صرف وعدوں سے کام نہیں چلے گا۔۔۔۔ عمران خان اگر رہے تو انہیں کیا کرنا چاہیے اور چلے گئے تو کیا کرسکتے ہیں؟

image
 
پاکستان میں پیر کو ایک بار پھر سے سیاسی ہلچل عروج پر رہی جس کا آغاز وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے ہوا اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد سے ہوتے ہوئے اختتام بھی وزیراعلیٰ پنجاب ہی کے استعفے پر ہوا اور چوہدری پرویز الہیٰ وزیر اعلیٰ بننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
 
یقیناً یہ عمران حکومت کا ایک لائحہ عمل ہے اور لگتا ہے انھیں اپنی غلطیاں محسوس ہونا شروع ہو گئیں ہیں۔
 
اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے اور انہیں گھر جانا پڑتا ہے تو وہ دوبارہ عوام کے سامنے کیسے پیش ہوں گے اور اگر وہ برسرِاقتدار رہتے ہیں تو انہیں کونسے کام اب لازمی کر لینے چاہئیں؟ آئیے اس حوالے سے چند امکانات اور اصلاحات پر ایک نظر ڈالتے ہیں-
 
برسرِ اقتدار رہنے کی صورت میں:
پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف، وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کی حمایت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن اصل میں تو انھیں عوام کو راضی کرنا ہے۔ اگر وہ حکومت میں ہوتے ہیں یا حکومت ہاتھ سے چلی بھی جاتی ہے تو دونوں صورتوں میں انھوں نے NRO کے نعروں کو پس پشت ڈال کر اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا جن کی بدولت آج وہ وزیر اعظم ہیں۔
 
image
 
عمران نیازی کے وعدے ایک نظر میں:
٭تمام پالیسیاں عام عوام کے لیے ہوں گی۔
٭ٹیکس ریونیو کی حفاظت کی جائے گی۔
٭حکومتی اخراجات کم کریں گے۔
٭اداروں کو مضبوط کریں۔
٭بورڈ میں سب کا احتساب ہوگا۔
٭نوجوانوں کے روزگار میں اضافہ کریں گے۔
٭کسانوں، تاجر برادری کی مدد کریں گے۔
٭ترقی پر پیسہ خرچ کریں گے۔
٭چین، افغانستان، ایران، امریکہ، بھارت کے ساتھ تعلقات کو حل کریں گے۔
 
اب اگر ان کے دور حکومت کا جائزہ لیا جائے تو یہ وعدے تو درکنار عوام پر مزید مشکلات ڈال دی گئیں ۔ سب سے پہلے مہنگائی سب کے سامنے ہے۔ دوسرا انہوں نے میرٹ پر لوگوں کو لانا تھا لیکن یہ وہ ہی nepotism پر قائم رہے۔ نوجوان پر امید تھے کہ اب ان کا وزیراعظم آرہا ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد یوتھ تو ان کو یاد ہی نہیں۔ بیروزگاری نے جوان نسل کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ناامیدی کفر ہے اور ابھی بھی عوام مسیحا کے لئے صرف عمران خان کو ہی چن سکتے ہیں اگر وہ اپنے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ مشکل ہے پر ناممکن نہیں کیونکہ جس ملک کی تقدیر نوجوانوں کے ہاتھ آجائے تو اس ملک کی ترقی کے راستے میں کوئی حائل نہیں ہو سکتا۔
 
image
 
اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو۔۔۔۔
ماضی کے تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اتارے گئے وزیراعظم جلسوں کا رخ کرتے ہیں۔ عمران خان نے یہ کام جانے سے پہلے ہی شروع کر دیا ہے۔ پھر وہی نعرہ کہ مجھے کیوں نکالا یا ہمارا دور پورا نہیں ہونے دیا گیا۔ ساتھ ہی بدلے کی سیاست جس کی کچھ جھلک وزیراعظم کے دکھائے گئے خط میں نظر آتی ہے۔ یہ تو وہی تاریخ دہراتی ہوئی نظر آتی ہے جس کے تحت ملک آگے کو جانے کے بجائے اسی بھنور میں پھنسا نظر آتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو عمران خان بھی کنٹینر پر چڑھ کر یہی دکھ عوام کے سامنے رکھیں گے جو کہ یقیناً دیگر سیاستدانوں سے کچھ زیادہ مختلف عمل نہ ہوگا- اقتدار سے اترنے کے بعد شاید ہی ان کی تقریروں میں عوام کو کچھ نیا سننے کو ملے جس کے مطابق وہ ووٹ دینے یا نہ دینے کے فیصلہ کرسکیں-
YOU MAY ALSO LIKE: