سپورٹس ڈائریکٹریٹ ، کوچ تشدد ، ذمہ دار کون


ایڈمنسٹریٹر مردہ باد ، پشاور سپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ مردہ باد کے نعرے لگانے والے کم و بیش دس سے بارہ افراد مختلف ڈیپارٹمنٹ کے اتھلیٹکس کے کھلاڑی ہیں جنہوں نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں واقع ٹریک پر انہیں پریکٹس کرنے سے منع کرنے پر نعرے بازی کی اس کی وجہ بھی یہی بتائی گئی کہ انہوں نے ایک روز قبل سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اتھلیٹکس کے کوچ کو تھپڑ مارے ، اس کی بے عزتی کی.جبکہ دوسری طرف ان کھلاڑیوں کا موقف ہے کہ انہیں کوچ نے تھپڑ مارا اور ان کی بے عزتی کی گئی.بعد میں یہ معاملہ گرائونڈ میں کھیلنے والے افراد کی وجہ سے رفع دفع ہوا لیکن پھر لان ٹینس کے کھلاڑی اپنے ساتھی کیساتھ آئے اور انہوں نے پھر تلخ کلامی کی جس کی اطلاع ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ملی جو اس وقت پشاور سپورٹس کمپلیکس کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے.جنہوں نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر نئے قائم مقام ایڈمنسٹریٹر سے انکوائری کی ہدایت کی.کیونکہ پشاور سپورٹس کمپلیکس کے ایڈمنسٹریٹر عمرہ کرنے گئے ہیں.

پشاورسپورٹس کمپلیکس میں آنیوالا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل کم و بیش ایک سال قبل بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اتھلیٹکس کے کھلاڑیوں نے سٹیڈیم کے اندر احتجاج کرتے ہوئے انتظامیہ مردہ باد کے نعرے لگائے ، جس پر سابق ڈائریکٹر جنرل نے ایڈمنسٹریٹر پشاور سپورٹس کمپلیکس کو حیات آباد ٹرانسفر کردیا جبکہ واقعے میں غفلت برتنے اور کھلاڑیوں کا ساتھ دینے کے الزام میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اتھلیٹکس کوچ کو بھی کوہاٹ ٹرانسفر کردیا ، ایڈمنسٹریٹر پشاور سپورٹس کمپلیکس تو حیات آبادتبدیل ہوگئے ، جبکہ اتھلیٹکس کے کوچ نے کوہاٹ میں ڈیوٹی انجام نہیں دی اور وہ پشاور میں ڈیوٹی انجام دیتے رہے. بقول ان کے انہوں نے مستعفی ہونے کا کہا تھا جس کے بعد انہیں پشاور میں ہی کام کرنے کا کہا گیا اور وہ پشاور میں ہی کام کرتے رہے.

سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پیش آنیوالے احتجاج کے بارے میں بات کرنے سے قبل ذہن میں لازمی رکھنے کی بات ہے کہ کھیل کھلاڑیوں میں برداشت کا باعث بنتا ہے ، اس کے باعث مقابلے کا رجحان پیدا ہوتا ہے خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پیش آنیوالا یہ دوسرا واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کھیلوں سے وابستہ افرادمیں کتنی برداشت اور صبر ہے اس واقعے سے کم و بیش پانچ دن قبل پشاور سپورٹس کمپلیکس میں اتھلیٹکس کے ہیڈ کوچ کو ڈائریکٹر جنرل نے ایک اعلامیے کے بعد چارسدہ کے عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس میں بھیج دیا جہاں پر اتھلیٹکس کے کھلاڑی سرے سے ہی نہیں ، ان کی غیر موجودگی میں یہ واقعہ پیش آیا .

ایک دن قبل پیش آنیوالے واقعے میں غلطی کس کی ہے ، ڈیپارٹمنٹ کے کھلاڑی کی ہے یا پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچ کی ، یہ پہلا سوال ہے جبکہ دوسرا سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک دوسرے کھیل کے کھلاڑیوں نے دوسرے گرائونڈ پہنچ کر واقعے کو مزید تلخ بنا دیا.جس کے باعث پشاور سپورٹس کمپلیکس میں آنیوالے عام افراد اور کھلاڑی بھی خوف و ہراس کا شکار ہوگئے.سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اتھلیٹکس گرائونڈ میں پرائیویٹ کوچنگ ممکن ہے ، کیونکہ بعض ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ اصل معاملہ پرائیویٹ کوچنگ کا ہے ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکار اگر پرائیوٹ کوچنگ کررہے ہیں تو ڈیپارٹمنٹ کے کھلاڑیوں نے بھی کوچنگ کا آغاز کردیا ہے اب اسے انتظامیہ کی نااہلی کہیے یا پھر ایڈمنسٹریٹر پشاور سپورٹس کمپلیکس کی پشت پناہی کی کہ کس طرح گرائونڈ میںمختلف ڈیپارٹمنٹس سے وابستہ کھلاڑیوں کی کوچنگ کروائی جارہی ہیں اس عمل میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین بھی ملوث ہیں اور کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ڈیپارٹمنٹ کے ملازم جہاں پر وہ اتھلیٹکس کے کھلاڑی ہو اور انہیں اس بات کی تنخواہیں ملتی ہوں وہ سرکاری زمین پر پرائیویٹ کوچنگ کرکے الگ سے اتھلیٹس سے پیسے وصول کریںجبکہ سہولیات تمام تر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی استعمال ہورہی ہو. کیوں کہ سوائے چند کھلاڑیوں کے بیشتر کھلاڑی مختلف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کھیل رہے ہیں. دوسری طرف کھلاڑیوں کی بھی عزت نفس ہوتی ہے .

