ادبی محفل "سرائے اردو“ کا سفر نامہ مقابلہ

فیس بک ادبی محفل سرائے اُردو ایک ایسی محفل ہے جس میں دنیا بھر سے اردو ادب سے محبت کرنے والے لوگ شامل ہو رہے ہیں اور وقت کے ساتھ سرائے اُردو فورم دنیائے اُردو کے حلقے میں اپنی ایک خاص شناخت بنا رہا ہے۔ کئی نامور ادیبوں اور نئے قلم کاروں کی شمولیت کی وجہ سے اس کے ممبران کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز ہوچکی ہے۔ یہ ممبران اس بات کے گواہ بن چکے ہیں کہ سرائے اُردو کی محفل ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

اگر اس محفل سے اُبھر کر سامنے آنے والے چند نئے قلم کاروں کی بات کی جائے تو راقم السطور کے علاو ہ، فاکہہ قمر، عیشاء صائمہ، حمیرا علیم،دانیال حسن،عرفان حیدر،نیلم علی راجہ اوربینش احمدکے نام قابل ذکر ہیں۔سرائے اُردوکو راقم الحروف اپنا گھر مانتا ہے جہاں سے نہ صرف اْسے بہت کچھ سیکھنے کو ملا بلکہ بہت زیادہ حوصلہ افزائی بھی ملی۔ جو آج کل کے دور میں بہت مشکل کام سمجھا جاتا ہے۔ ایڈمن گروپ بخاری صاحب کی شفقت سے ان کی قیادت میں سرائے اردو گروپ کے پلیٹ فارم سے ماہ نامہ سرائے اردو،بہاول نگر جیسا معیاری آن لائن رسالہ بھی ہر ماہ کامیابی سے چل رہا ہے۔اس کی چند ذمہ داریاں راقم الحروف کے سپرد بھی ہیں۔سرائے اُردو کے ممبران کی تعداد 10 ہزار سے بڑھ چکی ہے جس پرمیں جناب ذوالفقار علی بخاری اور دیگر انتظامی ارکین کومبارک باد دیتا ہوں۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف،سرائے اُردو کی محفل میں حال ہی میں سفرنامہ لکھنے کے حوالے سے ایک مقابلے کا انعقاد کروایا گیا ہے۔ اس مقابلے میں پیش کی جانے والی تحریروں کو دورحاضر کے بہترین سفرنامہ نگار جناب عمر فاروق عارفی صاحب نے پڑھ کر پانچ بہترین تحریروں کو انعام یافتہ قرار دیا۔بقول عارفی صاحب ”سفر کرکے لکھا جائے تو یہ تو ایک سعادت ہے، نعمت ہے، سفرنامہ نگارکو سیر کرنے کے بعد لکھتے ہوئے کئی دفعہ ان وادیوں، ساحلوں، دیہاتوں، شہروں میں جانا پڑتا ہے اور بار بار وہاں جھانکنا پڑتا ہے، قصہ مختصر سفرنامہ نگار لکھتے ہوئے بھی سفر میں ہوتا ہے جیسے ایک نہر میں سے پانی گزرتا ہے تو پانی محض اس نہر سے نہیں گزر رہا ہوتا بلکہ آس پاس کی زمین کو سیراب کررہا ہوتا ہے، یہ گزرتا ہوا پانی نہر کنارے پہ اْگے درختوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ایسے ہی ایک سفرنامہ نگار سفر کے دوران اپنے اردگرد کی چیزوں پہ نظر بھی رکھتا ہے اور ان کو حصہء تحریر بھی بناتا ہے، آس پاس کی چیزیں اور مناظر اس کے سفرنامے کے لوازمات میں شامل ہوتے ہیں، اسی بنیاد اور دلیل پہ میرے نزدیک اچھے سفرنامہ نگار کا یہ کمال ہے کہ وہ کبھی بھی اکیلا سفر نہیں کرتا بلکہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر اس کو اپنے ساتھ ساتھ سیر کرواتا ہے۔“

