قلم شگوفیاں ۔ خدا ضامن

دو طالبعلم دوستوں کے درمیان ایک شگفتہ اندازِ گفتگو جس کے کلاس روم میں گڑ بانٹنے اور قائل کرنے کی منظر کشی ہے۔

وہ دونوں ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ ہائی سکول ان کے گاؤں سے سات آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔ اور سائیکل معروف ترین سواری تھی۔ جو کہ ان کچی سڑکوں کے لیئے غنیمت تھی۔میٹرک کے امتحانات قریب تھے اور سردی کا موسم اپنے عروج پر تھا ۔سردیوں میں دھند اور ٹھنڈ سے بچنے کےلیئے اور امتحانات کی تیاری کے لیئے اپنے دوسرے طابعلم ساتھیوں کے ساتھ وہ بھی سکول کے اندر موجود اقامت گاہ المعروف سائنس ہوسٹل میں قیام پذیر تھے۔اتوار کو گھر کا چکر لگتا تھا۔

اس بار گاؤں سے واپسی پر ضامن شاہ سے استاد جی نے پوچھا کہ گاؤں سے موسم سرما کی کیا سوغات لاۓ ہو۔

سر جی اپنے کھیت کے گنے کا بنا سپیشل گڑ جو اپنے ہی بیلن پر تیار کروایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضامن شاہ نے اپنے تھیلے سے گڑ کی دو بڑی بڑی ڈلیاں نکال کر استاد جی کے سامنے رکھ دیں۔ استاد جی نے ایک ڈلی نذر شاہ کے حوالے کی اور کہا ساری کلاس میں تھوڑا تھوڑا بانٹ دو۔ اب ایک ڈلی گڑ سردی کا موسم اور گڑ بھی مونگ پھلی والا۔ با مشکل چھ لڑکوں میں تقسیم ہوا۔تیس پنتیس لڑے رہ گئے۔ اب ہر طرف سے گڑ گڑ ضامن شاہ اور نذر شاہ کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ ضامن شاہ مزید گڑ بانٹنے سے ہچکچا رہا تھا۔ نذر شاہ نے حوصلہ دیا کہ بانٹ دو یار گاؤں کی سوغات ہے۔ضامن شاہ نے کہا کہ یہ تو میں اپنے لیۓ لایا۔نذر شاہ نے کہا بھائی فکر نہ کر اگلے اتوار کو میں گڑ لاؤں گا۔ میں بھی تو گاؤں کے لمبردار کا بیٹا ہوں ۔ گڑ گنا مکھن دیسی گھی اور مرغیاں سب کچھ گھر کا ہے۔مگر ضامن شاہ کسی صورت یقین نہیں کر رہا تھا۔ نذر شاہ کے پر زور اصرار پر ضامن شاہ بولا کہ اس بات کا کون ضامن ہے کہ اگلے اتوار گڑ آۓ گا۔ اب پوری کلاس خاموش ۔ نذر شاہ نے کہا تیرے میرے میں خدا ضامن۔

ضامن شاہ نے کہا کہ بس اب گڑ بانٹ دو۔ ساری کلاس میں گڑ بٹ گیا مگر ضامن شاہ کے دل پر چھریاں کیا آرے چل رہے تھے۔دو اڑھائی سیر گڑ بٹ گیا۔ مگر ضامن شاہ کے حصے میں بھی بس ایک پیس ٹافی نما۔ اللہ اللہ کر کے ہفتہ آیا۔ نذر شاہ گھر جا رہا تھا۔ اور ضامن شاہ اس کے سائیکل کےساتھ ایسے دوڑ رہا تھا جیسے کسی مرشد کو الوداع کیا جارہا ہو ۔ اب ضامن شاہ نے ملتجی نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا کہ بھائی کل گڑ لانا۔

نذر شاہ نے اک مسکراہٹ بکھیری اور چلا گیا۔اب رات کی تنہائی اور ضامن شاہ اوپر سے یہ غم کہ پتہ نہیں نذر شاہ گڑ لاۓ گا یا نہیں۔پھر یہ سوچ کر اپنی ڈھارس بندھاتا کہ آخر خدا کو ضامن دے گیا ہے۔ اب تو ضرور لاۓ گا۔

اللہ اللہ کر کے کروٹ بدلتے اور سوچ بچارکرتے رات گزری۔ دن بھی اسی بے چینی میں گزرا۔

شام کے قریب نذر شاہ آ گیا۔ بظاہر سائیکل کے ساتھ کوئی ایسا تھیلا نہیں لٹک رہا تھا جس کے باطن پر گڑ کا گمان ہو۔ البتہ پچھلی کاٹھی پر ایک پولا گنے ترتیب سے کٹے ہوۓ۔ صاف ستھرے اور خوشبودار اپنی پوری آب تاب کے ساتھ نگاہوں کو خیرا کر رہے تھے۔

اب ضامن شاہ کا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور سوال کیا گڑ کہاں ہے۔ گڑ لاۓ ہو کیا۔ نظر نہیں آ رہا۔ نذر شاہ نے کہا ۔ صبر رکھو لایا ہوں۔ضامن شاہ نے کہا لاؤ مجھے دوں ۔ نذر شاہ پچکارتے ہوۓ کہا او میرے بھولے بھائی تجھے کیوں دوں ۔ مجھ سے ضامن نہیں لیا ہوا۔ اپنے ضامن سے مانگو۔ ضامن شاہ نے کہا میں کیسے مانگوں۔

نذر شاہ نے کہا کہ تیرے ضامن تک پہنچ چکا ہے۔ اس شہرمیں اللہ کا سب سے بڑا گھر جامع مسجد غربی بازار ہے۔ زرا جا کر مولوی اللہ دتہ صاحب سے تو پوچھ کر آؤ کیا میں نے وہاں تین سیر گڑ پہنچا نہیں دیا۔اگر نہ پہنچا کر آیا ہوں تو ہر سزا کا مستحق ہوں۔اب باقی کلاس کے ردعمل کا تو نہیں پتہ۔ مگر ضامن شاہ ٹکٹکی باندھے نذر شاہ کی زیارت میں مصروف تھا۔

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 24 Articles with 15003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.