|
|
عمران خان نے 22 سال کی تاریخی سیاسی جدوجہد کے بعد
اقتدار حاصل کیا لیکن بدقسمتی کہیے یا کچھ اور کہ عمران خان کو حکومت بنانے
کیلئے بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا اور ماضی میں جن جماعتوں پر عمران خان
سنگین الزامات لگاتے رہے حکومت بنانے کیلئے انہیں انہی جماعتوں کے در پر
حمایت کیلئے سر جھکانا پڑا۔ |
|
تحریک انصاف |
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے 25 اپریل
1996 کو "انصاف، انسانیت اور خود داری"کے نعرے پر پاکستان تحریک انصاف کی
بنیاد رکھی اور 22 سال طویل جدوجہد کے بعد بالآخر 2018ء کے عام انتخابات
میں تحریک انصاف حکمراں جماعت بن کر سامنے آئی اور عمران خان وزیر اعظم
بنے۔ |
|
|
|
حکومت بنانے کیلئے درکار
نشستیں |
قومی اسمبلی میں 342 کے ایوان پاکستان تحریک انصاف 155 سیٹوں کے ساتھ پہلے
نمبر پر رہی تاہم حکومت بنانے کیلئے 342 کے ایوان میں 172نشستیں درکار تھیں
یوں پاکستان تحریک ک انصاف کو حکومت بنانے کیلئے درکار 17 سیٹوں کیلئے
متحدہ قومی موومنٹ کی7، مسلم لیگ ق کی 5 اور بلوچستا ن عوامی پارٹی کی 5
نشستوں کے علاوہ جی ڈی اے کی 3، عوامی مسلم لیگ کی ایک، دو آزاد اور
جمہوری وطن پارٹی کی ایک سیٹ کی حمایت بھی حاصل ہے اور حکومت کو اس وقت 172
کے بجائے 176 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ |
|
اپوزیشن کی تعداد |
قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن مسلم لیگ ن 84 سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر
موجود ہے، پیپلز پارٹی کے 56، متحدہ مجلس عمل کے پاس 15، بی این پی ملی کے
پاس 4، عوامی نیشنل پارٹی کی ایک اور دو آزاد ارکان بھی اپوزیشن اتحاد میں
شامل ہیں یوں اپوزیشن کی تعداد162 ہے ۔ |
|
|
|
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں حکومت بنانے
کیلئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے اور اگر پہلے سے موجود 162 رکنی
اپوزیشن کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی 7، پاکستان مسلم لیگ ق کی 5، بی
اے پی کی 5 سیٹوں سے حمایت مل جاتی ہے تو یہ تعداد 179 ہوجاتی ہے اور اگر ق
لیگ کی 7 ، دو آزاد اور جمہوری وطن پارٹی بھی اپوزیشن کے ساتھ آجائے تو
بھی حکومت بنانا ممکن ہے۔ |
|
اختیارات کی تقسیم |
وزیراعظم عمران خان نے تقریباً 4 سالہ دور اقتدار میں
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بہت کم شرکت کی اور ان کے حوالے سے یہ بھی مشہور
ہے کہ عمران خان اختیارات کی تقسیم کے بجائے ون مین شو پر زیادہ یقین رکھتے
ہیں- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنجاب میں ایک کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنایا ہے جس
کی وجہ سے تحریک انصاف میں بھی تناؤ پایا جاتا ہے۔ |
|
تینوں اتحادی ناراض کیوں |
ایم کیو ایم |
عددی اعتبار سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان عمران خان کی
سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے تاہم گزشتہ 4 سال سے ایم کیو ایم اپنے بند دفاتر
کھولنے کیلئے مطالبات کرتی رہی لیکن حکومت نے ان کی درخواستوں پر غور کرنا
بھی گوارا نہ کیا اور جونہی تحریک عدم اعتماد آئی عمران خان کراچی میں ایم
کیوایم کے عارضی مرکز پہنچنے اور ان کے کچھ بند دفاتر کھولنے کی بھی
اطلاعات ہیں۔ |
|
مسلم لیگ ق |
دوسری بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق پنجاب اسمبلی میں 10
اور قومی اسمبلی میں 5 سیٹوں کے ساتھ حکومتی اتحاد کا حصہ ہے- تاہم پنجاب
میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے پر ق لیگ کے تحفظات ہیں گو کہ ق لیگ کے
رہنماء چوہدری پرویز الٰہی کو اسپیکر کا عہدہ دیا گیا لیکن ق لیگ پنجاب میں
وزارت اعلیٰ کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ |
|
|
|
بلوچستان عوامی پارٹی |
حکومت کی تیسری بڑی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی
کا کہنا ہے کہ دو ڈھائی سال میں دیکھا کہ وفاق کی جانب سے ون مین شو فیصلہ
ہو رہا تھا، بلوچستان عوامی پارٹی اپنا فیصلہ خود کرے گی جبکہ دوسری جانب
بی اے پی نے خیبرپختونخوا حکومت سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ |
|
پشاور سے جاری بیان میں صوبائی پارلیمانی لیڈر بلاول
آفریدی کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے، جلد قومی
اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان میں بھی حکومت کے ساتھ اتحاد ختم کریں گے۔ |