تمہاری بہو جب دیکھو میکے میں پائی جاتے ہے... دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنے والے اپنے ساتھ کس کس کا نقصان کرتے ہیں؟

image
 
آپا تمہیں تو بہو کو سنبھالنا ہی نہیں آتا۔ ابھی بھی مہمان آئیں تو تم ہی مہمانوں کی تواضع کرتی ہو تمھاری بہو کہاں غائب رہتی ہے۔ جہاں آراء بیگم اپنی بہن کی بات سے تھوڑی شرمندہ ہو گئیں بولیں ارے کافی دنوں بعد میکے گئی ہے کل آجائے گی۔ خالہ تنک کر بولیں تم باتیں چھپایا نہ کرو ابھی میں پچھلے ہفتے آئی تھی تب بھی تمھاری بہو بیگم غائب تھیں۔ تم ہمیں اپنا سمجھو تو دکھ بانٹو ناں ۔ پتا نہیں تمھاری ہی ہمت ہے اتنی بدتمیز بہو کو سر چڑھایا ہوا ہے۔
 
اب جہاں آراء بیگم کو بھی ذرا غصہ آیا، ضروری تو نہیں کہ ہر ہفتے اپنے میکے جائیں سسرال کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بس انھوں نے غصے میں اویس کو آواز دی کہ بیٹا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، تم لوگوں کو میرا کوئی احساس ہی نہیں فورا جاؤ بہو کو لے آؤ مجھ سے نہیں ہوتے یہ گھر کے کام بڈھی ہو گئی ہوں ۔ خالہ کی تو خوشی کی انتہا نہیں تھی ان کی آنکھیں چڑھ گئیں اویس سے بولیں کہ میں آپاکے پاس بیٹھی ہوں ان کی طبیعت صحیح نہیں تم جلدی سے جا کر اپنی بیوی کو لے آؤ خیال رکھا کرو اپنی ماں کا وہ بھی تو تمھاری زمہ داری ہیں ۔ ۔۔۔۔اویس جانتا تھا کہ خالہ کو سوائے دوسروں کے گھر میں دخل دینے کے کوئی کام نہیں اپنے بیٹا بہو تو سنتے نہیں اور نہ ہی وہ اپنے گھر کی بات باہر نکالتی ہیں۔
 
شاید اس طرح کے بی جمالو کردار ہر خاندان میں پائے جاتے ہیں جن کے اندر تجسس بھرا ہوا ہوتا ہے یہ لوگ اپنی زندگی کے بجائے دوسروں کی زندگیوں میں ٹانگ اڑاتے ہیں اور دوسروں کے گھروں میں جھگڑے کروا کر ایک خوشی محسوس کرتے ہیں اور پھر اس جھگڑے کا پرچار پورے خاندان میں کرتے ہیں ۔ان کو چٹ پٹی باتوں کا مواد مل جاتا ہے جو وہ مرچ مسالحہ لگا کر آگے بڑھاتے ہیں۔ اور بالآخر اس طرح کے لوگوں سے عموماً سمجھدار لوک کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں بھلا کیا عزت رہ جاتی ہے ان لوگوں کی !!!!
 
image
 
لوگوں کا اپنی زندگی سے زیادہ دوسروں کی زندگیوں میں دلچسپی لینا بہت عام ہے۔ ’’انہوں نے کیا کیا؟‘‘ ’’وہ یہاں کیوں آئے؟‘‘ ان کے ساتھ آنے والا شخص کون ہے؟ شوہر خیال رکھتا ہے کہ نہیں؟ ان کو بس اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ میاں بیوی میں کچھ ان بن چل رہی ہے۔
 
یہ سب سے عام سوالات ہیں جو ان لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں جو دوسروں کے معاملات اور زندگیوں کے لئے زیادہ فکر مندی ظاہر کرتے ہیں۔ ہم ایک معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہر فرد اپنے اعمال اور فیصلے کرنے کا حق رکھتا ہے۔ وہ یہ فیصلے کسی سے منظوری لینے کے لیے نہیں کرتے وہ صرف اپنی روزمرہ کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
 
آئیے ایک شخص کی زندگی کے پہلے مرحلے سے شروع کرتے ہیں۔ اسکول کے دنوں کے بعد اگلا مرحلہ اعلیٰ تعلیم کا ہے۔
 
