کشمیر فائلز پر برٹش بورڈ آف فلم کے ساتھ خطوط کا تبادلہ

چند ہفتوں سے کشمیر فائلز نامی فلم اندرون و بیرون ملک ریاستی شہریوں کے درمیان بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ میں نے سوچا کہ کسی بحث میں حصہ لینے سے پیلے بہتر ہے متعلقہ ادارے کے ساتھ براہ راست رابطہ کیا جائے۔ میں نے برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن کے ایگزیکٹیو کو ایک خط ای میل کیا جس میں میں نے لکھا کہ کشمیری پنڈت ہماری سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ ان کے قتل یا ریاست بدری کی ہم قطعی حمایت نہیں کرتے لیکن اس سے زیادہ زیادتی سکھوں اور مسلمانوں کے ساتھ ہوئی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں تو صرف 1990 میں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ صرف ایک کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر یکطرفہ فلم بنانے کی کیا وجہ یے؟ دوسرا پورے بر صغیر میں ریاست جموں کشمیر مزہبی رواداری کی بہترین مثال تھی لیکن برطانیہ سمیت جن قوتوں نے مزہبی منافرت پھیلانے کی سازشیں کیں انکو بے نقاب نہیں کیا گیا۔

برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن نے انکار کیا کہ کشمیر فائلز کسی تعصب کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ یو کے میں پائی جانے والی سوچ کی عکاسی ہے۔ اس پر تحقیق کی گئی ہے۔ ہم اس طرح کی فلم بنانے سے قبل کم از کم دس ہزار افراد سے انٹرویو کرتے ہیں۔ بین السطور سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ فلم پس پردہ ایک خاص مہم کا حصہ ہے اور صاحب عقل اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مہم کون چلا سکتا ہے؟

برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن کے ایگزیکٹیو کی طرف سے میرے خط کے جواب کے جواب میں راقم نے انہیں ایک بار پھر پنڈتوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر پنڈتوں کو مسلمانوں نے مارا اور ریاست بدر کیا تو سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے سال 2000 میں بھارتی دورہ کے دوران چھٹی ہورہ میں درجنوں سکھوں کو کس نے مارا اور تیس سال قبل ایک پورے گائوں کی مسلمان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی جس بھارتی فوج نے کی وہ آپ کیوں بھول گے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ آپ تعصب اور جنسی زیادتی کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔

یہ تو ہے برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن کے ساتھ قلمی بحث لیکن یہاں ہمیں اپنی ناکامیوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ ہم اصل میں صرف ایک شکائتی کمیونٹی بن گے ہیں۔ دوسرے جب کامیابی سے ہمارے خلاف کوئی ایکشن کر جاتے ہیں تو پھر ہم چند دن شور شرابہ اور شکایات کر کے پھر کسی دوسرے واقعہ تک مست نیند سو جاتے ہیں۔ ہماری اپنی کوئی مستقل اور مشترکہ پالیسی اور کارگزاری نہیں۔ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو ہم کسی بھی عالمی پلیٹ فارم پر اجاگر نہیں کر پاتے کیونکہ ہمیں آپسی بحث مباحثے اور جھگڑوں سے فرصت نہیں ملتی۔ ہمیں جہاں دنیا سے مخاطب ہونے ہوتا ہے وہاں ہم ایک دوسرے سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں۔ یوکرین نے ایک ہفتہ میں دنیا بھر میں بیداری کی جو موثر مہم چلائی وہ ہم 75 سالوں میں نے نہیں چلا سکے۔ یوکرین کے پروفیسرز، وکلاء ، صحافی اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ دوسرے ممالک کے ہم منصبوں اور شعبوں کے ساتھ ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رابطے میں ہیں لیکن ہمارے سرکاری ادارے صرف تنخواہ کے لیے نوکری کرتے ہیں۔ دنیا کی حمایت کے لیے دنیا تک اپنا موقف پہنچانے کی ضرورت یے۔ اس کے لیے اپنے قدموں سے نظریں اٹھا کر تھوڑا آگے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

 

Qayuum Raja
About the Author: Qayuum Raja Read More Articles by Qayuum Raja: 55 Articles with 41445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.