اور جب محمد نواز کریز پر آئے

روہت شرما کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ اگرچہ اپنے تئیں وہ بھرپور منصوبہ بندی کر کے میدان میں اترے تھے اور ان کے بولرز بھی اب تک کامیابی سے پاکستانی بلے بازوں کو محبوس کرتے آ رہے تھے مگر پھر پاکستان نے یہ حیران کن تزویراتی چال چلی اور یکسر بازی ہی پلٹ دی۔

ٹی ٹونٹی کرکٹ میں آدھی سے زیادہ جنگ میدان کے باہر کاغذوں پر لڑی جاتی ہے۔ اعدادوشمار بطور دلائل رکھے جاتے ہیں اور ان کی روشنی میں ایک ایک گیند پلان کی جاتی ہے۔ کس کو، کہاں سے، کس نے دبوچنا ہے، یہ پہلے صفحۂ قرطاس پر وقوع پذیر ہوتا ہے اور پھر میدان میں۔

ایسا ہو نہیں سکتا کہ راہول ڈریوڈ جیسے محنتی کوچ نے ایک ایک پاکستانی بلے باز کو آؤٹ کرنے کا پلان نہ بنایا ہو اور جب مدِمقابل بابر اعظم اور محمد رضوان جیسے مستند بلے باز ہوں تو پھر پلان صرف ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے۔

پلان اے کی ممکنہ ناکامی کی صورت میں پلان بی اور سی، ڈی تک پہلے سے تیار کردہ ہوتے ہیں مگر جب تھنک ٹینک بابر اعظم، محمد رضوان اور آصف علی جیسے بڑے ناموں کے خلاف چالیں طے کرنے میں مصروف ہو تو محمد نواز جیسے نام سے صرفِ نظر ہو جانا معمولی بات ہے۔

ویسے بھی آج سے پہلے تک تو محمد نواز خود پاکستانی تھنک ٹینک کے منصوبوں کا بھی حصہ نہ تھے، بھلا روہت شرما کیونکر ان کے بارے سوچ بچار کرتے۔

محمد حفیظ اور شعیب ملک کے بعد پاکستان کے لیے مڈل آرڈر کے یہ دونوں بیٹنگ نمبر مسلسل دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ انہی نمبرز پر سب سے زیادہ تجربات بھی کیے جاتے رہے ہیں اور یہی نمبرز، بالخصوص نمبر چار کسی بھی ٹیم میں اننگز کی سمت متعین کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

اس قدر وسیع النوع تجربات کے بعد بھی پاکستان نے ایک تجربہ اس میچ کے لیے بچا رکھا تھا اور پاکستان کا یہی تجربہ روہت شرما کے لیے ایسا سرپرائز پیکج بن گیا کہ سبھی پلان دھرے کے دھرے رہ گئے۔

بلاشبہ روہت شرما نے اننگز کا آغاز شاندار طریقے سے کیا اور ان کے بعد دیگر سبھی انڈین بلے باز بھی ان کی پیشوائی میں چلے اور اوائل میں رنز کی اس قدر بھرمار ہوئی کہ انڈیا پاور پلے میں پاکستان کے خلاف ریکارڈ مجموعہ حاصل کر گیا۔

اس لمحے یہ گماں ہوتا تھا کہ اگر کوہلی بیسویں اوور تک ٹکے رہے تو پاکستان کا ہدف 200 سے بھی تجاوز کر سکتا ہے مگر شاداب اور نواز نے جس طرح سے رنز کی اس بہتی گنگا کو مسدود کیا، وہ فتح کی جانب پاکستان کا پہلا قدم ثابت ہوا۔

جس طرح کی پچ اس میچ کے لیے تیار کی گئی تھی، یہاں 190 ایک مسابقتی مجموعہ ہو سکتا تھا اور انڈیا ایک مرحلے پر اس پوزیشن میں تھا کہ وہ یہ ہندسہ بھی عبور کر جاتا مگر شاداب اور نواز کے اٹیک میں آتے ہی باؤنڈریز کی خیرات معطل ہو گئی اور انڈین بلے باز ایک ایک رن کے لیے محنت کرنے پر مجبور ہو ٹھہرے۔

کوہلی نے بالآخر اپنی روٹھی ہوئی فارم تو مکمل طور پر بحال کر لی مگر دوسرے کنارے سے کوئی ان کی کماحقہ تائید نہ کر پایا اور یوں فخر زمان کی ’فراخ دلانہ‘ فیلڈنگ کے باوجود انڈیا مسابقتی مجموعے سے دس رن پیچھے رہ گیا۔

بابر اعظم غالباً اپنے کرئیر میں پہلی بار یوں آؤٹ آف فارم سے دکھائی دیے ہیں لیکن پاکستان کی خوش بختی رہی کہ ان کی جلد وکٹ گرنے کے باوجود محمد رضوان نہ صرف ڈیتھ اوورز تک کریز پر موجود رہے بلکہ انجری کے باوجود ایک اور یادگار اننگز کھیلی۔

نہ صرف انھوں نے پاکستان کے لیے انڈیا کے خلاف سب سے بڑے تعاقب کے حصول کی راہ ہموار کی بلکہ اپنے سٹرائیک ریٹ سے ناقدین کے منہ بھی بند کر دیے۔

مگر اس سارے ڈرامے میں لاجواب پرفارمنس نبھائی محمد نواز نے، جو روہت شرما کے پلان تو کیا، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ ان کی بولنگ میں چھ کی اکانومی اور ایک آدھ وکٹ کی توقع بالکل کی جا سکتی تھی۔

فیلڈ میں ان کی جانب سے دو تین کیچز بھی عین قابلِ توقع تھے مگر یہ توقع کوئی بھی نہیں کر رہا تھا کہ وہ بیٹنگ کے لیے اچانک چوتھے نمبر پر نمودار ہوں گے اور صرف بیس ہی گیندوں میں پورے میچ کی کایا پلٹ دیں گے۔

محمد نواز کے کریز پر آنے تک انڈیا اس میچ میں موجود تھا اور جب نواز نے کریز کے اندر قدم جما لیے، تب انڈیا کے لیے میچ کے اندر رہنا مشکل ہو گیا۔

 
 
Partner Content: BBC Urdu
سمیع چوہدری
About the Author: سمیع چوہدری Read More Articles by سمیع چوہدری: 20 Articles with 24820 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.