سندھ حکومت کا لاک ڈاؤن اور اقوام متحدہ کا الرٹ

جب آپ اپنے لیے کوئی انفرادی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے مثبت و منفی اثرات کے بھی آپ خود ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے 8 اگست تک لاک ڈاؤن کا اچانک فیصلہ کرکے سندھ کے عوام کو پریشان کیا، بلکہ وفاق بھی ان کے اس فیصلے سے چیں بجبیں ہوتا دکھائی دے دیا۔غیر جانبدرانہ تجزیہ کریں تو سندھ حکومت کا یہ اچانک فیصلہ عوام کے لیے کوئی خوش آئند نہیں سمجھا جارہا۔ دوسری طرف اگرچہ وفاقی حکومت اور سندھ کے درمیان ایسی خلیج حائل ہے، جس کو پاٹنا گزشتہ تین سالوں کی مثال سامنے رکھتے ہوئے مشکل لگتا ہے ، لیکن صوبوں اور وفاق میں عوام کے فیصلوں کی بابت اتنی بات چیت تو ہونی چاہیے کہ عوام کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔سندھ حکومت نے کورونا وبا آنے کے بعد جو بھی فیصلے کیے وہ ہمیشہ عجلت میں کیے اور اس کے بعض فیصلوں میں وفاق کو بھی سندھ کی کارکردگی سرا ہنی پڑی۔لیکن ہر بار ایسی خوش بختی نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ کورونا وبا کے شروع کے دنوں میں سندھ حکومت کی عملداریوں کے مثبت نتائج کو دیکھتے ہوئے، باقی صوبوں نے بھی سندھ کی تقلید کی تھی اور اس کے اچھے نتائج حاصل کیے تھے۔ پنجاب میں منفی کیسز کی شرح میں خاطر خواہ کمی اور کورونا کیسزپر قابو پانا اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ سندھ حکومت آج تک اپنے اس سحر سے باہر نہیں نکل سکی کہ اس نے پنجاب جو کہ پاکستان تحریک انصاف کا مضبوط قلعہ سمجھاجاتاہے کو اپنے پیچھے لگانے پر مجبور کیا۔اور اب تک اسی خوش فہمی پر دھمال ڈالے ہوئے ہے۔ لگتا یہی ہے کہ سندھ حکومت کا ہر عجلتی فیصلہ عوامی مفاد پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ وفاقی سر کو سرنگوں کرنے پر تلا ہوتاہے۔چکی کے ان بڑے دوپاٹوں میں پستی غریب عوام ہی ہے۔

