بیتُ المقدس، مسجدِ اقصی اور صلاحُ الدّین ایّوبی

"اللہ تعالی نے اس زمین میں اپنی عبادت کے لیے دو جگہوں کو عبادت کرنے والوں کا قبلہ بنایا ہے، ایک "بیت المقدس" اور دوسرا "بیت اللہ"؛ مگر قانونِ قدرت دونوں کے متعلق الگ الگ ہے۔ بیت اللہ کی حفاظت اور کفّار کا اس پر غالب نہ آنا، یہ اللہ تعالی نے خود اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اسی کا نتیجہ وہ واقعۂ فیل ہے جوقرآن کریم کی "سورہ فیل" میں ذکر کیا گيا ہے کہ یمن کے نصرانی بادشاہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی؛ تو اللہ تعالی نے معہ اس کے ہاتھیوں کی فوج کے بیت اللہ کے قریب تک جانے سے پہلے ہی پرندے جانوروں کے ذریعےہلاک وبرباد کردیا۔ لیکن بیت المقدس کےمتعلق یہ قانون نہیں ہے؛ بلکہ آیات مذکورہ سے معلوم ہوا ہے کہ جب مسلمان گمراہی اور معاصی میں مبتلا ہوں گے؛ تو ان کی سزا کے طور پر، ان سے یہ قبلہ بھی چھین لیا جائے گااور کفّار اس پر غالب آجائیں گے۔"


ابتدائیہ
فلسطین کو متعدد انبیاء کرام –علیہم السلام– کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔قُدس و اقصی کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمان ارضِ فلسطین سےدل وجان سےمحبّت کرتے ہیں۔ کچھ اسلام مخالف ممالک کے حکمرانوں کی منافقانہ روش کے سبب، 14/مئی 1948 کا وہ بدترین دن بھی آیا، جس دن قلبِ عرب یعنی فلسطین میں، ایک غاصب صہیونی یہودی ریاست "اسرائیل" کے قیام کا اعلان ہوا اور اسے دنیا کی کچھ بڑی طاقتوں نے منٹوں میں قبول کرلیا۔ یہ بات بڑی تعجب خیز ہے کہ جس وقت سن 1947ء میں، اقوام متحدہ نے اس غاصب ریاست کے لیے 54 فی صد فلسطینی اراضی کی شفارش کی تھی، اس وقت فلسطین میں موجود یہودی، صرف وہاں کی 6 اعشاریہ 59 فی صد اراضی کے مالک تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ فلسطین کاتقریبا 87 فی صد حصّہ بشمول بیت المقدس غاصب یہودی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہے ۔ آج یہ ریاست مسجداقصی کو ہضم کرنے کی بیجا ساعی کررہی ہےاور مسلمانوں کی آزادانہ آمد ورفت اور عبادت تک پرپابندی لگاچکی ہے۔

ایک مبارک شہر"بیت المقدس"
"بیت المقدس"، جسےعربی میں "القدس" اور انگریزی زبان میں (Jerusalem) کہا جاتا ہے، فلسطین کے اہم اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ہے۔ اس شہر کو زمانہ اسلام سے قبل "ایلیا" بھی کہا جاتا تھا۔ اس شہر کو 300 ق م یبوسیوں نے بسایا، یہی وجہ ہے کہ ان کے نام پر اس شہر کو "یبوس" بھی کہا جاتا تھا۔ یہ مکہ مکرمہ سے 1300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سن 1948 کی جنگ کے بعد، یہ شہر دو حصوں میں تقسیم کردیا گيا۔ ایک حصّہ کو مغربی بیت المقدس (نیا شہر) کا نام دیا گیا اور یہ اسرائیل کے قبضے میں تھا؛ جب کہ دوسرے حصّے کومشرقی بیت المقدس (پرانا شہر) کا نام دیا گیا جو اردن کے قبضے میں تھا۔ مگر 1967 کی جنگ میں، اسرائیل نے پورے شہر کو قبضہ کرلیا۔ پرانا شہر کی ہر چہار جانب سے اونچی دیوار سے احاطہ شدہ ہے۔مقدس مقامات پر انے شہر میں پائے جاتے ہیں۔ اس شہر کو مسلمانوں کی طرح یہود و نصاری بھی مقدّس مانتے ہیں۔ فی الحال اس شہر پر غاصب ریاست اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اسرائیل اس شہر کو اپنی غیر منقسم راجدھانی مانتی ہے۔ اس کے حکومتی شعبے بھی اس شہر میں پائے جاتے ہیں۔ مگر بین الاقوامی برادری نے اس کے اس دعوی کو مسترد کردیا اور اسے فلسطین کا حصّہ مانتی ہے۔ اسی شہر میں مسجد اقصی واقع ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس شہر کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے۔مسلمانوں کی نظر میں مکہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے بعد، یہ تیسرا مقدس شہر ہے۔ یہیں مسلمانوں کا "قبلۂ اوّل" ہے۔جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے شروع میں تقریبا سولہ مہینے اسی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کی۔ اس شہر میں واقع مسجد اقصی ان مساجد میں سے ہے جس کا سفر کرنے پر، اللہ تعالی نے بڑا اجر متعین فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات میں یہیں لایا گيا۔ اسی شہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انبیاء علیہم السلام کی امامت کی اور یہیں سے آپ کا سفر معراج شروع ہوا۔قرآن کریم نے اس جگہ کو بابرکت کہا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: (ترجمہ) پاک ذات ہےجو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا،جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے، تاکہ دکھلائیں اس کو اپنی قدرت کے نمونے ۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت: 1) (الفتح العُمَرِي لِلقدسِ نموذج للدّعوَة بالعمل وَالقدوَةِ، ص: 186)

مسجد اقصیٰ
مسجد اقصی کو فلسطینی باشندے "المسجد الأقصی" اور"الحرم القدسي الشریف" بھی کہتے ہیں۔ "واضح رہے کہ مسجد اقصی کا مصداق وہ سارا حرم قدسی ہے، جس کے گرد ایک فصیل قائم ہے اور اس میں مختلف عمارتیں ہیں اور" قبلۂ اوّل" اس میں موجود وہ چٹان ہے جس پر زرد رنگ کا خوبصورت گنبد قائم ہے۔" (اقصی کے آنسو، ص:25)

مسجد اقصی کی تعمیرکے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ لیکن جو بات نصوص سے قریب تر ہے، وہ یہ ہے کہ آدم علیہ السّلام نے "مسجد حرام" کی تاسیس کے 40/سال بعد مسجد اقصی کی بنیاد رکھی۔ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ مشرفہ کی تعمیری تجدید کی، اسی طرح مسجد اقصی کی تجدید یعقوب یا داؤد علیہما السلام نے کی اور سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی۔ اس حوالے سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائے:"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد کے حوالے سے سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "مسجد حرام"۔ میں نے سوال کیا: پھر کون(اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی)؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "مسجد اقصی۔" میں نے سوال کیا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: "چالیس سال"۔ (صحیح مسلم: 520)

علامہ ابن حجر عسقلانی (1372ء-1448ء) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سب سے پہلے جس نے مسجد اقصی کی بنیاد رکھی وہ آدم علیہ السلام ہیں؛ جب کہ بعض لوگوں نے کہا فرشتے ، بعض نے کہا: سام بن نوح علیہ السلام، بعض نے کہا: یعقوب علیہ السلام۔" پھر اس پرمناقشہ کے بعد، ا بن حجر نے ان علما کے موقف کو ترجیح دی ہے، جنھوں نے کہا ہے کہ مسجد اقصی اور کعبہ کے اوّل بانی حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ (فتح الباري لابن حجر، 6/409)

بہر حال، اسلام کی آمد سے قبل، بیت المقدس پربخت نصر، شاہِ بابل (عراق) نے حملہ کرکے، بیت المقدس اوروہاں موجود عمارتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی، رومی جرنیل ٹائٹس نے حملہ کیا؛ تو بیت المقدس کو تباہ وبرباد کردیا اور رومی شہنشاہ ہیڈرین نے حملہ کرکےوہاں کےباشندوں کو جلاوطن کردیا۔ ان حملے کے نتیجے میں بیت المقدس میں تعمیرات ہوتی رہیں اور وقفے وقفے سے اجڑتی بھی رہیں۔ ان تباہی و بربادی کے بعد،خلیفہ ثانی عمربن خطاب –رضی اللہ عنہ– کے دورِ خلافت، سن 16ھ/637ء میں، عمرو بن العاص اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کی قیادت میں، بیت المقدس صلحا فتح ہوا۔

فتح کے وقت عیسائیوں کی شرط کے مطابق امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ بھی بیت المقدس تشریف لائے۔ اس وقت یہاں کے "حکمرانوں اور پادریوں کی بے توجہی اور بے ادبی کی وجہ سے یہ ساری جگہ ویران تھی اور مقدس چٹان پر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی صفائی کا حکم دیا اور خود بھی صحابۂ کرام کے ساتھ مل کر صفائی کی۔ مسند احمد کی صحیح روایت ہے کہ آپ نے کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں؟ انھوں نے فرمایا کہ آپ میرا مشورہ سنتے ہیں؛ تو چٹان کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں تاکہ سارا "قُدس" آپ کے سامنے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آپ نے یہودیوں سے ملتی جلتی بات کی۔ میں تو وہاں نماز پڑھوں گا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی؛ چناں چہ آپ حرم کے قبلہ والی جانب گئے اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب فاتحین صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ نے یہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔" (اقصی کے آنسو، ص: 25)

"اُموی دورِ خلافت میں، جب مرکز ِخلافت شام میں تھا؛ تو بیت المقدس کو خاص اہمیت حاصل ہوئی اور اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے مسجد اقصی کی نئی تعمیر کی۔ یہ تعمیر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تعمیر کردہ مقام پر تھی اور ان کی مسجد اس نئی مسجد کے اندر آگئی ہے۔ موجودہ تعمیر کی بنیادیں اموی خلفاء کی ڈالی ہوئی ہیں۔ مورّخین کا کہنا ہے کہ جس طرح بیت المقدس کی فتح عمر رضی اللہ عنہ کا کارنامہ ہے، اسی طرح شاندار تعمیر کا اعزاز اموی خلفاء کو حاصل ہے۔ بعد ازاں، دوسرے سلاطین اسلام اس کی دیکھ بھال، تعمیر ومرمت اور تزئین وآراستگی اور اضافات کرتے رہے۔" (اقصی کے آنسو، ص: 26)

پہلی صلیبی جنگ کے بعد، جب 15/جولائی 1099ء کوعیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا؛ تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ پھرصلاح الدین ایوبی نے 538ھ/1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا؛ تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا۔ 88 سال کے استثنا کے ساتھ، عہد فاروقی سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ گرچہ اِدھر چند سالوں سے مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے؛ مگرآج بھی اس کا انتظام وانصرام اردن کی "وزارت ِاوقاف اور شئونِ مقدساتِ اسلامیہ" کے تحت ہے۔

فتحِ بیت المقدس اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
خلیفہ اوّل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے "شام" پر چڑھائی کے موقع سے، ہر صوبے کے لیے الگ الگ افسر متعین کیا تھا؛ چناں چہ فلسطین کا افسر حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، جو بعد میں مصر کے فاتح اورگورنربھی بنے۔ آپ نے فلسطین کے علاقے میں کچھ مقامات کی فتح خلیفہ اوّل کے دور میں اور کچھ کی خلیفہ ثانی عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں انجام دی۔ جنگ یرموک میں کامیابی اور دمشق کی فتح کے بعد، آپ نے فوج کے ساتھ بیت المقدس کا رخ کیا۔ کچھ دنوں تک بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔عیسائی قلعہ میں بند ہوکر لڑتے رہے؛ مگر صلح کی درخواست سے گریز کیا۔عین موقع پر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے شام کے انتہائی اضلاع قنسرین وغیرہ فتح کرکے، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی معاونت کے لیے بیت المقدس کا رخ کیا۔ اس وقت عیسائیوں نے صلح کی پیش کش کردی۔مگر ساتھ ہی یہ شرط لگادی کہ خلیفۃ المسلمین خود یہاں آئیں اور صلح نامہ ان کے ہاتھوں ہی لکھا جائے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین عمر رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں یہ وضاحت کی کہ "بیت المقدس" کی فتح، آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔

خلیفۃ المسلمین عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک میٹنگ بلائی اور ان کے سامنے صورت حال پیش کی۔ مثبت ومنفی ہر طرح کی رائیں آئیں۔خلیفۃ المسلمین نےجانے کو ترجیح دی اورعثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بناکر ، رجب سن 16ھ میں، چند معزز صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں، جن میں زبیراور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، اپنےکھوڑےپر سوار ہوکر، مدینہ منورہ سے بیت المقدس کےلیےروانہ ہوئے۔

اسلامی فوج کے افسروں کو یہ اطلاع دی جاچکی تھی کہ "جابیہ" میں آکر امیر المومنین کا استقبال کریں؛ چناں چہ ہدایت کے مطابق یزید بن ابی سفیان اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ وغیرہ نے آپ کا "جابیہ" میں ہی استقبال کیا۔"جابیہ" میں قیام کے دوران، بیت المقدس کے سرداروں کی ایک جماعت دمشق کے لیے روانہ ہوئی تاکہ آپ سے ملاقات کرے۔ اس کی آمد کے بعد "معاہدۂ صلحِ بیت المقدس" لکھا گیا۔ بلاذری اور ازدی کی وضاحت کے مطابق "معاہدۂ صلح بیت المقدس" بیت المقدس پہنچ کر لکھا گیا؛ جب کہ طبری کی روایت کے مطابق "معاہدہ" یہیں لکھا گیا۔

معاہدہ کے بعد امیرالمومنین نے بیت المقدس کاقصد کیا۔ جب بیت المقدس قریب آیا؛ تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور سرداران فوج استقبال کے لیے حاضر تھے۔امیرالمومنین کا معمولی لباس وپوشاک اور ساز وسامان دیکھ کرمسلمانوں کو شرم آرہی تھی کہ عیسائی جب ان کو دیکھیں گے؛ تو کیا سوچیں گے؛ لہذا مسلمانوں نے امیرالمومنین کو ایک ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک پیش کیا۔ امیر المومنین نے اس گھوڑے اور لباس کو قبول کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیاکہ خدا نے ہمیں جو عزت دی ہے،وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ الغرض، آپ بیت المقدس میں اسی حال میں داخل ہوے۔ چوں کہ یہاں اکثر افسران فوج اور عمال جمع ہوگئے تھے، اس لیےکئی دنوں تک قیام کیا اور ضروری احکام بھی جاری فرمایا۔ (تلخیص، از: الفاروق، ص: 131-133)

قدسُ واقصی صلیبیوں کے قبضے میں
سن 16ھ/637ء میں عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں معاہدۂ صلح بیت المقدس کے بعد، بیت المقدس صدیوں مسلم حکمرانوں کے زیر نگیں رہا۔ مسلم حکمرانوں نے اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا کر رکھا۔ مگربدقسمتی سے سن 1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع سے یورپی صلیبیوں نے بلاد اسلامیہ پر حملہ شروع کیا۔ اس حملے میں عیسائی حملہ آوروں نےاپنے ظلم وجبر کا ثبوت دیتے ہوئے، ستّر ہزار مسلمان مردوں، عورتوں اور معصوم بچوں کا قتل عام کرکے 15/جولائی 1099ء کو بیت المقدس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو مسجد اقصی میں قتل کیا گيا۔ بیت المقدس پر قابض ہوکر، انھوں نے مسجداقصی میں گرجا بنایا اور کئی حصوں کو رہائش گاہوں کے طور پر استعمال کرنے لگے؛ بلکہ اس سے بھی بدتر صورت حال یہ رہی کہ مسجد اقصی میں گھوڑوں کا اصطبل بنایا گیا۔صلیبی پورے فلسطین میں صلیبی حکومت قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
ایوبی سلطنت کے بانی صلاح الدین یوسف (1193-1137) بن نجم الدین ایّوب ، جن کو عام طور پر سلطان صلاح الدین ایّوبی سے جانا جاتا ہے، موجودہ عراق کے "تکریت" میں 532ھ/1137ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور چچا: اسدالدین شیر کوہ عراق میں سیاسی اور انتظامی امور کے اعلی عہدے پر فائز تھے۔ آپ اپنےجدّاعلی "ایوب بن شادی" کی طرف منسوب ہوکر"ایّوبی" کہلاتے ہیں۔تکریت میں کچھ سال رہنے کے بعد،صلاح الدین ایوبی –رحمہ اللہ– کے والد اور چچا تکریت سے موصل منتقل ہوئے جہاں عمادالدین زنگی نے اپنے شایان شان ان کااستقبال کیا۔ عماد الدین زنگی کے قتل کے بعد، ایوبیوں کی مدد سےنورالدین زنگی حاکم بنے۔ نورالدین نے سن 534ھ میں بعلبک کو فتح کیا اور اس کا گورنر، صلاح الدین ایوبی کے والد، نجم الدین ایوب کو بنایا۔

ایوبی کی اصل پرورش دمشق میں ہوئی۔ اس نے اسی شہر میں اسلامی علوم حاصل کیا اور ساتھ ہی ، سپہ گری اورتیر اندازی وغیرہ میں مہارت حاصل کی۔ سیاسی بصیرت اپنے والدمحترم سے پائی؛ جب کہ میدانِ جنگ میں دشمنوں کو زیر کرنے کی مہارت اپنے چچا سے حاصل کی۔پھر وہ دن بھی آیا کہ صلاح الدین جنگ وحرب میں اپنے چچا اسدالدین کے ساتھ ہولیے۔ اسدکے نورالدین سے اچھے تعلقات تھے۔ نورالدین نے بخوبی سمجھ لیا تھا کہ صلاح عسکری اور ادارتی امور کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پھر آپ کو دمشق کی ریاستی پولیس کےاعلی افسر کا عہدہ دیا گيا، جسے آپ نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ آپ کے اس عہدہ کے سنبھالنے کے ساتھ ہی دمشق سےچوروں، اچکوں اور فسادیوں کا صفایا ہوگيا اور پورا دمشق امن کا گہوارہ بن گيا۔

مصر کی فتح کے بعد ایوبی کو 564ھ میں مصر کا حاکم بنایا گیا۔ وہ ایک خدا ترس انسان،عظیم مجاہد اور مشہور فاتح تھے۔ وہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین اور حکمرانوں میں سے تھے۔ ان کی ذکاوت وذہانت، حسن تدبیراور معاملہ فہمی کی بھرپور صلاحیت نے ہی مصری قوم کو فاطمی حکومت سے چھٹکارا دلاکر، نوری حکومت میں ضم کیا۔ پھر 569 ھ میں ایوبی نے یمن کو فتح کیا۔ نورالدین کی وفات کے بعد، صلاح الدین حاکم اعلی بن گئے۔ ایوبی کی وفات، 55/سال کی عمر میں، 4/مارچ 1193 کو موجودہ شام کے پایۂ تخت: دمشق میں ہوئی اور دمشق میں ہی مسجد اُمیہ کے قریب آپ مدفون ہیں۔ بحیثیت سلطان، آپ کی تاجپوشی 1174 عیسوی میں، موجودہ مصر کے دارالسلطنت "قاہرہ" میں ہوئی۔ آپ بحیثیت سلطان تقریبا 19/ سالوں تک حکومت کی۔ ( صلاح الدين الأيوبي وجهوده ۔۔۔۔ وتحرير بيت المقدس، ص: 223-229)

مسجد اقصی کی فتح
صلاح الدین ایوبی کی سب سے بڑی خواہش بیت المقدس اور مسجد اقصی کی فتح تھی۔ اللہ تعالی نے آپ کی خواہش کی تکمیل فرمائی اور بیت المقدس اور مسجد اقصی آپ کی زیر قیادت فتح ہوا۔ بیت المقدس کی فتح آپ کے عظیم ترین کارناموں میں ہے۔ایوبی نےاپنی حکمت ودانائی اور قوت وشوکت سے مصر، یمن، شام، موصل، عکہ، بابلوس، یافہ، سیدون، بیروت، وغیرہ کو فتح کیا اور ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھی۔آپ کی سلطنت میں موجودہ مصر، شام، عراق، فلسطین، حجاز، یمن اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک بھی شامل تھے۔

سن 1186ء میں عیسائیوں‌کے ایک حملہ میں رینالڈ نے بہت سے عیسائی اُمراء کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات شروع کیے۔ ایوبی نے دشمن کے لشکر کو روکنے کےلیے آتش گیر مادہ کا استعمال کیا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ پھر 1187ء کو حطین کے مقام پر جنگ کا آغاز ہوا۔ رینالڈ کا تعاقب کیا گيا۔ وہ حطین میں گرفتار ہوا اور اس کا سر قلم کیا گیا۔

فتحِ حطین کے بعد، ایوبی نے اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے بیت المقدس اور مسجد اقصی کا رخ کیا۔ ایک ہفتہ تک جنگ چلی۔ پھر بیت المقدس پر قابض عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست پیش کی۔ صلیبیوں کی حکومت دیر پا ثابت نہ ہوسکی؛ صلاح الدین نے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر ٹپکنے نہیں دیا اور 27/رجب 538ھ/ 12/اکتوبر 1187ء کو بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرالیا۔بیت المقدس اور مسجد اقصی پورے 88 سال بعد، دوبارہ مسلمانوں کو واپس ہاتھ لگا۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوے۔ اس نے مسجد اقصی میں داخل ہوکر، نورالدین زنگی کا تیار کیا ہوا عظیم الشّان منبر، اپنے ہاتھوں مسجد میں رکھا۔ مسلمانوں نے مسجد کو پانی اور عرق گلاب سے غسل دیا۔ صلاح نے مسجد کی ان تبدیلیوں کو ختم کیا جسے صلیبیوں نے اپنے عہد میں کیا تھااور مسجد اقصیٰ اصلی حالت پر لوٹ گئی۔ بیت المقدس پر فتح کے ساتھ1099 سے قائم مسیحی حکومت ختم ہوگئی، فلسطین ایوبی سلطنت کا جز ہوگیا اور ایک بار پھر قدس کی مبارک سرزمین نغمۂ تکبیر سے گونجنے لگی۔

یہ بات نوٹ کیے جانے کے قابل ہے کہ صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں ڈھائے جو15/جولائی 1099ء کو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نےڈھائے تھے؛ بل کہ ایوبی نے زر ِفدیہ لے کر ہر عیسائی کو امان دے دی اور جو فدیہ نہیں ادا کر سکتے تھے ان کے فدیے کی رقم ایوبی اور اس کے بھائی ملک عادل نے ادا کی۔ ایوبی کی انسانیت نوازی، شجاعت وبسالت، بہادری وسرفروشی، جود وسخا،نرمی و بردباری،عدل وانصاف،عفوودرگزر، حسنِ خلق اورتواضعُ وانکساری کی وجہ سے، وہ صرف مسلمانوں کے درمیان ہی نہیں؛ بلکہ غیر مسلموں کی درمیان بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

بیت المقدس انگریزوں کے قبضے میں اور غاصب یہودی ریاست کا قیام
شہر بیت المقدس پر صدیوں مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ فلسطین 934ھ/1516ء سےخلافتِ عثمانیہ کے زیر اقتدار رہا۔ مسجد اقصی کا انتظام و انصرام بھی خلافت کے تحت تھا۔ یہودیوں نے خلافتِ عثمانیہ کے34ویں فرمانروا سلطان عبد الحمید ثانی (1918-1842) کو مختلف طریقے سے لالچ دیکر اپنے دامِ تزویر میں پھنساکر، فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کی بے انتہا جد وجہد کی؛ مگر خلیفہ کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہوئے۔ بدقسمتی سے سن 1334ھ/1914ء کی پہلی جنگ عظیم میں"خلافتِ عثمانیہ" کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھرسن 1336ھ/1917ء میں برطانیہ نے فلسطین اور بیت المقدس کو قبضہ کرکے، 1917ء کے "بالفور" معاہدہ کے تحت فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا اور یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دیدی۔ پھروہ فلسطین میں آباد ہوتے رہے اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ عربوں کی طرف سے مظاہرے ہوئے، مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور یہودیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد سن 1947ء میں برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی سازش کے نتیجے میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نےفلسطین کو تقسیم کرکے، فلسطین کی 54 فی صد اراضی پر،"اسرائیل" نامی ایک غاصب صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔

برطانیہ نے سن1948ء میں فلسطین سے اپنی فوج واپس بلالی اور 14/مئی 1948ء کا وہ بدترین دن آیا، جس دن آزاد غاصب اسرائیل ریاست کا قیام عمل میں آیا اوربیت المقدس کا آدھا حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ پھر اس غاصب ریاست نے اپنے آقاؤں کی مدد سے فلسطینی مسلمانوں پر زبردستی کی کئی جنگیں تھوپ کر، لاکھوں معصوم فلسطینی مرد و خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا۔ اس نے کسی بھی شہر اور گاؤں کو محفوظ نہیں چھوڑا، سب کو تباہ و برباد کردیا اور یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔ اسرائیل ہر جنگ میں اپنے ظلم وجورسے فلسطینی اراضی پر قبضہ کرتا چلا گيا؛ تا آں کہ آج فلسطین کا تقریبا 87 فی صد حصّہ صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے۔سن 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں، اس ناجائز ریاست نے بیت المقدس کی مبارک سرزمین اور مسجد اقصی پر بھی قبضہ کرکے، مسلمانوں کو آزانہ طور مسجد اقصی میں داخلے تک پر پابندی عاید کردی جو تاہنوز جاری ہے اور دنیا کے اکثر ممالک اسرائیل کے ان مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوے ہیں۔

حرفِ آخر
بیت المقدس کی مبارک سرزمین اور مسجد اقصی پر صہیونیوں کا قبضہ، مسجد اقصی کی تخریب کاری، فلسطینوں کا کھلے عام قتل اور مسلمانوں کے آزادانہ داخلے پر پابندی، کوئی مٹھی بھر صہیونیت زدہ ذلیل اور مطرود ومردود یہودیوں کی فتح مبین نہیں ہے؛ بلکہ مسلمانوں کےبداعمالیوں، معصیت اور انابت الی اللہ سے دوری کی سزا ہے۔ جس دن مسلمان اپنی بداعمالیوں سے تائب ہوکر، پوری وابستگی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع و انابت کرے گااوراحکامِ شرعیہ کی پوری پوری پیروی کرےگا، اپنی معاشرت و سیاست میں دوسرے پر اعتماد کے بجائے اللہ کی ذات پر کامل اعتمار رکھے گا اور خالص اسلامی اور شرعی جہاد پر یقین رکھتے ہوئے میدان میں اتڑے گا؛ تو اللہ تعالی مسلمان کو پھر "فتح مبین" جیسی کامیابی سےسرفراز کريں گے اور قدسُ و مسجد اقصی پھر سے مسلمانوں کےقبضے میں ہوں گے۔

مفتی محمد شفیع صاحب عثمانیؒ(1897-1976) تحریر فرماتے ہیں: "اللہ تعالی نے اس زمین میں اپنی عبادت کے لیے دو جگہوں کو عبادت کرنے والوں کا قبلہ بنایا ہے، ایک "بیت المقدس" اور دوسرا "بیت اللہ"؛ مگر قانونِ قدرت دونوں کے متعلق الگ الگ ہے۔ بیت اللہ کی حفاظت اور کفّار کا اس پر غالب نہ آنا، یہ اللہ تعالی نے خود اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اسی کا نتیجہ وہ واقعۂ فیل ہے جوقرآن کریم کی "سورہ فیل" میں ذکر کیا گيا ہے کہ یمن کے نصرانی بادشاہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی؛ تو اللہ تعالی نے معہ اس کے ہاتھیوں کی فوج کے بیت اللہ کے قریب تک جانے سے پہلے ہی پرندے جانوروں کے ذریعےہلاک وبرباد کردیا۔ لیکن بیت المقدس کےمتعلق یہ قانون نہیں ہے؛ بلکہ آیات مذکورہ سے معلوم ہوا ہے کہ جب مسلمان گمراہی اور معاصی میں مبتلا ہوں گے؛ تو ان کی سزا کے طور پر، ان سے یہ قبلہ بھی چھین لیا جائے گااور کفّار اس پر غالب آجائیں گے۔" (معارف القرآن 5/451) ٭٭٭٭

 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 165 Articles with 183137 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.