قلم شگوفیاں ۔جوتوں میں دال بانٹنا

عسکری زندگی کے شب وروز سے ایک شگفتہ یاد

جوتوں میں دال بانٹنا
مئی ١٩٨٧ کی ایک گرم دوپہر کو اس نوجوان نے آرمی جوائن کی۔ضروری فوجی کٹ کے ساتھ اسے سرکاری بوٹ ملے Boot DMS جسے ڈبل مولڈڈ سول کہا جاتا تھا ۔ جس میں ٹخنے اور پنڈلیاں تک چھپ جاتی تھیں۔ ہر نئی چیز کی خوشی ہوتی ہے۔اس نے وہ بوٹ جلدی جلدی پہنے ۔ تمسے باندھے اور چلنا شروع کر دیا۔

کوئی نصف گھنٹہ بعداسے احساس ہوا کہ پاۓ نازک تو کسی شکنجے میں پھنس گئے ہیں۔ انگوٹھا ، ایڑیاں اور پنڈلیوں کا وہ حصہ جس سے بوٹ کے اوپر والے کنارے ایک مسرور سا لمس دے رہے تھے وہاں درد اور سرخی کے اثار نمودار ہیں۔ اور ابوہاں باقاعدہ زخم بننے کو ہیں۔

اس نے ڈرتے ڈرتے مسئلہ استاد کے گوش گزار کیا۔ انہوں نے اسے خوب ڈانٹا اور قدرے غصے میں غراتے ہوۓ بولے۔ ہاں کیا جلدی تھی۔ محاذ پر جا رہے تھی کیا۔ کیا باڈر سے آخری جوان کی ڈیڈ بادی آ گئی تھی جو تجھے یک دم تیار ہونا پڑا۔ چارو ناچار اسے یہ لیچکر بھی سننا پڑا۔

پھر استاد نے سب جوانوں کواکٹھا کیا گیا اور باقاعدہ فوجی بوٹ کو نرم اور قابل استعمال بنانے کے دو گر بتاۓ گۓ۔ جن میں پہلا طریقہ تھا کہ صابن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے بوٹوں میں ڈال کر پانی سے بھر دیئے جائیں۔ اور کم از کم چھ سے آٹھ گھنٹے بعد ان کو ہلکا ہلکا دھو کر خشک کیا جاۓ۔

مگر صابن میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے پاؤں خراب ہونے کا خدشہ رہتاہے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مجھ سے راشن سٹور پر آ کر چنے کی دال لے جاؤ۔ تقریباً ایک ایک پاؤ دال ہر بوٹ یعنی ادھا کلو فی جوڑا۔ بوٹوں میں ڈال کر پانی سے بھر دیں۔ اور پوری رات کے لئے چھوڑ دیں۔ صبح اٹھ کر ان سے دال پانی نکال دینا ہے۔ اور نیم خشک یعنی اسی وتر میں اچھی طرح پالش کر لینے ہیں اور پھر پالش کر کے دھوپ میں رکھنےہٕیں۔

استاد کا لیکچر سننے کے بعد وہ سوچنے لگا کہ جس کام کو اتنا آسان سمجھ بیٹھا تھا۔ وہ تو پورا لیبارٹری پراسس ہے۔یوں ان سب ساتھیوں نے زندگی میں پہلی بار جوتیوں میں نہیں باقاعدہ سرکاری بوٹوں میں سرکاری دال بانٹ کر اردو کے اس محاورہ کی لاج رکھ لی۔ اب وہی بوٹ تھا نرم اور ملائم اتنا کہ اتارنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے
نازکی اس بوٹ کی کیا کہیۓ
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بلکہ بات اس سے بھی زرا آگے نکل چکی تھی۔ لگتا تھاکہ پاؤں گلقند میں ہے۔
 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 24 Articles with 14997 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.