ملالہ کے خدشات اور طالبان سے توقعات!

گزشتہ دنوں امریکی جریدے نیویارک ٹائمز میں ملالہ یوسف زائی کا ایک مضمون شائع ہوا، جس میں محترمہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ دنیاکو افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر شدید تحفظات موجود ہیں۔ملالہ نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بڑے وثوق سے یہ بات لکھی ہے کہ ان کو افغانستان میں موجود بہت سی خواتین نے بتایاہے کہ ان پر سکول جانے اور اپنے دفتری کاموں کی انجام دہی سے روکا جارہاہے۔جس کی وجہ سے یہ خواتین طالبان کی طرف سے بے حد خوف میں مبتلا ہیں۔ان کے دلوں میں تعلیم اور اپنے پیشاورانہ کاموں کو لے کربے حدمایوسی ہے اور یہ خواتین اپنے مستقبل کو تاریکی میں دیکھ کربہت پریشان ہیں۔ وہ اداس ہیں کہ اپنا سکول،دفتر اب دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گی۔ ملالہ نے لکھا کہ ہمیں بیس سال پہلے والے طالبان اور آج کے طالبان میں فرق نظر نہیں آتا۔ملالہ کا غم سمجھ میں آتاہے۔ہزاروں میل دور بیٹھ کر افغان خواتین کادرد محسوس کرنا اور افغان سرزمین میں طالبان کی تعلیم کے حوالے سے پالیسی کے اعلامیے کا تجزیہ کرنا آسان ہے۔

طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اپنی کانفرنس میں بڑے واضح لفظوں میں کہاکہ خواتین کے پیش ورانہ کاموں اور ان کی تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ان کو جائز حقوق دیے جائیں گے اور ان کی آزادی اظہار رائے کا بھی احترام کیا جائے گا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کابل میں خواتین کے ایک مظاہرے کو طالبان نے سیکیورٹی بھی فراہم کی ، جبکہ وہ مظاہرہ بھی طالبان کے خلاف کیا جارہا تھا۔جن خواتین نے کام پر جانا بند کردیا ہے یا ایسی بچیاں جو سکول ، یونیورسٹی نہیں جارہی ہیں،ان کے دلوں میں سابقہ طالبان دور حکومت کے خطرات بٹھائے گئے ہیں۔انہیں ایسی غلط کہانیاں سنائی گئی ہیں کہ جن سے ان کے دلوں میں طالبان کی بھیانک تصویر بیٹھ گئی ہے۔یہ بات بڑے دھڑلے سے آج کی افغان نوجوان نسل کو بتائی جاتی رہی ہے کہ طالبان درندے ہیں،یہ تعلیم کے دشمن ہیں،خواتین کوزودکوب کرتے ہیں،انسانی حقوق سے نابلد ہیں۔یہ تھیوری ایسی رٹائی گئی ہے، جس کی وجہ سے سابقہ طالبان کے اچھے کاموں پر دبیز پردے پڑ گئے۔ لیکن موجودہ طالبان قیادت عالمی دنیاکے تقاضوں سے واقف ہے اور ایسی کسی سازش کو نہ مانتے ہوئے کسی بھی غلطی کے سرزد کرنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔ یہ بات مد نظر رہے کہ طالبان اپنے سابقہ دور حکومت سے کافی کچھ سیکھ چکے ہیں۔اس لیے اب ان کااعتماد بلند اور معیار عالمی دنیا سے ہم آہنگ لگ رہاہے۔لہذا ملالہ سمیت عالمی دنیا عقل کے پیمانوں سے فیصلہ صادر کرنے سے پہلے طالبان کی مثبت و منفی پالیسیوں کو دیکھ اورپرکھ بات کریں۔عالمی برادری اور انسانی حقو ق کی تنظیموں کو بھی جلد بازی سے گریز کرتے ہوئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا طالبان اپنے وعدوؤں پر کتنا عمل کرتے ہیں۔

دنیا بھلے طالبان کو تسلیم نہ کرے،لیکن طالبان کو وقت دینا ان کا حق ہے۔ماضی میں افغانستان کی صورت حال دیکھ کر ان کی سرزمین پر ناجائزجنگ مسلط کردی گئی۔سوویت یونین نے اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے بے گناہ افغانوں کو خون بہایا۔جس طرح سابقہ طالبان قیادت کے ساتھ افغانوں کا محبت والفت کا رشتہ موجوتھا،آج بھی طالبان کو کابل میں اسی محبت و الفت کے ترازو میں تولاجارہاہے۔طالبان کو اگر افغان عوام کی اکثریت کی تائیدحاصل نہ ہوتی ،توانقلاب ایران کی طرح انقلاب افغانستان دیکھنے کو ملتا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکہ کی کابل کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔کابل سے امریکی کٹھ پتلی حکمران بھاگ نکلے۔جو امریکی ڈالروں کے پجاری تھے۔عوام اس صورت حال سے تنگ تھے۔لہذا طالبان کی آمد سے ایک مضبوط افغانستان اور روشن مستقبل کی صبح دیکھی جاسکتی ہے۔ہاں مگر طالبان کی آمد پر کابل میں جو چند ایک واقعات رونما ہوئے ہیں یا کچھ حلقوں میں سابقہ طالبان کے کاموں کو لے کر جوخوف کا عالم ہے، تو ان واقعات کو طالبان کے کھاتے میں ڈالنا ناانصافی ہوگی۔کابل سے نکلنے والوں کا یہ اپنا ذاتی فعل تھا ۔ جس کو پوری دنیا ،خاص طور پربھارتی میڈیانے دہشت و خوف سے تعبیر کرکے دکھایا۔جبکہ خود بھارت کے کئی سو افراد طالبان کی حفاظت میں کابل سے نکلے ہیں۔آج بھی کابل کے عوام پر امن طریقے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔دنیا کو یہ بات بھی دیکھنی چاہیے۔

کئی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا طالبان صرف مذہبی تعلیم کی اجازت دیں گے؟اگر اس نقطے پر طالبان کی قیادت ماضی کی روش اپناتی ہے، تو مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔آج کی افغان نوجوان نسل کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشاورانہ مہارتوں کی بھی ضرورت ہے۔اسی سے افغانستان ترقی کی راہ پر چل سکتاہے اور نوجوان آگے بڑھ سکتے ہیں۔لہذا طالبا ن کو عالمی دنیاسے ہم آہنگ ہونے کے لیے ملکی سیاسی قیادت کو ساتھ ملاکرچلنا چاہیے۔بیس سالہ جنگ زدہ افغانستان کو دنیا کے مقابل کھڑا ہونے کے لیے ماہر علماء کرام،مفتیان عظام کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز،انجینئرزاور سائنسدان بھی چاہئیں۔

موجودہ قیادت کے آنے بعد پوری دنیاان کی طرف جھکاؤ دکھا رہی ہے۔چین،روس،پاکستان کا رویہ نرم ہے۔اس کے علاوہ یورپی ممالک بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے موڈ میں ہیں۔عربوں کوبھی جلد افغانستان کی ضرورت پڑے گی اور وہ بھی مان ہی جائیں گے۔اس اہم موقع پر طالبان قیادت کی طرف سے کوئی ایک ادنیٰ سے غلطی بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔دنیاکے معیارات کو سمجھنا ہوگا۔ کچھ سننا ہوگا،کچھ سناناہوگا۔سب کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔خواتین کی تعلیم بارے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ اسی طرح اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہوگا۔ہم توقع رکھتے ہیں کہ طالبان قیادت ملالہ سمیت پوری لبرل دنیا کی پریشانی کاجواب اپنی بہترین پالیسیوں سے دے گی۔

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 32 Articles with 21656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.