جب ہر گھر سے کھانا مسجد کے امام کے لیے جاتا تھا، آگے جانے کی دوڑ میں ہم تو بہت پیچھے رہ گئے

image
 
ترقی کا نام ذہن میں آتے ہی آج کل کے دور میں بڑی سے گاڑی، بڑا بنگلہ اور بڑے بنک بیلنس کا خیال آتا ہے، مادیت کی دوڑ نے ہمیں اگرچہ دنیاوی سہولتوں سے تو مال امال کر دیا ہے مگر اندر سے خالی کر دیا ہے- صبح سے شام تک پیسے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم لوگ بہت ساری ایسی روایات کو بھلا بیٹھے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کا حسن ہوتے تھے مگر اب ہماری نئی نسل ان سے نا آشنا ہے- ماضی کی کچھ حسین روایات جو آج ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتیں- آج ہم آپ کے سامنے ایسی ہی کچھ خوبصورت روایات کا ذکر کریں گے جن کو اگر ایک بار پھر سے اپنا لیں تو نہ صرف ہم سب ایک دوسرے کے بہت قریب آسکتے ہیں بلکہ ہماری نئی نسل بھی اس خالی پن کو محسوس نہ کرۓ گی جس کے ہم شکار ہو گئے ہیں-
 
1: مسجد کے امام کے لیے ہر گھر سے کھانا جانا
ماضی میں گھر میں پکا ہوا کوئی بھی سالن جب تیار ہوتا تھا تو سب سے پہلے اس کو ٹرے میں رکھ کر گھر کے بچوں کو دیا جاتا تھا کہ مسجد کے امام کو دے کر آؤ- اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ایک جانب بچے کا مسجد میں آنا جانا ہوتا تھا اس کے ساتھ اس کے دل میں مسجد کے امام سے ایک محبت اور احترام پیدا ہوتا تھا- یہ احترام اس کو مذہب سے جوڑتا تھا اور اس کو اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ جب والدین امام کو اپنے کھانے سے قبل اہمیت دیتے ہیں تو اس کو بھی ان کا احترام کرنا ہے اور امام صاحب کی دعا سے گھر کے کھانے میں ایسی برکت ہوتی تھی کہ انسان دس کو کھلا بھی دیتا تھا تو کھانا کم نہ پڑتا تھا-
image
 
2: پڑوسیوں کی خوشی اور غم میں گھر اپنا گھر کھول دیا جاتا تھا
ماضی میں پڑوسی کے گھر ہونے والی خوشی اور غم میں اپنے گھر کے دروازے کھول دیے جاتے تھے کیوں کہ پڑوسی قریبی رشتے داروں سے پہلے آپ کے دکھ تکلیف میں پہنچنے والے ہوتے تھے- اس وجہ سے ان سے تعلق بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ان کی خوشی غمی میں اپنے گھر کے برتن اور بستر ان کو دے دیے جاتے تھے تاکہ ان کو کسی چیز کی کمی کا احساس نہ ہو- گھر کے لڑکے اور بچے ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے اس سے ایک جانب تو باہمی محبت بڑھتی دوسری جانب بچوں کے اندر بھی اس بات کا احساس ہوتا کہ ان کے والدین کے علاوہ بھی لوگ ان پر نظر رکھنے والے ہیں جس سے وہ برائیوں سے بچے رہتے تھے-
image
 
3: پڑوسیوں میں کھانے کا تبادلہ
میرا بیٹا کریلے نہیں کھاتا بہن آپ نے آج کیا پکایا ہے یہ وہ سوال تھا جو ماضی میں اکثر پڑوسی ایک دوسرے سے کرتے تھے اور اس کے بعد ان کی دی ہوئی پلیٹوں میں اپنے گھر کا پکا ہوا کھانا ڈال کر دے دیا جاتا تھا- اس طرح سے ایک طرف تو اس بات کی آشنائی ہوتی تھی کہ پڑوسی کی معاشی حالت کیسی ہے اس کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے اور دوسری جانب محبت میں بھی اضافہ ہوتا تھا- مگر اب سب نے اپنے دسترخوان محدود کر لیے ہیں جس سے رزق کی برکت بھی اٹھتی جا رہی ہے-
image
 
4: جب بچوں کو کسی رشوت خور کے بچوں سے دوستی سے منع کیا جاتا تھا
جی ہاں جی ایک ایسا وقت بھی تھا جب کہ والد سختی سے بچوں کو کسی ایسے شخص کے بچوں سے رسم و راہ بڑھانے سے منع کر دیتے تھے جس کے ذرائع آمدنی مشکوک ہوتی تھی- اس سے ایک جانب تو بچے کو حرام حلال کی تمیز کروانی ہوتی تھی اور دوسری طرف اس کو ایسے احساس کمتری سے بچانا بھی مقصود ہوتا تھا جس کا شکار وہ حرام کمائی والے شخص کے بچوں کی چیزوں کو دیکھ کر ہو سکتا تھا- بچپن کی یہ تربیت بچے کے خمیر میں شامل ہو جاتی تھی اور ساری عمر نہ صرف وہ خود حرام کمائی سے بچنے کی کوشش کرتا تھا بلکہ کسی دوسرے کی مہنگی چیزوں سے بھی متاثر نہیں ہوتا تھا-
image
 
5: جب بچوں کو چھٹیوں میں عزیز رشتے داروں کے گھر بھیجا جاتا تھا
چھٹی کا مطلب ننھیال یا ددھیال میں کچھ دنوں کا قیام ہوتا تھا جس کا انتظار ہر بچے کو ہوتا تھا اس سے بچے اپنے رشتے داروں کے ساتھ وقت گزارتے تھے اور نئی نئی چیزیں سیکھتے تھے- اس کے ساتھ خاندان کے بزرگوں کی نظر میں ان کا اچھا برا عمل بھی آجاتا تھا اس وقت میں اس بات کا برا نہیں منایا جاتا تھا کہ آپ کے بچے کی کسی بری عادت پر کسی نے تنقید کیوں کی اس کے بدلے میں بچے کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ وہ اچھا برا سیکھ سکے- اس کے علاوہ باہمی رشتوں کی محبت بھی پیدا ہوتی تھی جو انسان کو زندگی کے کسی بھی وقت میں تنہا نہیں چھوڑتی تھی بلکہ اچھے برے وقت میں یہی لوگ ساتھ آکر کھڑے ہو جاتے تھے-
image
 
یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو آج کل کے دور میں ختم ہوتی جا رہی ہیں مگر ان کو دوبارہ سے زںدہ کیا جا سکتا ہے اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے فیض اٹھایا جا سکتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: