کیا وادی ہنزہ کا مشہور قلعہ واقعی بلتستان کے بادشاہ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا؟

image
 
برصغیر کی تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بادشاہ اور شہزادے اپنی محبوباؤں کے لیے شاندار قلعے اور محل تعمیر کرتے ہیں۔ تاج محل سے نور محل تک، ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شاہ اپنی محبت کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا۔
 
مگر پاکستان کے شمال میں قراقرم پہاڑی سلسلے کے درمیان ایک ایسا قدیم قلعہ بھی ہے جسے ایک حکمران نے اپنی بیٹی کے لیے چنا اور اس کے جہیز کے طور پر شہزادی کے سسرال میں تعمیر کیا۔
 
اگرچہ اس قلعے کی تعمیر کے حوالے سے تاریخ دانوں کے رائی اب بھی منقسم ہے، یہ بات طے ہے کہ جب ہنزہ کے حکمران ایاشو خاندان کے چوتھے ولی عہد شہزادہ ایاشو ثانی کی شادی بلتستان کے حکمران راجہ ابدال کی بیٹی شاہ خاتون سے ہوئی تو شہزادی کی رہائش کے لیے اسی قلعے کا انتخاب ہوا۔
 
بادشاہ راجہ ابدال نے اپنی بیٹی کی شادی کے بعد اپنی سلطنت سے ماہر گاریگروں کی ایک ٹیم جہیز کے ساتھ وادی ہنزہ روانہ کی جنھوں نے قلعہ بلتت کی تعمیر یا توسیع میں حصہ لیا۔
 
قلعہ بلتت کی تعمیر کے حوالے سے کئی داستانیں سینہ بہ سینہ صدیوں سے چلی آ رہی ہیں اور آج بھی اس قلعے تک آنے والے سیاحوں کو یہاں کے مقامی لوگ یہی قِصے سناتے ہیں۔
 
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قلعہ تقریباً 700 سال پرانا ہے اور اس کی تعمیر کا کام 14ویں صدی میں شروع ہوا۔ تاہم حالیہ برسوں میں ہونے والے کاربن ڈیٹنگ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ اس سے پہلے بھی اس مقام پر کوئی قلعہ موجود تھا۔
 
تبتی طرزِ تعمیر
قلعہ بلتت میں بھی باقاعدہ طور پر تبتی طرزِ تعمیر کی جھلک نظر آتی ہیں۔ 1990 کی دہائی میں اسے ہنزہ کے میر خاندان کی جانب سے آغا خان ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا، جنھوں نے اس کی بحالی کا کام مکمل کر کے اسے ایک میوزیم کی شکل دی اور اب یہ بلتت ہیریٹیج ٹرسٹ کے زیر انتظام ہے۔ اسے سنہ 2004 میں یونیسکو کی عالمی ورثے کی ٹینٹیٹیو فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔
 
image
 
بلتستان کا علاقہ ہنزہ سے دریائے سندھ کے دوسرے پار ہے۔ اگرچہ دورِ جدید میں یہ پورا خطہ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے نام سے جانا جاتا ہے تاہم تاریخی اعتبار سے اس کے مختلف حصوں کی تاریخ مختلف ثقافتوں سے جڑی ہے۔
 
بلتستان کا تاریخی اعتبار سے تبت سے قریبی تعلق رہا ہے اور کئی سو سال قبل یہ لداخ سمیت تبت کا حصہ ہی ہوتا تھا۔ مقامی طور پر آج بھی اس علاقے کو 'چھوٹا تبت' گردانا جاتا ہے۔
 
image
 
ماہرین بلتت فورٹ اور تبت کے شہر لاسا میں واقع دلائی لامہ کی سابق رہائش گاہ پوٹالہ محل کی تعمیر میں مماثلت دیکھتے ہیں۔ اگرچہ پوٹالہ محل 16ویں صدی میں تعمیر ہوا تاہم دونوں شاہی قیام گاہوں کا نہ صرف طرز تعمیر ایک طرح کا ہے بلکہ دونوں اونچے پہاڑوں کے دامن میں ایک اونچی چوٹی پر بنے ہوئے ہیں، جس سے دشمن کے لیے اس تک پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے۔
 
