا خاص موضوع تھا، انہوں نے اپنے دیوان میں خاندان کی تاریخ اس وقت سے قلم بند کی ہے جب سے ہمارے خاندان کے جدِ امجد نے غزنوی عہد میں 1088ء میں اسلام قبول کیا تھا۔ آزاد ؔ صاحب کا دیوان ”ثنائے محبوب خالق“ آگرہ سے 1932ء میں پہلی بار منصہ شہود پر آیا تھا۔پھر کراچی سے اس کا دوسرا ایڈیشن 2005ء میں شائع ہوا۔ مختصر یہ کہ علم و ادب سے وابستگی، ادبی ذوق، نثر و نظم میں طبع آزمائی میرے خاندان کا ترئہ امتیاز رہا ہے خاندان کی یہی بُو باس یعنی ڈھنگ،انداز، اثر، عادت و خصلت مجھ میں اور دیگر متعدد احباب میں منتقل ہوئی، چنانچہ کسب معاش کے مختلف پیشے اختیار کیے لیکن شعر و سخن سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں۔یاد پڑتا ہے کہ جوں ہی میرے ہاتھ میں قلم آیا اپنی ذہنی استطاعت اور سوچ کو قرطاس پر منتقل کرنا شروع کیا۔گمان ہے کہ کچھ اشعار ترتیب دئے تھے۔ وہ کیا تھے، کس کے لیے کہے تھے اور کہاں گئے اس کا علم نہیں۔
شاعرتو میں نہیں ہوں پر اے ناصح
جنابِ آزادؔ سے رشتہ نبھا رہا ہوں میں
ادب سے وابستگی کایہ ابتدائی دور تھا۔ اسکول کازمانہ، پڑھنے یا مطالعہ کی عادت کا ابتدائی دور۔اسکول، کالج اور جامعہ میں چاند نگر کی واسیوں سے واسطہ پڑا یعنی ہم مخلوط تعلیم کا حصہ رہے پر ساتھ ہی ہم شانت ہی رہے۔ ہماری تربیت ہی ایسی ہوئی تھی۔ البتہ جامعہ کے چکاچوند منظر میں چاند نگر کی واسیوں نے متوجہ بھی کیا پر ہم وہاں بھی شانت ہی رہے۔ ہم پڑھائی میں طاق نہ تھے، بیک بینچرز،مالی اعتبار سے لوئر مڈ ل کلاس فیملی سے تعلق تھا، اس کی وجہ والد مرحوم تنہا کمانے والے اور پیٹ بھر کر کھانے والے نصف درجن سے زیادہ تھے۔ بہار کالونی
(مسان روڈ والی) ہندوستان سے ہجرت کے بعد ہمارے والدین کا پہلا مسکن بنی۔یہ گھر ہمارے والد نے اپنے ماموں خادم الا انبیاء سبزواری صاحب مرحوم کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ ساجے کی ہنڈیا تھی جلد اس میں ابال آگیا، والد صاحب خود دار انسان تھے، احترام بھی ملحوض تھا، اس ہانڈی سے اپنا حصہ بھی لینا گوارا نہ کیا، خاموشی سے اپنی نصف درجن ٹیم سے زیادہ افراد جن میں ان کی اپنی اولاد کے علاوہ دو بھائی تین بہیں بھی تھیں، بہارکالونی سے آگرہ سے منتقل ہوئے مہاجرین کی بستی ’آگرہ تاج کالونی‘ میں ایک پلاٹ خرید کر سرکنڈوں اور چٹائیوں کا وقتی سائیبان بنا کر خوش و خرم رہنے لگے۔ یہ تھا ہمارا باغ باں،خود بھی خو ش اور اپنے کنبے کو بھی خوش رہنے کی نصیحت۔ رفتہ رفتہ ان کے بہن بھائی اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ گئے تو ان کی اپنی اولاد کی نصف ٹیم اوپر ایک کھلاڑی تیار ہوگئی۔ہمارے والد اور والدہ گویا کل نو لوگوں کا خاندان اس وقت ہمارے دو چچا بھی ہماری ٹیم کا حصہ تھے۔ اس طرح ٹیم مکمل تھی۔ ایک شخص کے کاندھوں پر جو اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نہ تھا کراچی پورٹ ٹرسٹ پر آؤٹ ڈور کلرک کی حیثیت سے دن بھر امیروں، کارخانہ داروں، فیکٹر ی مالکام کا پانی کے جہاز سے آیا ہوا سامان کاغذی کاروائی پوری کراکے متعلقہ مالکان تک پہنچایا کرتے۔مستقل مزاج ایسے کہ 1947، سے ریٹائرمنٹ تک صرف دو کمپنیوں میں کام کیا، پہلی کمپنی بھی اس وقت چھوڑی جب وہ دیوالیہ ہوگی۔اللہ کا شکر ہم نے کبھی اپنے گھر میں کھانے پینے کی تنگی نہیں دیکھی، کپڑے جوتے پھٹے پرانے کبھی نہیں پہنے، ہماری ماں جو پڑھی لکھی نہ تھی، مشرقی پنجاب کے گاؤں فرید کوٹ میں زندگی کا زیادہ حصہ گزارا تھا، شہری زندگی سے خوب واقف ہوگئی تھیں، ہم سب بہن بھائیوں کے کپڑے وہ از خود سیا کرتی تھیں۔ ہر تہوار پر نیا جوڑا ہم سب کے لیے تیار ہوتا، نہیں معلوم کہ گھر کے تمام کاموں اور مہمان داری کے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ کیسے کر لیا کرتی تھیں۔ گھر میں ماسی ممکن ہی نہیں تھا، لیکن ہم نے اپنی ماں کو کبھی شکایت کرتے نہیں دیکھا۔
مَیں مزاجاً، طبعاً اور بالخاصیت کم گو، دھیمہ لہجہ لیے ہوئے تھا وہ اب بھی ہوں۔ میرے خاندان کے بعض مہرباں جو مجھ سے عمر و مرتبہ میں بڑے تھے مجھے ’گونگے شاہ‘ کہا کرتے تھے۔مطالعہ نے مجھے حصول علم کی جانب مائل کیا،اس نے مجھے میری ذات سے روشناس کرایا، معاشرے اور اس میں بسنے والوں کو سمجھنے میں مدد دی،یہ مجھے نئی فکر عطا کرتا رہا تھا،میری سوچ کو وسیع کررہا تھا اور کشادگی کا باعث بن رہا تھا، مجھ میں اچھا ئی اور برائی کی پہچان جنم لے رہی تھی۔مجھے یہ یقین ہوگیا کہ دنیا میں جتنے بھی عالم، فاضل، فلسفی، بلند پایا محقق،عظیم سائنسداں، مصنف، موجد اور جتنے بھی اربابِ سَیف و قلم گزرے ہیں مطالعہ ان کی زندگی کا ایک اہم اور لازمی حصہ تھا۔زندگی کا یہ دور اسکول کا دور تھا اسی دور میں ہماری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا یعنی سیکنڈری اسکول کا زمانہ۔ اتفاق یہ ہوا کہ ہم ائر فورس کے علاقے پی اے ایف ماری پور بیس (اب یہ مسرور بیس ہے) میں قائم سیکنڈری اسکول جو سرکاری اسکول ہی تھا داخل کرادیے گئے تھے۔ وہاں ہمارے ساتھی فوجی افسران اوردیگرائر فورس کے ملازمین کی اولادیں تھیں۔ اسکول کا ماحول نیم فوجیانہ تھا۔ اساتذہ فوجی نہیں تھے لیکن پڑھائی اور تربیت کے معاملے میں پکے فوجی مزاج کے مالک تھے۔یہاں چند اساتذہ کو یاد کرلوں نہیں معلوم وہ اب حیات بھی ہیں یا نہیں، بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ محمد احمد قریشی صاحب،محمد احمد صدیقی(علیگ) جو البینوalbinoتھے یعنی بھورے، فیض احمد شاہ، امیر الہٰدیٰ صاحب، ظہیر صاحب، کلیم صاحب، مسیز شمیم، مسیز مرتضیٰ، افسر صاحب سب ہی قابل اور نفیس تھے۔ اسی زمانے میں 1965 ء کی جنگ ہوئی اس وقت ہم نویں کلاس میں تھے۔ ایوب خان صاحب کا تاریخی خطاب اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ریڈیو پر سب طلبہ کو سنا یا تھا۔ ہمارے اکثراساتذہ مطالعہ پر خصوصی توجہ دیا کرتے، تعلیم کے حصول کو جاری رکھنے کی خاص ہدایت کیا کرتے، ان کا کہناتھا کہ نصابی کتابوں کے علاوہ اپنی عمر کے اعتبار سے کہانیاں، معلوماتی کتابوں کا مطالعہ کیا کریں۔ شاید اسی زمانہ میں اساتذہ کی ہدایات اور نصیحتوں نے مجھے مطالعہ کا عادیا بنا دیا۔اس لیے کہ بچوں کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ وہ اپنے استاد کی کہی ہوئی با ت کو اپنے والدین کی بات پر بھی فوقیت دیتے ہیں۔ جو ٹیچر نے کہہ دیا وہ پتھر پر لکیر ہوتی ہے۔اسکول کے زمانہ میں کہا گیا ایک شعر اس وقت میری عمر کوئی 16/17 رہی ہوگی۔ کہیں لکھ چھوڑا تھا،بوسیدہ کاغذات میں مل گیا۔
میں کیا ہوں اور کیا میں چاہتا ہوں
پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں
ہماری تعلیم کا تسلسل جو پری پرائمری سے شروع ہوا تھا بغیر کسی تعطل کے ایم اے تک جاری رہا، دوسرا ایم اے شادی کے دس سال بعد سیاسیات میں کیا پھر عمرِعزیز 53کی ہوئی تو پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن ہوگئی، 2006ء میں تھیسس جمع ہوا اور 2009ء میں جب عمر 60کو پہنچی ساتھ ہی سرکاری ملازمت سے ریٹائربھی ہوگئے تو پی ایچ ڈی کی ڈگری ہمیں تفویض ہوئی۔حصول تعلیم کے اس سلسلے میں مطالعہ کا کلیدی کردار تھا۔ مطالعہ کے باعث ہی مجھ میں اس امنگ نے جنم لیا کہ مجھے لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کی ڈگری یعنی ڈاکٹریٹ بھی کرنا چاہیے، اس میں ایک عنصر ماحول بھی تھا۔ میں نے اپنی تمام تر مصروفیات، یعنی ملازمت، گھر، بچوں کی تعلیم، ان کی شادی غرض تمام جھمیلاوں کے ساتھ پی ایچ ڈی کے حصول کو اپنی زندگی کے لیے لازمی بنالیا تھا اور اس میں الحمد اللہ کامیاب بھی ہوا۔ اسکول کے بعد کالج کا دور شروع ہوا، سندھ مسلم آرٹس و کامرس کالج سے انٹر جہاں کوہاٹی صاحب مرحوم اس کے پرنسپل تھے، سخت انتظامی ماحول، کلاس اور کالج میں ڈسیپلن، محنت سے پڑھانے والے اساتذہ اویس احمد ادیب، سید لطف اللہ، محمد اسحاق اور چودھری صاحب اور دیگر قابل اساتذہ سے فیض حاصل کیا، بی اے میں پہنچے تو گھر کے نذدیک کالج حاجی عبداللہ ہارون کالج میں داخلہ لیا، یہاں عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض ؔ کو پرنسپل کی حیثیت سے دیکھا۔ فیضؔ شاعر تو تھے ہی وہ استاد بھی رہے وہ ایک اچھے منتظم بھی تھے۔ یہاں فیض ؔ کی سرپرستی میں گریجویشن کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، ساتھ ہی ادب سے رغبت پیدا ہوگئی۔ تعلیم کے تسلسل نے ہمیں مطالعہ کا عادی اور لکھنے کی جانب مسلسل مائل رکھا۔ اسکول اور کالج کی تعلیم سے گزر کرجامعہ کراچی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ اب مطالعہ سے زیادہ نصابی ضرورت کی تکمیل کے لیے مطالعہ کا عمل شروع ہوا، مطالعہ نے کتاب سے رغبت پید اکردی تھی چنانچہ نصابی ضرورت کی تکمیل کے لیے پڑھنے اور پھر علمی مواد کو انگریزی سے اردو میں منتقل کرنے کی عادت بھی شروع ہوگئی۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ ہم سرکاری یعنی پیلے اسکول میں اردو میڈیم طالب علم رہے تھے، انگریزی میں پیدل تھے۔ ہم نے جس سبجیکٹ میں داخلہ لیا وہاں کی نصابی کتب انگریزی میں تھیں۔اس لیے پڑھتے انگریزی میں تھے لکھتے اردو میں تھے۔ یہاں بھی مطالعہ ہمارا رہنما بنا اور اس نے ہماری معاونت کی۔ کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ فسٹ ڈویژن میں لائبریری سائنس میں ایم اے کر لیا۔
تخلیقی سفر کی کتھااس سے پہلے بھی کئی بار بیان کرچکا ہو، مختصر تفصیل صرف اس قدر ہے کہ میں جامعہ کراچی میں ایم اے فائنل ائر کا طالب علم تھا جہاں ہر طالب علم کو تحقیقی مقالہ (تھیسس)لازمی لکھنا ہوتا تھا۔ ہمیں جو ٹاپک ملا یا ہم نے منتخب کیا وہ تھا ”اردو میں سائنسی و فنی کتب کا توضیعئی جائزہ: 1947ء تا1971ء“۔ یعنی 24سالوں میں پاکستان میں اردو زبان میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان کا جائزہ (تبصرہ) کرنا۔ چنانچہ ہم اپنے موضوع پر کتابوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ گلی گلی محلے محلے جو کتب خانے ہمیں ملے ہم نے ان میں اپنی مطلوبہ کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان پر مختصر تبصرہ کرتے گئے۔ یعنی تحقیق بھی، کتب خانوں میں کتابوں کے جھرمٹ میں بھی رہے اور سب سے بڑھ کر مطالعہ بھی کیا۔اس لیے کہ کتاب پر تبصرہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کتاب سامنے ہو، چناں چہ کراچی کی شاید ہی کوئی لائبریری ایسی ہوگی جہاں ہم نے دستک نہ دی ہو، برسوں سے الماریوں میں رکھی کتابیں بھی ہماری منتظر تھیں کہ کوئی تو آئے اور انہیں کھولے، ان پر پڑی گرد کو صاف کرے، ان سے استفادہ کرے۔ یہ سعادت ہمارے حصہ میں آئی۔ ہم نے اپنی مطلوبہ کتب اور ان پر پڑی خاک کواپنے لیے ہرن کے نافے کی خشک شدہ رطوبت جس کے دانے سیاہ سرخی مائل اور خوشبو نہایت عمدہ اور تیز ہوتی ہے اپنے لیے مُشک تصور کیا۔کتاب سے قربت اور مطالعہ کے میرے اس عمل نے مجھے کتاب کے اتنا قریب کردیا کہ مجھے اس کے بعد کتاب کے علاوہ کچھ اور نہیں سوجھا۔ پانچ چھ سو کے قریب کتابوں پر تبصرہ کرنے سے کتاب ہماری زندگی کا ساتھی بن گئی۔لکھنے کا عمل جاری رہا، مضامین کے علاوہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری کتاب منظر عام پر آتی گئی،یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کتابوں سے محبت کی اس کیفیت کو میں نے ایک شعر میں کچھ یو کہا ہے ؎
اور خواہش کوئی نہیں مجھ کو
بس کتابیں ہیں زندگی اپنی
پہلی کتاب جو کتابوں کی کتاب یعنی کتابیات تھی 1975ء میں سائیکلو اسٹائل فارم میں شائع ہوئی۔ پہلا سوانحی مضمون حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لکھا، اس مضمون کی برکت ہی سمجھتا ہوں کہ میں شخصیات پر لکھنے کی جانب مائل ہوا، سوانح نگاری سے خاکہ نگاری پھر ادب کی دیگر اصناف پر قلم ایسا چلا کہ اب تک سو کے قریب شخصیات کو متعارف کراچکا ہوں۔ کتاب سے میرا عشق بڑھتا گیا، مضامین لکھنا اور کتاب شائع کرنا بس یہی زندگی ہے۔ یہ کمال تھا مطالعہ کا، 1975ء سے 2021ء تک غیر مطبوعہ مقالات کے علاوہ میری تصانیف و تالیفات کی تعداد 40سے اوپر پہنچ چکی ہے۔چند پائپ لائن میں ہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ میری تخلیقی زندگی کے46سالوں میں 46کتابیں منظر عام پر آئیں، مضامین کی تعدادا کوئی 1000 کے قریب ہوگی، یہ کمال ہے مطالعہ کی عادت کا۔ اگر میں مطالعہ سے اپنے آپ کو نہ جوڑے رکھتا تو مجھ میں تسلسل سے لکھنے کی عادت ہرگز پیدا نہ ہو تی۔میں اپنے آپ کو اب بھی ادب کا ادنیٰ طالب علم ہی تصور کرتا ہوں۔اکثر احبااب اپنی تصانیف پر طباعت سے قبل کچھ لکھنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ لکھ تو دیتا ہوں پر اپنے آپ کو اس قابل ہر گز نہیں سمجھتا۔احباب کی مجھ سے محبت ہے جس کے لیے انتہائی ممون ہوں۔ ہماری ویب پر میرے کالموں اور مضامین کی تعداد780سے زیادہ ہوچکی ہے جو آن لائن موجود ہیں۔اسے خود ستائش ہر گز نہ سمجھا جائے یہ تفصیل اس وجہ سے بیان کی کہ شاید کوئی میری باتوں سے متاثر ہو کر مطالعہ کی جانب آجائے، بس وہی میری کامیابی ہوگی۔
یہاں مطالعہ ہی میرا موضوع تھا کوشش کی ہے کہ مطالعہ سے مجھے زندگی میں جو کچھ حاصل ہوا اس کی تفصیل بیان کرسکوں۔ میں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ اگر میں مطالعہ کو اپنی زندگی میں شامل نہ کرتا، اساتذہ کی ہدایا ت پر عمل نہ کرتا تو بہت ممکن ہے کہ علم و ادب کے میدان میں جو کچھ حاصل کرچکا ہوں وہ مجھے حاصل نہ ہوتا۔ حصول علم میں بھی اور تصانیف و تالیفات کی تدوین واشاعت میں بھی۔ اپنی زندگی کے تجربہ کی روشنی میں نئی نسل کو یہی کہنا چاہوں گا کہ مطالعہ کو اپنی زندگی میں داخل کریں۔ اس کے مثبت اثرات بہت جلد آپ کے سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ کتاب سے محبت کریں، کتاب کو عزت دیں، اپنے گھر میں کتابیں رکھ کر فخر محسوس کریں۔کتاب کو اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنائیں۔ آپ کتاب کی تعزیم و تقریم میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھیں۔ یہ آپ کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچائے گی،انشاء اللہ۔ میں نے کتاب کے علاوہ شخصیات کو اپنا زیادہ موضوع بنایا۔ اسی حوالہ سے یہ دو شعر بھی کہے۔

رفتہ گانِ عہد کو یاد رکھنا چاہتا ہوں
ہے یہ ایک فرض سو نبھانا چاہتا ہوں
زندگی کے سفر میں جو ہوا حاصل ؔرئیسؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔ
زندگی کو بہ احترام لوٹانا چاہتا ہوں
(15مئی2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284501 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More