 ہم جانتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے دوران کئی ٹیسٹ دینے پڑتے ہیں ان کے نتائج کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس انتظار کے دوران کچھ لوگ ہوتے ہیں جو طالب علم کی زیادہ فکر کرتے ہیں۔ ’’وہ گھر پر کیوں بیٹھا ہے؟‘‘ ’’کیا اس کا اپنے ٹیسٹ میں اسکور اچھا نہیں تھا ؟‘‘ ’’باقی تمام طلبہ نے مختلف کالجوں میں داخلہ لے لیا وہ ان میں سے کسی کے لیے اہل کیوں نہیں؟‘‘
 
یہ تمام سوالات پورے خاندان اور محلے میں پھیل جائیں گے اور اس علاقے کی پنچایت تک بھی پہنچ جائیں گے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ لوگوں کو ان باتوں سے کیا مطلب ہے وہ اس طالب علم اور اس کے خاندان کو کیوں پریشان کرتے ہیں؟ کیا ان کو اس طرح تنگ کرنے کی ضرورت ہے؟ کس قدر ذہنی کوفت کا باعث بنتے ہیں یہ تجسس پسند لوگ جومعاشرے میں ڈپریشن پھیلانے کا وائرس بنتے ہیں۔
 
image
 
اس کے بعد اگلا مرحلہ کسی معروف کمپنی میں اچھی ملازمت حاصل کرنا ہوگا۔ تاہم اگر وہ شخص نوکری تلاش کرنے سے قاصر ہے تو لوگ اس شخص کے بارے میں کئی سوالات اٹھائیں گے جیسے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ وہ ہوشیار نہیں ہے۔ ایسی افواہوں کی وجہ سے انسان مزید ڈپریشن میں چلا جاتا ہے۔
 
جب اس شخص کو آخر کار نوکری مل جاتی ہے لوگ اب انکی شادی کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں۔ 'وہ شادی کیوں نہیں کر رہا ہے؟' 'کیا اس میں کوئی مسئلہ ہے؟' لوگ یہ سوالات اٹھاتے ہیں اور وہ یہ افواہ اڑا سکتے ہیں کہ اس شخص کے کچھ "غیر اخلاقی تعلقات" ہیں. ایسی افواہیں اس انسان کی زندگی کو بعد میں متاثر کرتی ہیں۔
 
موجودہ حالات میں مرد اور عورت دونوں کو معاشرے کی طرف سے بہت زیادہ تنقید اور ہراساں کیے جانے کا سامنا ہے۔ لوگ اپنے کام سے کام رکھنے کے بجائے اس شخص کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ افواہیں بھی ہوسکتی ہیں۔
 
 اب ایک بار جب وہ شخص شادی شدہ ہو جائے گا تو معاشرے کو یہ مسئلہ درپیش ہو گا کہ وہ خاندان کیوں نہیں شروع کر رہے وہ اس طرح کے سوالات اٹھا سکتے ہیں کہ وہ خاندان شروع کرنے کا منصوبہ کیوں نہیں بنا رہے؟' 'کیا ان دونوں میں کوئی مسئلہ ہے؟وہ ڈاکٹر سے مشورہ کیوں نہیں کر رہے؟' عام طور پر یہ سوال بڑی عمر کے لوگ کرتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی وہ دوسرے کے لئے اتنے فکرمند ہوتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ جوڑے کا فیصلہ ہے اور رازداری ان کا حق ہے؟
 
اس طرح کے لوگوں سے ہی دراصل معاشرے میں زیادہ سماجی مسائل ہوتے ہیں ۔ اور لوگوں کا رویہ معاشرے کو بناتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دوسروں کی مدد نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ ان کے لئے پریشانی کا باعث بھی نہ بنیں ۔ تجسس شیطان کی خصلت ہوتی ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف انتشار ہے۔ یہ نہ صرف دل آزاری کا سبب بنتا ہے بلکہ بعض اوقات خاندانوں کو توڑنے کا بھی کردار ادا کرتا ہے۔
 
ہم عالمگیریت اور تکنیکی عروج کے دور میں رہ رہے ہیں لوگ پہلے کی طرح اب نہیں سوچتے ہیں ۔ حالات بدل گئے ہیں اور لوگوں کے رویوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔
 
ہر شخص کی اپنی زندگی ہے اسے زندہ رہنے اور اپنے طور پر زندگی گزارنے کا حق ہے معاشرے کو یہ سیکھنا چاہیے اور انھیں تنہا چھوڑ دینا چاہیے۔ دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرنے اور وہاں انقلاب برپا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسروں کی زندگی مداخلت کرنے والے لوگ اپنا شخصیت تو خراب کرتے ہی ہیں ساتھ میں خاندان کے خاندان اجاڑ دیتے ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: