گُہَرہائے شَبِ چَراغ۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر یونس حسنی کے تحریر کردہ خاکوں کا مجموعہ

(یہ تحریر کراچی کی معروف ادبی تنظیم محبان بھوپال فورم کے زیر اہتمام کراچی کی تین معروف ادبی شخصیات پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی، اقبال عبد الرحمن مانڈویااور جناب شکور پٹھان کے ساتھ ایک شام بہ مقام یونین کلب ۹۲ اکتوبر ۲۲۰۲ء کو منعقد ہوئی جس میں راقم کو پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی کی کتاب’گہر ہائے شب چراغ‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا۔ حسنی صاحب بہ وجوہ تقریب میں تشریف نہ لاسکے، راقم نے تینوں مہمانوں کے بارے میں صدارتی کلمات ادا کیے۔ ڈاکٹر یونس حسنی کی شخصیت اور ان کے خاکوں کے مجموعہ کے حوالے سے تحریر پیش خدمات ہے)
گُہَرہائے شَبِ چَراغ
ڈاکٹر یونس حسنی کے تحریر کردہ خاکوں کا مجموعہ
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
کائینات کا ذکر ہو اور کائینات بنانے والے کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں، انبیاء کا تذکرہ ہو اور انبیاء کو دنیا میں بھیجنے والے کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں، اسی طرح قرآن مجید فرقان حمید کا ذکر ہو اور جس ہستی کے ذریعہ قرآن ہم تک پہنچا اس محبوب ہستی کا ذکرکیسے نہ ہو، کتاب کاتذکر ہو اور اس کے خالق کا ذکر نہ ہو یہ بھی ممکن نہیں۔کتاب اور اس کا خالق لازم و ملزوم ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ پہلے صاحبِ کتاب کا کچھ ذکر پھر کتاب کے بارے میں مختصر بات۔ پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی صاحب نام کے یونس ہیں۔یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ستون یا رکن کے ہیں اورعمارت بغیر ستون کے کھڑی نہیں رہتی، مضبوط ستون ہی اسے طویل عرصہ تک قائم و دائم رکھتے ہیں۔ آگرہ کے چار ستون مشہور ہیں رئیسؔ، آصفؔ، نثارؔ اور عالیؔ۔ ڈاکٹر یونس حسنی صاحب اردو زبان و ادب کے حوالے سے کراچی کے ایک مضبوط ستون ہیں۔ ان کے توسط سے ہزاروں نہیں لاکھوں طلبہ کو فیض پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ ان کی تصانیف سے بے شمارطلبہ کو فیض پہنچ رہا ہے تصانیف یا تحریر یں صدقہ جاریہ ہوا کرتی ہیں۔ڈاکٹر یونس حسنی صاحب نے ہندوستان کے شہر ٹونک میں جنم لیا۔تعلیم ٹونک اور بھوپال کے تعلیمی ادارو ں میں حاصل کی،درس و تدریس سے وابستگی بھی ان شہروں میں رہی، راجستھان کالج (یونیورسٹی) جے پور سے وابستہ رہے۔ اہم بات کہ ڈاکٹر یونس حسنی کم عمر میں پی ایچ ڈی کرنے والوں میں سے ہیں۔ آپ کو 1966میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ حسن اتفاق میں بھی راجپوت ہوں، میرے اجداد کا شہر بیکانیر ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی کم عمر پی ایچ ڈی کرنے والے اور میں زیادہ عمر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والوں میں سے ہوں۔ مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی تو میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا اور عمر 60برس تھی۔ڈاکٹر یونس حسنی نے اختر شیرانی پر اور میں نے حکیم محمد سعید پر پی ایچ ڈی کیامیں نے حسنی صاحب کو سب سے پہلے جامعہ کراچی میں دیکھا،غالباً یہ بات ہے 1975 ء سے پہلے یا بعد کی، یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر یونس حسنی شعبہ اردو میں استاد تھے پھر صدر شعبہ بھی ہوئے۔ شعبہ اردو کے بعض استاد میرے دوستوں کے دوست تھے پھر میرے بھی دوست ہوگئے۔ اس ناتے شعبہ اردو جانا ہوتا تو ڈاکٹر یونس حسنی سے بھی سلام و دعا ہو جایا کرتی، اسے دوستی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔یہ ملاقاتیں کئی بار ہوئیں، ریٹائر اور ادب سے تعلق رکھنے والوں کی ملاقاتوں کا ذریعہ اب ادبی تقریبات ہیں۔