اقتصادی بحالی اور سیاسی استحکام

پاکستان اس وقت مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے۔ مسلسل سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے شکار پاکستانی عوام مضطرب ہیں اور بہتری کے شدت سے خواہاں ہیں۔ عام آدمی کی زندگی مہنگائی، بےروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر، مہنگائی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کے نرخوں اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان کے عام شہریوں کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور معیشت بحران کا شکار ہے، عام شہریوں کی گذر بسر مشکل ہو چکی ہے۔ ایک طرف یہ حالات اور دوسری طرف سیاست دانوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فوری توجہ اقتصادی بحالی پر دی جائے یا سیاسی استحکام پر؟ حقیقت یہ ہے کہ جدید دور کی کسی بھی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اور اسے پولیٹیکل اکنانومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اگر ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو، یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان ایک جوہری طاقت ہونے کے باعث عسکری طور پر تو مضبوط ہے مگر سیاسی معیشت عسکری پالیسیوں سے بھی ایک حد تک جڑی ہوئی ہے۔ فوج کو سیاسی معاملات سے کنارہ کشی کر کے اپنی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ البتہ جب تک آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے جب تک فوج، عدلیہ اور نوکر شاہی سیاسی معیشت کا استحکام یقینی بنانے کیلئے کمر بستہ نہیں ہوں گے، سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال دونوں پر قابو پانا مشکل ہوگا۔۔ آج ہمارے پڑوسی ممالک معاشی ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ چین کو ہی دیکھ لیجیے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں چین کے دورہ کے دوران تاریخی معاہدے کیے۔ اسی طرح دیگر عرب ریاستوں کا معاشی جھکاؤ بھی چین کی طرف ہو رہا ہے آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پاکستان وہ واحد ملک تھا کہ چین کے لوگوں نے جس کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا۔ پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جو چین کی سرزمین پر اتری۔ اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن کا سماں تھا۔ پاکستان نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کئے ‘ ان میں سے ایک جہاز چین کے مقبول سیاسی راہنما "ماﺅزے تنگ" کے زیر استعمال تھا۔ اس جہاز پر آج بھی ”Curtesy by Pakistan “ لکھا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات درآمد کرنے کی اجازت دی۔ پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی مہیا کی۔ چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انہیں جہازوں کے ذریعے حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا۔ ایک وہ وقت بھی تھا کہ پاکستان کے ویزہ کا حصول چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔ چین آگے نکل گیا جبکہ ہم معاشی لحاظ سے ہم ہر روز ایک دم پیچھے جاتے گئے۔ وجہ یہ کہ ہر ارباب اختیار نے جی بھر کے اس ملک کو لوٹا۔ دولتیں باہر منتقل کیں اور قوم کو لفظوں کے گورکھ دھندوں کا لالی پوپ دے کر کنگال کرتے گئے۔ ہمارے پاس خلافت راشدہ کے راہنما اصول تھے لیکن انہیں کبھی عمل میں نہیں لائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اشرافیہ اسلام کے صداقت و امانت کے سنہری ضابطوں سے عاری رہی۔ بلکہ لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کئے ۔ آج چین "ترقی یافتہ چین" بن چکا ہے اور شرق سے غرب تک ہر جگہ ”میڈ اِن چائنا“ کی مہر پہنچا دی ہے۔ چین نے اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار‘ صحت‘ تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی۔ آج مر سیڈ یز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے۔ دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں۔ چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔
1۔ مخلص لیڈر شپ 2۔ ان تھک محنت 3۔ اپنی ذات پر انحصا 4۔ خودداری۔

چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا ‘ اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا‘ یہ لوگ پندرہ‘ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جب اپنے کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن‘ من اور دھن قوم پر وار دیا۔ ان کے لیڈر کی میت تین مرلے کے مکان سے نکلی اور اس لیڈر نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا تھا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا چین کی یہ چاروں خوبیاں ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں۔ ہم نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے‘ ہم دوسروں کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں‘ ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے اور وقت ضائع کرنے والے لوگ ہیں اور ہماری ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں۔ ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں۔ کاش ہم چین کے صدر شی چن پنگ سے کہتے کہ "جناب آپ ہمیں 46 ارب ڈالر کے منصوبے نہ دیں‘ آپ ہمیں عزت کی روٹی کھانے اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھا دیں"۔ ہماری اشرافیہ نے آج تک کسی قوم‘ کسی ملک سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور 75 سال سے پوری قوم کو بھکاریوں کی زندگی گزار نے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ کاش ہم آج ہی جاگ جائیں اور اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیں۔ اللہ تعالٰی نے ان گنت اور لاتعداد وسائل سے ہمارے وطن عزیز کو مالا مال کیا ہوا ہے۔ لوگ محنتی اور ذہین ہیں۔ کمی ہے تو صرف اور صرف فعال، دیانتدار اور مخلص قیادت کی۔

 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219412 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More