کیا کھلاڑی کے ڈیپارٹمنٹ میں جانے کے بعد یہ ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کی جسمانی تربیت کیساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کریں اور انہیں ا س بات کا پابند بنائیں کہ وہ کھیل کے میدان میں کھلاڑی کی طرح رہیں گے اور " سٹریٹ فائٹرز " کی طرح کوچنگ کرنے والے اساتذہ کو مارپیٹ نہیں کرینگے. ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کی تربیت کیلئے الگ وقت اور دورانیہ مقرر کرے ساتھ میںسپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ادائیگی بھی کرے جہاں کی سہولیات سے ان ڈیپارٹمنٹ کے کھلاڑی مستفید ہورہے ہوں. لیکن ان سب معاملات پر خاموشی اور تربیت دینے والے کوچ پر تھپڑ مارنے والے واقعے کے بعد دو ہی صورتیں بن رہی ہیں کہ یا تو پشاور سپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ انتہائی نااہل ہیں جنہوں نے اس طرح کے پہلے ہونیوالے واقعے کے بعد بھی اس کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ، یا پھر پشاور سپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر آنکھیں بند کر رکھی ہیں .ساتھ میں کوچ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صبر و تنحمل کا مظاہرہ کرے اور کھلاڑیوں کو یکساں طور پر ٹریٹ کرے.

سب سے مزے کی اور حیران کن بات یہی ہے کہ کھیلوں کی وزارت اپنے پہلے دور وزارت سے لیکر اب تک وزیراعلی خیبر پختونخوا کے پاس رہی ، جس کا فائدہ انہوں نے یہ اٹھایا کہ کھیلوں کے بیشتر منصوبے سوات میں شروع کروائے ، باقی خیر خیریت ہی رہی ، اب اقتدار کے آخری جھٹکوں یعنی آخری سال میں میں وزیراعلی خیبر پختونخوا نے یہ وزارت مردان سے تعلق رکھنے والے عاطف خان کے حوالے کردی ہیں جن کے پاس دیگر وزارتیں بھی ہیں تاہم انہوں نے بھی اپنے پیش رو وزیراعلی خیبر پختونخوا کے قدم پر قدم رکھتے ہوئے کھیلوں کے مقابلے اور منصوبے سوات کے بعد مردان میں منتقل کرنا شروع کردئیے ہیں انہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخوا کی اندرونی سیاست ، کھیلوں کی ابتر صورتحال اور کھلاڑیوں و ایسوسی ایشنز کے مابین معاملات سے کوئی سروکار نہیں ، رہی بات اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے بیورو کریٹس کی تو وہ حکومتی اراکین اسمبلی کو ناراض بھی نہیں کرسکتے اس لئے سرکاری اور سفارشی بھرتیوں سمیت میٹنگ پر میٹنگ کے علاوہ کچھ نہیں کررہے. اور انہی کی آنکھیں بند کرنے کے باعث کھیلوں اور کھلاڑیوں دونوں میں ڈسپلن بھی پیدا نہیں رہا تبھی تو سڑک کنارے ہونیوالے احتجاج پر پشاور صدر میں لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ یہ ا پنے آپ کو کھلاڑی کہتے ہیں جنہوں نے روڈ کو بلاک کیا . کھلاڑی کوچ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور کوچ کھلاڑیوں کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں ..

ان تمام حالات میں ذمہ داری صرف انتظامیہ کی بھی نہیں بلکہ کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز سمیت ڈیپارٹمنٹس کی بھی ہیں جن کے کھلاڑی پشاور سپورٹس کمپلیکس میں کھیلوں کی سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں اور احتجاج اور نعرے بازی کرتے دکھائی دئیے حالانکہ ان کے ڈیپارٹمنٹ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ادائیگی بھی نہیں کرتی ، اور کھلاڑیوں کی جانب سے یہ کہنا کہ میں فلاں کھیل سے وابستہ ہوں اور میری قوم کیلئے خدمات ہے اور میں فلاں میڈل لیکر آیا ہوں ، ان کھلاڑیوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ خدمت او ر ڈیوٹی میں فرق کتنا ہے اور اگر انہیں متعلقہ کھیل میں فائدہ نہیں تو پھر وہ کیوں کھیل رہے ہیں ، یہ کہ کر لوگوں پر احسان کرنا کہ میری خدمات ہے ، کوئی تک نہیں بنتی ا جنہیں بعد میں مقامی پولیس یہ کہہ کر ختم کرتی ہیں کہ " گلے مل لو"اور معاملہ ختم ، .کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کرتا دھرتا بشمول نئے وزیر او وزیراعلی خیبر پختونخوا جنہیں کھیلوں کی وزارت میں اے اور بی پارٹی کہا جاتا ہے میں اتنی ہمت ہے کہ اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ میں پرائیویٹ کوچنگ کا معاملہ ختم کرنے سمیت تمام کھلاڑی جو ڈیپارٹمنٹس سے وابستہ ہیں سے باقاعدہ لیٹر منگوائے جس میں ڈیپارٹمنٹ یہ یقین دہانی بھی کروائے کہ اگر ان کے کسی کھلاڑی نے دوران تربیت کوئی ایسی بات ، حرکت کی جس سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ ، کھیل اور کھلاڑی کا نام مجروح ہو تو نہ صرف متعلقہ کھلاڑی کو ڈیپارٹمنٹ سے نکالا جائیگا بلکہ ان کے خلاف متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی کاٹی جائیگی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات ن ہوسکیں.ورنہ دوسری صورت میں "مال بنائو" پالیسی انہیں ہر مہینے اس طرح کی صورتحال سے دو چار کرے گی جس سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت وزیراعلی ، وزیر کھیل کی بھی سبکی ہوگی.

#sports #directorate #kpk #kp #pakistan #games #athletics #games #
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422011 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More