یاد پڑتا ہے کہ ایک بار ڈاکٹر یونس حسنی کے گھر واقع دہلی کالونی ان کی مزاج پرسی کے لیے شعبہ اردو کی استاد ڈاکٹر صدیقہ ارمان کی سرپرستی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ نہیں معلوم ڈاکٹر حسنی کی یاد داشتوں میں یہ بات ہے یا نہیں۔بڑی گرم جوشی سے ملے، طبیعت ناساز تھی پھر بھی بستر سے اٹھنے کی کوشش میں رہے، سب نے منع کیا لیکن آداب مہمانان کو ہاتھ سے کیسے جانے دیتے۔ محسوس ہوا کہ انہیں مزاج پرسی کرنے آنے والوں کو دیکھ کر مسرت ہوئی۔سادہ لباس سفید کرتا پیجامہ،دبلے پتلے،چہرہ پر ہلکی سی مسکراہٹ، خیریت دریافت کی کچھ گفتگو ہوئی، گھر کے درو دیوار بتا رہے تھے کہ یہ ایک پروفیسر کا گھر ہے۔ صاف ستھرا لیکن سادگی کااعلیٰ نمونہ۔جامعہ میں ان سے اپنے اور ان کے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتوں کاسلسہ جاری رہا۔ اس کے بعد اکثر ادبی محفلوں میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوتی رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لکھاری اپنی یادوں کو مختلف انداز سے قلم و قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔ ادب میں وہ سوانح، آپ بیتی، خاکہ، رپوتاژ، سفرنامہ وغیرہ کے تحت قلم بند کرتا ہے۔ خاکہ نگاری نثری اصناف میں ایک دلچسپ، معروف اور دلچسپ صنف شمار کی جاتی ہے۔شخصیت ڈاکٹر یونس حسنی صاحب کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اس لیے کہ انہوں نے پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے بھی شخصیت کا انتخاب کیا اور پیش نظر ان کا خاکوں کا مجموعہ ان کی یادوں کی ہی کہانی ہے۔مختصر یہ کہنا کافی ہوگا کہ اس تصنیف میں شامل شخصیات کے خاکوں کی صورت میں گویا ڈاکٹر یونس حسنی کی یادوں کی بارات چھم چھم کرتی چلی آئی ہے۔ شخصیات میری بھی ممدوحین رہی ہیں۔ ادب کی اس صنف میں ہم بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے ہیں۔’یادوں کی مالا‘اور ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘، ’وہ جو اب ہم میں نہیں‘ خاکے اور شخصی مضامین کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ایک شاگرد نے پشاور کی قرطبہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ہماری کاکہ نگاری پر ایم فل بھی کیا۔ڈاکٹر یونس حسنی کی خاکہ نویسی کے حوالہ سے تحقیق کی ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب کے تو بے شمار شاگرد اس میدان میں موجود ہیں امید ہے ہم یہ خوش خبری جلد سنیں گے۔ اب کچھ ’گُہَرہائے شَبِ چَراغ“کے بارے میں۔
”گُہَرہائے شَبِ چَراغ“ خاکوں کا مجموعہ تو ہے لیکن ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کی یادوں کی بارات مختلف شخصیات کے روپ میں یکجا ہوگئی ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے جن شخصیات کو اپنا موضوع بنایا ان کا تعلق ماضی میں کسی نہ کسی طور ڈاکٹر صاحب سے رہا۔ ان میں زیادہ شخصیات وہ ہیں جو ہندوستان سے تعلق رکھتی ہیں اور راجپوتانہ کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتی ہیں۔پہلا خاکہ:
۱۔ سید شہید کے تین نواسے: سید احمد شہید عالم اسلام کی معروف شخصت ہیں۔ خاکہ کی ابتدا سید احمد شہید کی تین شادیوں سے ہوئی ہے پھر ان کے تین نواسوں سید محمد عرفان، سید محمد یونس اور سید محمد مصطفی کا ذکر اختصار سے کیا ہے۔ دوسرا خاکہ:
۲۔ ابا میاں۔ مولانا سید محمد یعقوب: ابا میاں یونس حسنی صاحب کے دادا بزرگوار ہیں۔ گویا یہ خا کہ یونس حسنی صاحب کے خاندان، گھرکے حالات اور واقعات پر مبنی ہے۔
۳۔ استاذی (ڈاکٹر ابو محمد سحر صاحب):بھوپاک کے حمیدیہ کالج کے استاد ڈاکٹر ابو محمد سحرصاحب جو یوس حسنی صاحب کے استاد تھے۔ ان کاخاکہ بہترین انداز سے قلم بند کیاگیا ہے۔ اپنے استاد کی شخصیت کے ظاہری خدو خال کا ذکر کس عمدہ پیرائے میں کرتے ہیں۔لکھتے ہیں ”وہ پہلے دن کلاس میں آئے۔ مکمل انگریزی لباس میں۔ لباس کسی شکن کے بغیر اور استری سے پیر استہ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں جواُن سے بھی زیادہ بڑی پلکوں اور پپوٹوں سے ڈھکی ہوئیں، اس لیے آنکھوں کی کشادگی نظر آتی تھی۔ یوں بھی وہ نگاہیں نیچی رکھتے۔ اس لئے اُن کی آنکھوں کی ساخت سے سرسری نظر سے دیکھنے والا آشنا رہتا۔ بھرا ہو چہرہ، مضبوط جبڑے، چوڑی سی ٹھوڑی اور ہونٹ کسی قدر مائل بہ فربہی۔بڑے ہی لیے دیے انداز میں تشریف لائے اور فوراً ہی تدریس شروع کردی۔اگلا کاکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے استاد احمد الدین شیخ صاحب کا ہے۔ عنوان ہے:
۴۔کینٹ کالج سے حرمِ محترم تک(احمد الدین شیخ، چند یادیں) : پروفیسر احمد الدین شیخ صاحب کے خاکے کا عنوان ”کینٹ کالج سے حرم محترم تک اس لیے قرار پایا کہ ڈاکٹر یونس حسنی کینٹ کالج میں استاد اور پرنسپل رہے جب کہ شیخ صاحب اسی کالج میں انگریزی کے پروفیسرتھے۔ دوستی اور تعلق کے تانے بانے کینٹ کالج میں پروان چڑھے۔ شیخ صاحب کی جو خوبیاں یونس حسنی صاحب نے ان کے خاکہ میں بیان کی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسے ہی نفیس، ہمدرد، خیال کرنے والے، دوستوں کے دکھ اور تکلیف کو اپنا دکھ سمجھ کر جو کچھ ممکن ہوتا کر گزرنے والوں میں سے تھے۔اس کا میں بھی چشم دید گواہ ہوں۔ مَیں 1997میں حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج سے ٹرانسفر ہوکر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد میں گیا۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر مظہر الحق صاحب کو اپنی آمد اور منسلکی کا پروانہ دینے کے بعد اسٹاف روم میں داخل ہوا تو سب سے پہلے جن حضرت سے ملاقات ہوئی وہ احمد الد ین شیخ صاحب تھے۔ اپنا تعارف کرایا۔ بڑے تپاک اور شفقت سے ملے۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ دراز رہا۔ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ ان سے اسٹاف روم کی فضاء خوشگوار رہتی، حسنی صاحب نے ان کی ہمدردی کا جو واقعہ بیان کیا جس میں ایک کاغذی تھیلے کا ذکر ہے۔ میں نے اس کاغذی تھیلے کی باز گشت اسٹاف روم میں سنی تھی۔ اس قسم کے کئی واقعات شیخ صاحب کی ذات سے وابستہ ہیں۔ شیخ صاحب ایک ہمدرد دل اور مدد کرنے والے کی اس طرح مدد کیا کرتے کہ برابر والے کو خبر تک نہ ہوتی۔اس زمانہ میں نیکی کرنا کوئی آسان نہیں۔ شیواؔ بریلوی بقول ؎
کوئی آساں نہیں ناصح مشفق بننا
کچھ سلیقہ بھی درکار نصیحت کے لیے
شیخ صاحب کے ساتھ یونس حسنی صاحب کا سرزمین مقدس تشریف لے جانے والا واقعہ شیخ صاحب کی یاد دلاتے رہیں گے۔ اگلا خاکہ کراچی کے ایک معروف دل کے ڈاکٹر سید اسلم صاحب کا ہے۔
۴۔وہ جو بیچتے تھے دوائے دل(ڈاکٹر سید اسلم): ڈاکٹرسید اسلم کا تعلق ریاست ٹونک سے تھا یعنی حسنی صاحب کے ہم وطن اور دل کے ماہر ڈاکٹر تھے۔ یونس حسنی صاحب کے بقول دل کا مرض میرے یہاں موروثی چلا آتا ہے چناچہ میں اس سلسلے میں بڑا حساس تھا اور سینے کے ہر درد اور ہر چمک کو قلب کا مرض سمجھ لیتا تھا۔ دل کی اسی چھیر چھاڑ میں حسنی صاحب ڈاکٹر اسلم صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ یہ خاکہ ڈاکٹر اسلم کی مہربانیوں، عنایات، اور دل کو بہلائے رکھنے کا سبب ہے۔
۵۔تماشا کروانھیں (محمود احمد برکاتی مرحوم): برکاتی خاندان کراچی میں طب یونای کے علاج کے حوالے سے معروف ہے۔ البتہ مسعود احمد برکاتی مرحوم جن سے میرے بھی قربت کے مراسم تھے شعبہ صحافت سے وابستہ رہے، حکیم محمد سعید شہید کے دستِ راست تھے۔ ڈاکٹر یونس حسنی نے محمود احمد برکاتی صاحب کا خاکہ لکھا جس میں ان کی شہادت کا ذکر بھی دردبھرے انداز سے بیان کیا گیا ہے۔طب یونانی کے حوالہ سے محمود احمد برکاتی شہید کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
۶۔ بہ ریشم و فولاد کا آدمی(مولانا سید ابوالحسن علی ندوی): مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب معروف مذہبی اسکالر تھے ان کی دینی، علمی اور ادبی تصانیف سے اہل علم مستفید ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر یونس حسنی نے علی ندوی صاحب کو خوبصورت انداز سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
۷۔شعلہ و شبنم کا آمیزہ (اکٹر سید ابو الخیر کشفی): اردو کے معلم، محقق، مصنف، جامعہ کراچی کے معروف و محترم استاد۔ ڈاکٹر یونس حسنی صاحب ڈاکٹر ابو الخیر کشفی کے زمانے میں جب کہ وہ صدر شعبہ تھے کینٹ کالج سے جامعہ کراچی گئے۔ چناچہ کشفی صاحب سے خوب خوب تعلق رہا، انہیں دیکھا، انہیں پرکھا، انہیں سمجھا، انہیں چاہا، ان سے اختلاف کیا، ان سے محبت کی۔ لکھا ڈاکٹر ابو لخیر کشفی کے بارے میں ”ان میں جو خوبیاں ہیں وہ انتہا درجے کی ہیں۔ جو خامیاں ہیں بڑی شدیدہیں۔ ان سے مل کر کبھی آدمی ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے تو کبھی انتہائی مُتَوَحِش“۔متوحش کے معنی ہیں وحشت میں ڈالنے والا، وحشت انگیز، بھیانک، وحشت زدہ۔
۸۔ روزنامہ دعوت کے مسلم صاحب(بے باک صحافی، مثالی شخصیت): مسلم صاحب کا تعلق بھی بھوپال سے تھا۔ روزنامہ دعوت سے وابستہ تھے۔ حسنی صاحب بھی اس رسالے کے سب ایڈیٹر رہے۔ حسنی صاحب نے صحافت کو الودعیٰ کہا اور پاکستان آنے کا ارادہ کیا اور مسلم صاحب سے دلی میں ملاقات کی تو انہوں نے حسنی صاحب سے کہا ”یہاں بے صلاحیت مسلمانوں میں اندھوں میں کانا راجا تھے۔ تمہارا خوامخواہ ایک مقام تھا۔ وہاں آدمیوں کے جنگل میں کھو جاؤ گے”۔ لیکن حسنی صاحب نے پھر بھی پاکستان
ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔
۹۔ صلا الدین، مدیر تکبیر (ایسا کہاں سے لاؤں): صلاح الدین صاحب ہفت روزہ تکبیر کے حوالے سے بہت معروف تھے۔ صلاح الدین مرحوم کی فرمائش پر ڈاکٹر یونس حسنی روزنامہ جسارت میں کالم بھی لکھتے رہے۔ پھر طبیعت کی خرابی کے باعث سلسلہ ترک کردیا۔ صلاح الدین صاحب کے بارے میں معلوماتی تحریر ہے۔
۰۱۔ نواب سعادت علی، مفتی عبد الرحیم) (بر بادل ک بجلیاں)
۱۱۔مَولی عابد حسین۔ٹونک، راجستھان سے تعلق
۲۱۔ احتشام صاحب: احتشام صاحب ترقی پسند اور اعلیٰ درجہ کے نقاد تھے۔ ڈاکٹر یونس حسنی کے پی ایچ ڈی مقالہ کا خاکہ احتشام صاحب نے ہی منظور کیا تھا۔ شاگرد نے استاد کا حق اس طرح ادا کیا ہے۔ اس خاکے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خاکہ
نگار نے اپنے ممدوح سے جو خط و کتابت کی وہ خطوط بھی شامل خاکہ ہیں۔
۳۱۔(مت سہل ہمیں جانو)/ پروفیسر شمیم احمد مرحوم کی یادمیں: شمیم احمد شعبہ اردو جامعہ کراچی سے وابستہ تھے۔ پروفیسر شمیم احمد سے اپنے تعلق کے تناظر میں مرحوم کی خوبیوں اور اوصاف حمیدہ کو خوبصورت ادبی انداز سے بیان کیا ہے۔
۴۱۔ (رفتید ولے نہ ازل دلِ ما) رفیق صاحب: رفیق صاحب جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں مددگار استاد تھے۔ انہیں ڈاکٹر یونس حسنی نے ہی شعبہ میں شامل کیا تھا۔ مختصر مدت تک انہوں نے تدریسی خدمات انجام دیں۔ اپنی بات راسخؔ کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں ؎
شاگرہیں ہم میرؔسے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
29 اکتوبر2022ء:۔۔۔۔۔۔۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281445 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More