یہ بات بھی حقیقت سے دور نہیں کہ کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں اور عوام کو کڑی احتیاط کے ساتھ ویکسین لگوانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن کیا حکومتی اقدامات اتنے سہل ہیں کہ ہر عام آدمی ویکسین تک رسائی رکھتا ہو۔ ویکسین سینٹروں میں عوام کا جم غفیر اس کا ثبوت ہے کہ حکومت نے اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کیا اورعوام کو بے جا پابندیوں کی دھمکیاں دے کراپنی غلطیوں سے ہاتھ جھاڑنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ عوام کو ویکسین سینٹروں میں گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑاکیا جاتاہے اور شام ہونے تک ایک دو ہزار مریضوں کو ویکسین لگا کر باقیوں کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیاجاتاہے۔ سندھ حکومت کو کورونا کیسز کی بڑھتی تعداد کو روکنے کا یہی سود مند حل نظر آتاہے۔ لاک ڈاؤن لگا دیا جائے۔ صوبے کے لاکھوں مزدروں، 23 لاکھ تاجروں ،دیہاڑی دار طبقے سمیت محنت کشوں کو گھر وں میں بند کردیا جائے۔ ویکسین لگانا ہر شہری کی سماجی و معاشرتی ذمہ داری ہے او ر اس ذمہ داری کا احساس غریب کے پیٹ پر لات مار کردلانا کہاں کی عقل مندی ہے۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ سندھ حکومت عقل کل رکھتی ہے اور یہاں بڑے پُر مغز دماغ موجود ہیں جن کی موجودگی میں ممکن ہی نہیں کہ کسی عوامی پہلو پر سوچ وبچار نہ کی گئی ہو۔ ایسے میں پھر ہمیں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے دماغ خراب نظر آتے ہیں کہ انہوں نے ایسی رپورٹ مرتب کردی ہے جس کی رو سے ہمیں سندھ حکومت کے اچانک لاک ڈاؤن کے درست فیصلے کی صحیح کڑی نہیں مل رہی۔ اقوام متحدہ کے دواہم ترین اداروں ’’فوڈ اینڈ ایگری کلچرآرگنائزیشن (ایف اے او) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے اگست اور نومبر کے درمیان بھوک کے بحران سے دوچار ہونے والے23 ملکوں کی فہرست تیا رکی ہے اور دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ ان ملکوں میں انسانوں کی بڑی تعداد بھوک کا شکار ہوسکتی ہے۔ان میں ایتھوپیا سرفہرست ہے۔ جمعے کے روز جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں متعلقہ اداروں نے کہا ہے کہ اگر موجودہ صورت حال جوں کی توں رہی توخوراک کی عدم دستیابی کی صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔رپورٹ سے ہم خوش ہوسکتے ہیں کہ ان 23 ممالک کی لسٹ میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے کہ جن کو بھو ک کی وجہ سے تشویش ناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن ان اداروں نے جن وجوہات کی بنا پر یہ الرٹ جاری کیا ہے،وہ خطرات ہمارے ہاں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بے لگام مہنگائی ہے۔ آئے دن اشیاء ضروریہ کے بڑھتے نرخوں کی وجہ سے عوام کی قوت خرید کمزرو پڑتی جارہی ہے۔ خاص طور پر بچوں اور عورتوں کو اپنی خواہشات کی قربانی دے کر پیٹ کی آگ بجھانا پڑرہی ہے۔دوسری اہم وجہ کورونا وائرس کا مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے ملکوں نے ابھی تک ویکسین پروگرام میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اوراپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے عوام کو غیر ضروری پابندیوں کی آڑ میں ان کی معاشی پوزیشن کو کمزور کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

سندھ حکومت نے 8 اگست تک لاک ڈاؤن تو لگا دیاہے، لیکن یہ نہیں سوچا اور دیکھا گیاکہ اس حوالے سے عوام کی معاشی ضرورتوں کو کیسے پورا کیا جائے گا۔ کورونا وائرس پر قابو پانے کے بعد دنیا معاشی جھٹکوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور ہم عوام کو بھوک اور افلاس کی آندھیوں میں غوطے دینے کی سعی کررہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے منفی پہلو ؤں میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ عام آدمی کا روزگار داؤ پر لگ جاتاہے۔ ایک متوسط گھرانا عموماََ ایک فرد واحد کی کمائی کے سہارے چل رہا ہوتا ہے۔جب وہی فرد لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھربیٹھ جائے گا تو دال روٹی کیسے چلے گی۔اس کے بعد گھر کے افراد بھوک کے عالمی کرائسز میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس عالمی منظر نامے میں پھر وہ ملک بھوک ، ننگ اور خوراک کی کمی کے باعث دنیا کے غریب ترین ملکوں کی فہرست میں آجاتاہے۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں میں غربت کے خاتمے کے ساتھ ایک کثیر تعداد میں خوراک کو محفوظ بنانے کے پروگرام شروع کیے جاچکے ہیں۔جبکہ ہمارے ہاں اضافی خوراک کو محفوظ کرنے کے حوالے سے انتظامات ناکافی ہیں۔ ایسے میں کیا صوبائی و وفاقی حکومتوں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ کوئی بھی عوامی وملکی فیصلہ صرف اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے نہ کیا کریں بلکہ ان میں یہ دیکھا جانا از حد لازمی ہے کہ عوام کو فوری امداد پہنچا کر انہیں عالمی بحرانوں سے کیسے بچایاجاسکتاہے۔ لہذا لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے عالمی منظر ناموں کو دیکھ لیا کریں گے تو عوا م آپ کی شکرگزار رہے گی۔
 

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 32 Articles with 21761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.