آپ سب جانتے ہیں کہ جیتنا واقعی ہی ایک بڑا اعزاز ہے لیکن مقابلے میں حصہ لینا اس سے بھی ایک طرح کا بڑا اعزاز ہے، کیوں کہ میدان میں اْترنے سے آپ کی صلاحیتیں اور نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بڑی تعداد میں قلم کاروں کی شمولیت نے یہ ثابت کیا ہے وہ سفرنامہ لکھنے کے حوالے سے اپنے آپ کو اہل سمجھتے ہیں جو کہ ایک مثبت طرز فکر ہے۔ اس مقابلے میں کل 53 قلم کارؤں نے حصہ لیا جو کہ اب تک کے سرائے اُردو میں کرائے جانے والے مقابلوں میں تعداد کے اعتبار سے دوسرا بڑا مقابلہ ہے۔جن قلم کاروں نے اس مقابلے میں حصہ لیا ان میں بنت محمود،حمیرا علیم،ظل ہما،علیشہ چوہدری،صبا اظہر،رضوان الحق زین،وقار احمد،ناہید گل،بینش احمد،مظہر گھائل،جویریہ صدیقی،ثمرہ شوکت،آرسی روف،اقرا یونس،عینی ملک،رحاب صفی،سرتاج احمد،
طاہرہ کلثوم،عبدالحفیظ شاہد،پروانہ ہمت علی شاہ،وسعت اللہ خان،
عطاء السلام سحر،زوبیہ بٹ،محمد حسنین،وسیم عباس،شمائلہ نورین قمر،
عائشہ آصف،امن ارشد،انجم عروج،سیدہ حفظہ احمد،محمد واثق نور،
کنیز باھو،مہوش اسد شیخ،ایم تجمل بیگ،انور مختار،عثمان یاسین،
سحرش اعجاز،خدیجہ محسن،آسیہ فاطمہ،رقیہ بنت امیر،محمد معاویہ نایاب،صدف جاوید،اسماء عامر،نیلم علی راجہ،اقراء شفیع،مایا خان،
بیگم سیدہ ناجیہ شعیب،وشاح محمود،راشدہ،ارسلان اللہ خان،
ثمرین مسکین،سحرش شامل ہیں۔
اس مقابلے کی انعام یافتہ تحریریں جن احباب کی منتخب کی گئیں ان کے نام درج ذیل ہیں۔
1: زوبیہ بٹ
2:اقراء یونس
3:نیلم علی راجہ
4:ظل ہماء
5عطاء السلام سحر

راقم الحروف جیتنے والوں کودل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے۔ان سب کو جناب عمر فاروق عارفی صاحب کا نیا سفرنامہ " پربتوں کے راہی"دیا گیا ہے جبکہ دیگر شرکا کو اسناداورخصوصی انعامی کتب دی گئی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ سرائے اُردو یونہی ادب کے فروغ کے لئے مقابلے کرواتا رہے گا۔
مقابلے کے اختتام پر محترمہ قانتہ رابعہ کی رائے سب کے لئے بے حد مسرت بخش ثابت ہوئی ہے آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔

”مجھے بہت خوشی ہے کہ میری فیس بک کی سات ماہ کی زندگی میں یہ بہت زبردست اور حیران کن مقابلہ تھا۔ لوگوں نے جس جوش و خروش سے اس مقابلہ میں حصہ لیا اور اپنے غمی خوشی کے سفر کی روداد اپنے اپنے انداز میں لکھی،وہ اردو ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خوش آیند ہے۔میں نے کافی شرکاء کے سفر ناموں کی روداد پڑھی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ لوگ اس مقابلے کے ذریعے سے ایک مثبت سرگرمی میں مصروف رہے، کچھ تحریروں پر اعلی ادبی ذوق رکھنے کا گماں ہوا کچھ کو مزید محنت کی ضرورت ہے۔سب کی تحریروں کا انداز الگ تھا سب کا مواد اور انداز بیان بھی الگ تھا۔بات انعام کی نہیں بات لوگوں میں اپنے جذبات اور خیالات کو قلمبند کر نے کے لیے آپ کی بہترین مساعی کی ہے، انعام لینے والوں کو لکھنے کی مزید تحریک ملے گی یہ بھی آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا۔ یہ(سرائے اُردو) ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جس پر لوگوں نے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا،میری طرف سے بہت مبارکباد۔“
تحریک برائے بچوں کا ادب کے روح رواں جناب محمدجعفرخونپوریہ نے اس مقابلے کی تمام تحریروں کو کتابی صورت میں لانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو یقینی طورپر سفرنامہ پڑھنے کے لئے ایک بہترین کتاب ثابت ہوگی۔

بہرام علی وٹو
About the Author: بہرام علی وٹو Read More Articles by بہرام علی وٹو: 2 Articles with 719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.