تحریک عدم اعتماد ۔۔کڑا امتحان

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد سیاسی ہلچل میں اضافہ ہو گیا ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے ۔۔تبدیلی سرکار نے مختلف پارٹیوں کے ناراض کارکنان کو ملا کرجو کنبہ جوڑا تھا کہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑاتھا وہی اینٹیں اورروڑے واپس لڑھک رہے ہیں ۔ان کا مؤقف ہے کہ وہ سرکار کی پالیسیوں اور من مانیوں سے بیزار ہوچکے ہیں یقینا ایسا تبھی ہوتا ہے جب ذاتی مفادات پر ضرب پڑے ۔ وزیراعظم نے ایسے منحرف ارکان کو غدار وطن کا لقب دیکر ان کے خلاف کاروائی کا حکم دے دیا ہے جبکہ یہی وہ ارکان ہیں جنھیں 2019 میں حصول اقتدار کے لیے گلے لگاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے ضمیر جاگ گئے ہیں۔ عوام کو یہ کہہ کر مطمئن کیا گیاکہ میں فرشتے کہاں سے لاؤں لیکن میری قیادت میں یہ ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے ۔۔نہ ہی وہ بدلے نہ عوامی حالات بدلے البتہ ان کی وفاداریاں پھر بدل گئیں ہیں تواب سخت ایکشن کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ناچنے کو سب تلے ہیں ڈگڈگی کی بات ہے ،نوٹوں کی بوریاں ہیں اور بیرونی سازشیں ہیں ۔۔

ابھی کل کی بات ہے کہ جہاز میں اراکین لائے جاتے تھے اور پی ٹی آئی سپوٹرز دھمال ڈالتے تھے کہ کپتان نے ایک اور وکٹ گرا دی ۔سینٹ الیکشن میں اپوزیشن اتحاد نمبر گیم میں سب سے آگے تھا لیکن صادق سنجرانی نے یوسف رضا گیلانی کو شکست دے دی تھی جس پر اپوزیشن نے بہت واویلا کیا اور کہا گیا کہ ہارس ٹریڈنگ اورحکومت کیطرف سے خفیہ ووٹوں کی نگرانی کی گئی ہے لیکن حکومتی ترجمانوں نے یہی کہا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اس پر ہر خاص و عام بھی کہہ اٹھا تھا کہ ’’یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے ۔۔جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے ‘‘تو عرض ہے کہ ’’کوئی مست ہے ،کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے ۔۔مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے ‘‘ ! یہ تو ہونا تھا کیونکہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد قربان کرتے ہوئے نظریاتی کارکنان کو نظرانداز کر کے موقع پرستوں کو ساتھ بٹھا کر کہا گیا کہ ’’بس آپ نے گھبرانا نہیں ‘‘پھر تبدیلی سرکار اندرونی اختلافات میں ایسی گھری کہ و زارتوں کی تبدیلیوں کو ہی تبدیلی سمجھا ۔ ارد گرد بیٹھے خوشامدیوں نے بھی نہیں بتایا کہ کاغذ کی ناؤ سدا نہیں بہتی یقینا پرانے کھلاڑیوں نے ہواؤں کے رخ کو بھانپ لیاہے اورتبدیلی کی ڈوبتی ناؤ سے چھلانگیں لگانی شروع کر دی ہیں ۔یوٹرن کوقائدانہ صلاحیتیں کہنے والے اپنے ساتھیوں کے یوٹرن سے گھبرا گئے ہیں

تحمل اور بردباری کی جگہ دشنام طرازی اور دھمکیوں نے لے لی ہے ،ممکنہ تصادم سے پہلے تصادم کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جو کہ جمہوریت کے لیے کسی طور بہتر نہیں حالانکہ سروے رپورٹس سے ثابت ہے کہ اس جمہوریت میں حکومتی پالیسیوں اور بیڈ گورننس کے باعث جمہور پریشان ہے جس کی پرواہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کونہیں بلکہ ملک میں جاری سیاسی دھما چوکڑی میں عوامی مسائل کو مکمل طور پر پس پشت ڈال دیا گیا ہے جبکہ ایسے گھمبیر حالات میں دوراندیشی سے کام لینا چاہیے تھا لیکن پی ٹی آئی قیادت معاملہ فہمی کی صلاحیت سے محرومی کے باعث معاملے کی نزاکت سمجھ نہیں پائی، ہمیشہ کی طرح جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور تیر کمان سے نکل گیا کہ اب کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ گھبراہٹ کا یہ عالم ٹھہرا کہ ووٹنگ سے پہلے ہی حکومت کے خلاف ووٹنگ کرنے والوں کا گھیراؤ کرنے کے لیے کارکنان کو سڑکوں پر نکال لیا ہے کہ ’’آؤ کرسی بچاؤ ‘‘ جبکہ دوسری طرف طاقت استعمال کر کے مخالفین کو خوفزدہ کرنے اور تیسری طرف اپوزیشن کو مذاکراتی ٹیبل پر آکر افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کی التجائیں کی جارہی ہیں اور ترجمان عوام کو باور کروا رہے ہیں کہ وزیراعظم نے چونکہ مغرب کے لیے دوٹوک مؤقف اپنایا ہے اسلیے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سبھی تبدیلی سرکار کے خلاف ہوگئے ہیں ۔عرض ہے کہ بھٹو سے موازنہ درست نہیں کیونکہ مرحوم کی قائدانہ صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا جبکہ سرکار سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔تبھی نہیں سمجھے کہ اقتدار کے کھیل نرالے ہیں اور شاہوں نے غلام گردشوں میں آستین کے سانپ پالے ہیں ۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں بہت سے چور دروازے ہوتے ہیں جن پر پہرے بھی نہیں ہوتے ۔تاریخ گواہ ہے کہ دروازوں اور مورچوں پر تعینات سپاہیوں کے ہتھیار ہتھیار دینے والوں کے اوپر ہی اٹھ گئے یا ایسے ہاتھوں میں آگئے کہ ان شاہوں کو بھی خبر نہ ہوئی جن کو سلطنت میں ہونے والی ہر سازش کی خبر رہتی تھی

یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کا سیاسی موسم کبھی بدلتا ہی نہیں جو بھی آتا ہے وہ نیا کچھ نہیں کرتا بایں وجہ دو تین سال بعد ہی عوام میں عدم اعتماد کی فضا پھیل جاتی ہے اور اپوزیشن سرکار گرانے کے لیے میدان میں پہنچ جاتی ہیں۔اس بار عدم اعتماد کی تیاری آصف زرداری نے کی ہے ورنہ دیگر جماعتیں اندرونی اختلافات میں اسقدر الجھی ہوئی تھیں کہ انھیں کچھ سوجھ نہیں رہا تھا چونکہ آصف زرداری تمام مہروں پر نظر رکھتے ہیں تبھی سندھ میں آج بھی انھی کی حکومت ہے ۔آجکل توجہ پنجاب پر ہے کیونکہ مائنس بزدار کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔ویسے توگذشتہ دو برس سے پی ٹی آئی ایم این ایز برملا کہہ رہے ہیں کہ انھیں خان صاحب کی پالیسیوں سے اختلاف ہے جو اب کھل کر سامنے آرہے ہیں جیسا کہ راجہ ریاض کے مطابق دو درجن ایم این ایز نے علم بغاوت بلند کر دیا ہے اور نواب شیر کا کہنا تھا کہ ہمیں گدھے ،گھوڑے اور بکاؤکہا گیا ہے ، ایک سیاستدان کو ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔ زبان تو حکومتی ترجمان ایسی استعمال کر رہے ہیں کہ لوگوں نے گھروں میں نیوز چینلز بند کروا دیے ہیں بالفرض اگر وفاداریاں بدلنے والے واقعی ملک و قوم کے مجرم ٹھہرے تو پھر پی ٹی آئی میں کون بچے گا؟باقی قیادت کوئی بھی آجائے لیکن منشور کرسی بچاؤ اور وقت ٹپاؤ مہم کے اردگرد ہی گھومے گا۔ یقینا تبدیلی سرکار کا معاملہ اور تھا انھوں نے خواب دکھائے پھر نیندیں ہی چھین لیں اسی لیے تحریک عدم اعتماد کی شکل میں حکومت کا کڑا امتحان شروع ہو چکا ہے اورقت ثابت کرے گا کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی آزمائش ہے یا سازش۔۔ !


 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90295 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.