سپورٹس ڈائریکٹریٹ‘ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اور سنگین مسئلہ



پشتو زبان میں ایک محاورہ ہے چی کم زائے کڑی نہ کار‘ ھغہ زائے کڑی سہ کار‘ یعنی جہاں پر آپ کا کام نہ ہوں وہاں پر جانے کی ضرورت ہی کیا ہے‘ پتہ نہیں یہ محاورہ کس وقت اور کس نے بولا تھا‘ لیکن جس نے بھی کہا تھا بڑا ہی دانا شخص تھا‘ اب تو اس محاورے کی جدیدشکل آگئی ہے اور اب لوگ کہتے ہیں کہ "چی دا بجلی تارونو کے او داخدائے پہ کارونو کے بہ گوتے نہ وخے " یعنی بجلی کے تاروں اور خدا کے کاموں میں ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں. خیر یہ بات تو ضمنی آگئی‘ کچھ لوگ ایسی جگہوں پر اپنی افسری دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے دوسروں کا کچھ نہیں ہوتا لیکن متعلقہ شخصیت کی سبکی ضرور ہوتی ہے. ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ دنوں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں پیش آیا جب گریڈ انیس کے ایک بڑے افسر نے ایک خاتون کی ایڈمشن فیس معاف کرنے کیلئے اس کے درخواست پر دستخط کردئیے‘ حالانکہ اسے پتہ تھا کہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں اور دوسرے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ نے ریونیو کی خاطر مفت ایڈمشن کے درخواستیں لینا بند کردی ہیں. دستخط ہونے کے بعد متعلقہ خاتون نے ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں درخواست دی کہ اس کی ایڈمشن فیس معاف ہے اور وہ صرف ماہانہ فیس جمع کرائے گی ایڈمنسٹریشن اہلکاروں نے اس بابت میں انہیں آگاہ کیا کہ جو دستخط کیا گیا وہ ڈائریکٹر جنرل کا نہیں اور وہ اس درخواست کو نہیں لے سکتے جس پر خاتون ڈاکٹر نے اپنا رعب جماتے ہوئے کہ دیا کہ جا کر پتہ کراؤ میری درخواست منظور ہو چکی ہے بحث و مباحثے کے بعد جب پتہ چلا تو دستخط کسی اور صاحب نے کئے تھے جن کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے آپریشن سے کوئی تعلق ہی نہیں البتہ وہ ڈویلپمنٹ کے کاموں کے نگرانی کرتے ہیں‘ ایڈمنسٹریشن اہلکار کی موجودگی میں گریڈ انیس کے ان صاحب نے اپنی سبکی محسوس کی اور پھر خاتون کو یہ یقین دہانی کروائی کہ ڈائریکٹر جنرل سے وہ خاتون کی درخواست خود ڈائریکٹر جنرل سے دستخط کروالیں گے جس کے بعد سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں شروع ہونے والا"سنگین مسئلہ" حل ہوگیا.۔

یہ سنگین مسئلہ تو حل ہوگیا کہ متعلقہ پروفیشنل ڈاکٹر خاتو ن نے اپنے لئے آواز بلند کی کہ وہ غریب ہے اور ایڈمشن کی ایک ہزار روپے جمع نہیں کراسکتی.لیکن سینکڑوں کی تعداد میں آنیوالے طلباء و طالبات جو مختلف کھیلوں سے وابستہ ہیں ان کی درخواستوں پر دستخط کون کرے گا کیونکہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کے دفتر میں جانا جی ایچ کیو میں جانے کے مترادف ہے‘ اور غریب لوگ توکیا بڑے بڑے سیاستدان جی ایچ کیو اور بوٹ والی سرکار سے ڈرتے ہیں ایسے میں دفاتر میں درخواست لیکر جانا وہ بھی غریب کھلاڑی کا ایسا ہے جیسے جی ایچ کیو میں جانا ہو‘ اوپر سے اگر صاحب لوگوں کو آدھا گھنٹہ انتظار کرانے کی عادت بھی ہو تاکہ دوسرے پر یہ تاثر بھی پڑے کہ " بڑے صاحب "واقعی بڑے ہیں ان کے پاس اتنا وقت نہیں‘ یہ الگ بات کہ نو بجے ملاقات کا وقت دینے والے افرا د کو آدھ گھنٹہ انتظار اس لئے کروائی جاتی ہیں کہ ملاقات کیلئے آنیوالوں کو ان کی اوقات بھی یاد دلائی جائے اور انہیں اپنا بڑا افسر ہونے کا زعم بھی دکھایاجائے.شکر ہے کہ راقم ان میں نہیں جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے چھت تلے کام کرنے والے "رہائش پذیر "ہوں کیونکہ بدلے میں پی آر شپ کرنی پڑتی ہیں.کیونکہ جو لوگ ان کے پی آر شپ کرتے ہیں وہ گڈ بک میں ہوتے ہیں اتنے گڈ بک میں کہ انہیں سالانہ گرانٹ بھی دی جاتی ہیں ان سے کوئی آڈٹ بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان سے کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے‘ اور اگر کوئی بات کرے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ تو گذشتہ والے صاحب نے کیا تھا اب ہم اس کو جاری رکھیں گے‘ بھائی اگر آپ کے سابق لوگوں نے غلط کیا تھا تو آپ اسے جاری رکھیں گے.یعنی جس طرح ایک زمانے میں گڈ طالبان اور بیڈ طالبان ہوا کرتے تھے اب بیورو کریٹ کی نظر میں گڈ صحافی اور بیڈ صحافی بھی ہیں.لیکن خیر..

سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت ہے جن کے پاس کھیلوں کی وزارت اور سیاحت کی ڈیپارٹمنٹ کیلئے اتنا وقت ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا کے پیج پر کھیلوں کی تصاویر شیئر کرتے ہیں باقی وہ یا تو جانتے بوجھتے انجان بنتے ہیں یا پھر واقعی بقول پنجاب کے علیم خان کے " چول " ہیں‘ خیر ہم تو چول نہیں کہہ سکتے یہ ان کے اپنی پارٹی کے لیڈر کی بات ہے جو اب منخرف ہو چکے ہیں لیکن یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے معاملے میں اللہ میاں کے گائے ہیں‘ انہیں بیورو کریسی جو کرنے کو دیتی ہیں اسی پر دستخط کرتے ہیں آگے پیچھے دیکھنے کی شائدان کے پاس وقت نہیں کہ پتہ کرے کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں کتنے افسران و اہلکاروں کی کمی ہے اور کتنے ایسے اہلکار جو بیورو کریسی کے ناک کے بال بن کر دو دو جگہوں پر ڈیوٹی کررہے ہیں‘ ان کی پسند کی جگہوں پر لوگوں کے تبادلے بھی کروائے جاتے ہیں کیونکہ نئے آنیوالے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو بھی انڈسٹریز کی طرز پر چلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں. غریب کھلاڑیوں کے پاس تو عزت نفس ہوتی ہیں اگر ان کے پاس عزت نفس بھی نہ ہو نہ ان کے مسائل حل ہوں تو پھر سپورٹس کو ان لوگوں نے چاٹنا ہے کیا‘ ویسے بھی وہ سپورٹس جس کے کھیلوں کے ڈیپارٹمنٹس کو " ایک آمر "نے صرف اس لئے بند کرنے کے احکامات دئیے ہیں کیونکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں ووٹ لینا ان کیلئے مسئلہ تھا. بات کہیں اور نکل گئی غریب عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ان افسران سے پوچھنے کی کوئی جرات کرسکتا ہے کہ گذشتہ دو سالوں کی کارکردگی کیا تھی‘ پرانے ڈی جی نے کتنا کام کیا‘ ڈویلپمنٹ کی مد میں‘ کھیلوں کی مد میں‘ اور نئے ڈائریکٹر جنرل کی کارکردگی کیا ہے‘ مستقبل کیلئے کیا منصوبے ہیں کیا ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے بڑے بڑے افسران صرف تنخواہیں لینے پر ہی قادر ہیں.‘ گذشتہ چار ماہ سے تو سوائے تبادلوں کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کچھ بھی نہیں‘ وہ بھی مخصوص شخصیت کے کہنے پر‘ جس میں ڈیرہ کے حلوے کا بڑا کردار ہے‘ اور وہ بھی آدھے تبادلے‘ کیونکہ بیشتر تبادلوں کے احکامات پر کوئی عملدرآمد کرنے کو تیار نہیں‘ ہاں یہاں پر فارمولہ زیادہ کارگر ہے‘ پہلے تو دبانے کی کوشش کرو اگر کوئی نہیں دبتا تو خود ہی دب جاؤ‘ بس یہی مثال اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی ہے‘

سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی مثال اس گائے جیسی ہوگئی ہے جو دودھ تو دیتی ہے مگر صرف مار کھانے کے بعد‘ اور اگر کوئی بغیر مار دئیے اس سے دودھ دوہنے کی کوشش کرے تو پھر گائے دودھ دوہنے والوں کو لات مارتی ہیں یہ مثال اس لئے دی ہیں کہ کم وبیش سترہ مختلف کھیلوں کیلئے بننے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے ہیڈ کوارٹر کی آمدنی کتنی ہے اس کا حساب کسی کے پاس نہیں‘ کھلاڑیوں سے مینوئل طریقے سے لی جانیوالی فیس کہاں جاتی ہیں اور کیا اس سے پیدا ہونیوالی آمدنی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کافی ہے یہ وہ سوال ہے جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے بڑے بڑے جغادری بھی دینے سے گریزاں ہیں‘حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کی آمدنی مختلف ادوار میں کتنی رہی‘ اب کتنی ہے‘ سپورٹس ڈائریکٹریٹ پشاور صدر کی آمدنی اس سے قبل کتنی تھی اور کس کس کھیل میں کتنی رقم مینٹیننس کی مد میں نکالی گئی اور ہضم کی گئی یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں‘ کس کس افسر کو کونسی گاڑیاں دی گئی اور ڈیپارٹمنٹ سے جانے کے بعد پراجیکٹ کی کونسی گاڑیاں کب تک افسران اور ان کے اہلخانہ استعمال کرتے رہیں یہ بات او ر معلومات دینے کو کوئی تیار ہی نہیں.اور اگر رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت درخواست بھی دی جائے تو اول تو درخواست ہی غائب کرائی جاتی ہیں یا پھر مہینوں بعد ڈنگ ٹپاؤ پالیسی والے جوابات دیکر جان چھڑائی جاتی ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر مستقبل میں انہیں اپنے "کئے کرائے جانیوالے کرتوتوں " کے سامنے آنے کا ڈر ہوتاہے.اس لئے گریڈ سولہ سے اوپر بیٹھے افراد اپنی مستقبل کی خاطر آنکھیں بند کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں. ویسے اگر وزیراعلی خیبر پختونخواہ خود کسی دن بیٹھ کر اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کی کھلی کچہری کروائیں اور اس میں تمام ایسوسی ایشنز‘ کھلاڑیوں‘ آفیشل اور صحافیوں کو موقع دیں تو انہیں لگ پتہ جائے‘ کہ اس بہتی گنگا میں کون کون نہار ہا ہے اور کون کون ڈبکیاں لگا رہا ہے اور کونسے صحافی نے پی آر شپ کی مد میں لاکھوں روپے لیکر خاندان کو باہر بھجوا دیا‘ کس نے اپنے میگزین کے پیڈ پر پیسے لیکر نیٹ کیفے کے مالک کو صحافی دکھا کر باہر بھجوا دیا اور کون کون سی ایسوسی ایشن کھیلوں کی آڑ میں انسانی سمگلنگ میں مصروف عمل ہے‘ ساتھ میں جعلی ایسوسی ایشنز کے نام پر لاکھوں روپے نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ بلکہ پاکستان سپورٹس بورڈ بھی نکالے.


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421901 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More