قلعے کی جدید تاریخ
کریم آباد کسی زمانے میں وادی ہنزہ کی ریاست کا دارالحکومت تھا۔
 
ہنزہ کے میر غضنفر علی خان کی اہلیہ رانی آف ہنزہ عتیقہ غضنفر بتاتی ہیں کہ یہ قلعہ کئی سو سال تک وادی ہنزہ کے حکمران خاندان کی رہائش کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ انھوں نے بتایا کہ ریاست ہنزہ کے آخری حکمران میر جمال خان کی پیدائش بھی اسی قلعے میں ہوئی تھی۔
 
سنہ 1945 میں انھوں نے وادی ہنزہ میں اپنے لیے ایک علیحدہ رہائش گاہ تعمیر کروائی اور اس میں منتقل ہو گئے تاہم خصوصی تقاریب کے لیے اب بھی قلعہ بلتت ہی استعمال ہوتا ہے۔
 
رانی عتیقہ غضنفر کے مطابق ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد اس قلعے کا تحفظ اور بحالی کا کام ان کے یا حکومتِ پاکستان کے بس کی بات نہیں تھی اسی لیے بحالی اور دیکھ بھال کے غرض سے قلعے کو بغیر کسی قیمت آغا خان ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
 
image
 
قلعے کا دورہ
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ تین منزلوں پر مشتمل یہ قلعہ ایک ساتھ نہیں تعمیر ہوا تھا اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ تعمیر کے وقت اس کی صرف ایک منزل تھی۔ رانی عتیقہ غضنفر بھی اس بات سے متفق ہیں۔
 
اس قلعے میں کُل 62 دروازے اور 53 کمرے ہیں۔ اس قلعے کی تعمیر میں پتھر کے علاوہ دیواروں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے قمتیی لکڑی کا روایتی کام کیا گیا ہے۔ بڑی بڑی کھڑکیاں، دریچے، برآمدوں کے ستون اور گیلریاں جن پر ابھرے ہوئے لکڑی کے نقش و نگار معماروں کے فن کا کمال نمونہ پیش کرتی ہیں۔
 
پہلی منزل چاروں اطراف سے کھلی ہے جبکہ دوسری منزل میں مہمان خانہ اور شاہی دربار موجود ہیں جہاں ہنزہ کے حکمران کئی سالوں تک امور مملکت انجام دیتے رہے۔ یہاں وہ مقام اب بھی محفوظ رکھا گیا ہے جہاں حکمران دربار لگاتے تھے اور اس جگہ پر سیاحوں کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔
 
image
 
تیسری منزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پر ہنزہ کے حکمرانوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ میر آف ہنزہ کے کمرے میں ایک تنور نما گڑھا پایا جاتا ہے جہاں بادشاہ کی شراب تھنّی رکھی جاتی تھی۔
 
عام فریادیوں سے ملاقات والے مقام پر نیچے کی جانب ایک سوراخ آج بھی موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب کوئی شہری بادشاہ کے پاس فریاد لے کر آتا تو وہ پہلے نذرانہ پیش کرتا جو کہ اس سوراخ میں ڈالا جاتا۔ یہ عموما گندم، جو، خوبانی یا دیگر اجناس کی شکل میں ہوتا تھا۔
 
نچلی منزل بنیادی طور پر گوداموں اور ایسے کمروں پر مشتمل ہیں جہاں پر کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ کی جاتی تھیں۔
 
image
 
قلعے کا میوزیم
آج یہاں قلعے اور اس خطے کی تاریخ سے جڑے نوادرات اور معمولاتِ زندگی کی عکاسی کرنے والی اشیا رکھی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 18ویں صدی میں جب برطانوی فوج نے وادی ہنزہ پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو اس قبل یہاں کے حکمرانوں کا ایک روسی جاسوس سے پالا پڑا تھا جس نے انھیں ایک جدید بندوق اور ایک گولی پیش کی تھی۔
 
تاہم جب برطانوی فوجی اپنی بندوقوں کے ساتھ قلعہ فتح کرنے پہنچے تب بھی یہ بندوق استعمال نہ ہوئی اور پرانے اور روایتی اسلحے سے لیس ہنزہ کے محافظ ان کا مقابلہ نہ کر پائے۔
 
image
 
لحاظہ وہ بندوق آج بھی اپنی اصلی حالت میں اس قلعے کی اس تین منزلہ عمارت میں محفوظ ہے۔
 
ہنزہ کے حکمران اور رانی کے شاہی لباس بھی موجود ہیں تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کون سے دور میں استعمال ہوتے تھے۔ دیوار پر مقامی طور پر تیار کردہ قالین بھی موجود ہے۔ روایات کے مطابق تہہ خانے کو جیل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جہاں پر مجرموں کو سزائیں بھی دی جاتی تھیں۔
 
image
 
ہنزہ کی مقامی اور روایتی موسیقی کے علاوہ مقامی کھانے آج بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ قلعے میں پرانے زمانے کے موسیقی کے آلات بھی محفوظ ہیں۔ مقامی طور پر ہنزہ میں اب بھی شادی یا خوشی کے موقع پر موسیقی کے ایسے ہی آلات کا استعمال کیا جاتا ہے جو قلعہ میں دکھائی دیتے ہیں۔
 
image
 
قلعے کے باورچی خانہ میں لوہے سے تیار کردہ کھانا پکانے کے برتن بھی محفوظ ہیں۔ اب بھی ہر ماہ چاند کی چودھویں تاریخ کو معاوضے کے عوض شاہی دستر خوان پر روایتی کھانے سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
 
قلعہ کا دورہ کرنے والے سیاحوں کے مطابق اگر چاندنی رات کے دوران قلعے کا دورہ کیا جائے تو وادی ہنزہ کے خوبصورت منظر کے علاوہ سامنے بلند و بالا پہاڑ راکا پوشی نظر آتا ہے جو ہر ایک کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
 
image
 
کیا بلتت قلعے کی تعمیر شہزادی کے جہیز کے طور پر ہوئی؟
بلتت قلعے کی تعمیر کیسے، کیوں اور کب ہوئی تاریخ میں اس متعلق بہت کم ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ لوک روایات کے مطابق شہزادی شاہ خاتون اپنی رہائش گاہ میں اپنے میکے کی واضح جھلک چاہتی تھیں۔ جس وجہ سے بلتت قلعے کو باقاعدہ طور پر تبت کی طرز تعیمرات پر تعمیر کیا گیا تھا۔
 
رانی عتیقہ عضنفر کا کہنا تھا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس محل کی تعمیر میں بلتستان کی شہزادی کی کہانی جڑی ہوئی ہے تاہم وہ کہتی ہیں کہ یہ محل شہزادی کی شادی سے پہلے موجود تھا اور شہزادی بیاہ کر اسی محل میں آئی تھی۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’ممکن ہے کہ ان کے منتقل ہونے کے بعد شہزادی نے بلتستان کے ماہرین کی مدد سے محل میں اپنی ضرورت کی تبدیلیاں کروائیں ہوں۔ اس قلعہ میں ہر دور میں تعمیرات اور تبدیلیاں آئی ہیں۔‘
 
image
 
شیرباز کلیم بلتت قلعے کے سابق مینجر ہونے کے علاوہ تاریخ دان بھی ہیں۔ شیر باز کلیم کا کہنا تھا کہ بلتت قلعے کی تعمیر کو شہزادی شاہ خاتون سے منسوب کیا جاتا ہے جو کہ ابھی بھی تحقیق طلب ہے۔ ان کا دعوی تھا کہ سائنسی بنیادوں پر کی گئی تحقیق میں پتا چلتا ہے کہ بلتت قلعے کی تاریخ تقریباً نو سو سال پرانی ہے۔
 
وہ کہتے ہیں ’اب شاید معاملہ یہ ہو کہ ہنزہ کے شاہی خاندان کے محلوں کا قیام شاہ خاتون سے پہلے اس ہی مقام پر مختصر یا چھوٹی عمارتوں کی صورت میں ہوتا ہو گا جن کو تبت کے کاریگروں نے بڑے پیمانے پر ایک بڑے قلعے کی عمارت میں ڈھال دیا ہو گا۔‘
 
image
 
 
ان کا کہنا تھا کہ شاہ خاتون بعد میں ہنزہ کی رانی بھی بنیں تھیں۔ انھوں نے بلتت قلعے کی خوبصورتی کے لیے بہت سے تبدیلیاں کروائی تھیں۔ اس کے علاوہ ان ہی کے دور میں اسلام کی تبلیغ کے علاوہ وسطی ایشیا سے اسماعیلی مبلغ بھی اس علاقے میں آئے تھے۔ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ ان کی دور میں ’چھوٹے تبت‘ سے ماہر کاریگر بھی آئے تھے۔
 
لوک روایات کے مطابق بلتستان سے آنے والے ماہرین تعمیرات ہر صورت میں اپنے شہزادی کے لیے ایک آرام دہ اور شاندار محل تیار کرنا چاہتے تھے۔ جس کے لیے انھوں نے دن رات ایک کر دیا تھا اور ریکارڈ مدت میں اپنی شہزادی کے لیے محل تعمیر کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: