بے شرم للن اور شرمیلاکلن

کلن شرما نے للن مشرا سے کہا یار یہ تمہارے شاہ رخ خان کو آخر ہمارے بھگوا لباس سے کیا دشمنی ہے ؟
للن بولا بھیا مجھے تو لگتا ہے شاہ رخ کو لباس سے ہی دشمنی ہے ۔ مجھے تو وہ ہر رنگ کے لباس کا دشمن لگتا ہے۔
یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ لباس کا دشمن ہے؟
ارے بھیا ’بے شرم رنگ‘ نامی گانے کو دیکھ کر اندھا بھی یہی کہے گا ۔
یار للن تم کنفیوز کررہے ہو ۔ اندھا گانا کیسے دیکھے گا؟ اپنے چہیتے اداکار کی حمایت میں کچھ بھی ہانکتے ہو۔
یار میرا کوئی چہیتا اداکار نہیں ہے لیکن شاہ رخ کے مداح کروڈوں میں ہیں ؟
کیا بکواس کرتے ہو ۔ آج کی تاریخ میں سارا ملک اس سے نفرت کرتا ہے۔ دیکھنا اس کی فلم پٹھان کو دیکھنے ایک بھی آدمی تھیٹر میں نہیں جائے گا۔
دیکھو بھیا وہ فلم ایک ماہ بعد ریلیز ہوگی اور اسے دیکھنے کون جائے اور کون نہیں جائے گا میں نہیں جانتا لیکن یو ٹیوب پر تو کروڈوں اس کو دیکھیں گے۔
کلن چونک کر بولا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟
للن نے جواب دیا سیدھی سی بات ہے ۔ اب تک تیرہ کروڈ بیس لاکھ لوگ اس کا نغمہ بے شرم رنگ یو ٹیوب پر دیکھ چکے ہیں ۔ اب خود سوچ لو۔
اچھا ! اتنے سارے بیوقوفوں نے اس کو دیکھ کر ابھی سے ہٹ کردیا لیکن یہ چمتکار کیسے ہوگیا ؟
للن ہنس کر بولا اس کے لیے میں تمہارے جیسے بھگتوں کو مبارکباد دینا چا ہوں ۔
میرے جیسے بھگت! ہم لوگ تو دن رات اس کا بائیکاٹ کررہے ہیں ۔ ہمارے دھرم گرو نے تو شاہ رخ کو زندہ جلانے کا اعلان کیا ہے۔
یار مجھے تو لگتا ہے کہ وہ شاہ رخ کا پروپگنڈا منیجر ہے ۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسی دھمکی نہیں دیتا تو یہ گانا اتنا نہیں چلتا ۔
کیا بکتے ہو للن ۔ تم ایودھیا میں بیٹھے ہمارے سوامی جی کی توہین کررہے ہو۔
تم نے ایودھیا میں زمین گھپلے کے بارے میں نہیں سنا ؟ اس میں بھی کئی سوامی اور مہاراج لوگ ملوث ہیں ۔
بھیا للن زمین جائیداد کی بات الگ ہے ۔ اس کے موہ مایا کسےنہیں ہوتی لیکن کوئی سوامی کسی فلم کا پروپگنڈا کرے یہ کیسے ممکن ہے؟
کیوں اس میں کیا برائی ہے۔ کوئی کسی سیاسی جماعت کے ایجنٹ بن جائے یا فلمی کمپنی کی دلالی کرنے لگے کیا فرق پڑتا ہے ۔ دھندا آخر پیشہ ہے ۔
دھندا ہے کیا مطلب ؟ کوئی سیاسی پارٹی اپنے مذہب کی بات کرے تو اس کی حمایت کرنا اور کسی فلم کو پرچار کرنا یکساں کیسے ہوسکتا ہے؟
دیکھو بھیا نفرت کی سیاست یا فلم سے نفرت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔ گاہک کے بدلنے سے پیشہ نہیں بدلتا ۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ سوامی جی نے جان بوجھ کر یہ کام کیا ہے۔ انہیں شاہ رخ نے سازش کرکے اپنے جال میں پھنسا لیا ہوگا۔
چلو مان لیا کہ وہ سازش میں پھنس گئے لیکن تم تواپنی عقل سے کام لے کر ان کی چنگل سے نکلو ۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم لوگوں نے تو اپنی عقل گرو دکشنا کے طور پر سوامی جی کے چرنوں میں رکھ دی ہے۔ اب اس پر ہمارا کوئی اختیارنہیں ہے۔
للن بولا اچھا چلو مان لیا لیکن اشتہار بازی کے اس دور میں کسی کے لیے پروپگنڈا کرنا کوئی بری بات کہاں ہے؟
اشتہار بازی کا دور والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ پہلے وہ سمجھاو پھر جواب دوں گا ۔
ارے بھائی آج کل تو سرکاریں بھی اشتہار بازی پر ٹکی ہوئی ہیں ۔ کوئی کام تھوڑی نا کرتا ہے ۔ پرچار سے انتخاب جیت لیا جاتا ہے۔
کلن بولا ہاں بھائی سیاسی جماعتوں کی تو وہ مجبوری ہے لیکن کسی فلم کا پروپگنڈا کرنا ایک پروقار سوامی کو زیب نہیں دیتا ۔
بھیا کلن زمانہ بدل گیا ہے۔ آج کل تو وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور کئی وزرائے اعلیٰ بھی ایسا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
کیا بکواس کرتے ہوللن ۔ تم نے ہمارے پردھان جی کی توہین کی ہے۔
للن بولا میں جرأت کیسے کرسکتا ہوں لیکن تم نے نہیں دیکھا کشمیر فائلس کی تشہیر میں تمہاری پوری پارٹی کیسے جٹ گئی تھی؟
ارے بھیا وہ تو مظلوم کشمیریوں کا معاملہ تھا اور یہ پٹھان ہے۔ ان دونوں میں کیا موازنہ ؟
بھائی کلن کشمیری پنڈتوں پر سیاست چمکانے کے بعد ابھی حال میں تمہارے لیفٹننٹ گورنر نے ان کی تنخواہ بند کردی۔
کیا بکواس کررہے ہو۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
جی ہاں اس کا سبب یہ ہے کہ وہ احتجاج کررہے ہیں اور کام پر نہیں آتے ۔
کلن بولا وہ تو ٹھیک ہے جو کام نہیں کرے گا وہ پنڈت ہو یا مسلمان اس کو تنخواہ کیسے ملے گی؟
جی ہاں اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کی قتل و غارتگری کو مذہب کی عینک سے نہ دیکھا جائے ۔
کلن نے سوال کیا اچھا! اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا ؟
ارے بھائی سیدھی بات ہے ۔ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ بار بار مارے جانے والوں کو پنڈت نہ کہا جائے اور کیا؟
کیوں اس میں انہیں کیا دقت ہے؟ سچ تو سچ ہے۔
جی ہاں کلن سچ تو ہے لیکن کڑوا سچ ۔ اس سے سرکار کی بدنامی ہوتی ہے۔
کلن نے کہا یار تم بے شرم رنگ کو پھیلا کر کشمیر کی سیاست تک لے گئے۔ یہ بہت بری بات ہے۔
اس میں کیا غلط ہے۔ تمہاری سرکار بھی تو کشمیر کی سیاست کو پھیلا کر کشمیر فائلس تک لے آئی تھی ۔ آج کل سیاست کا زہر ہر جگہ پھیل جاتاہے۔
اچھا خیر یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ ہماری کوششوں سے کشمیر فائلس ہٹ ہوگئی۔ بولو ہاں یا نا ۔
للن بولا ہاں بھائی میں یہ مانتا ہوں ۔ اس لیے کہ اگر یہ دھکا نہیں لگتا تو وہ سپر فلاپ ہوجاتی لیکن پھر بھی کتنی ہٹ ہوئی پتہ ہے؟
بھائی پٹھان سے تو زیادہ ہی چلی ہے۔
دیکھو کلن پٹھان تو ابھی تک ریلیز بھی نہیں ہوئی اس لیے موازنہ نہیں ہوسکتا مگر اس کا نغمہ ریلیز ہوچکا ہے۔
کلن نے کہا چلو تو اسی کا موازنہ کردو۔
یہ ٹھیک ہے ۔ کشمیر فائلس کا بلاک بسٹر’ ہم دیکھیں گے‘ کو ۹ ماہ میں بیالیس لاکھ لوگوں نے دیکھا۔
بس بیالیس لاکھ مجھے یقین نہیں ہوتا ۔
نہیں ہوتا تو یوٹیوب پر جاکر تصدیق کرلو ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا؟ اور وہ بھی ایک پاکستانی شاعر کا کلام ہے۔
کشمیر فائلس میں پاکستانی شاعر کیسے آگیا ؟ ہم لوگ تو لب پہ آتی ہے دعا کی مخالفت اسی لیے کررہے ہیں کہ اقبال پاکستانی کا کلام ہے۔
للن بولا اقبال پاکستانی نہیں اقبال لاہوری ۔ تم کو ان کا نام بھی ٹھیک سے نہیں معلوم ۔
ہاں ہاں لاہور تو پاکستان میں ہی ہے نا۔
ویسے تو اڈوانی جی اور منموہن سنگھ کی جنم بھومی بھی پاکستان میں ہے۔ ان کو کیا کہو گے ؟
یار للن تم بار بار بات گھماکر کہیں اور لے جاتے ہو۔ یہ بتاو کہ کیا ع اقبال واقعی پاکستانی نہیں تھے؟
جی ہاں علامہ اقبال کی حیات میں لاہور ہندوستان کا حصہ تھا ۔ پاکستان اقبال کی رحلت کے بعد عالم وجود میں آیا۔
اچھا تو وویک اگنی ہوتری نے بھی کسی پرانے شاعر کا کلام لےلیا ہوگا جو پاکستان بننے سے قبل اس علاقہ میں رہتا رہا ہو۔
جی نہیں اس نے فیض احمد فیض کی مشہور نظم ہم دیکھیں گے کو اپنی فلم میں شامل کیا ۔ فیض کا انتقال پاکستان کے اندر ہوا۔
کلن نے پوچھا اچھا تو وہ کون سا نغمہ تھا؟ مجھے تو یاد بھی نہیں آرہا۔
ارے وہی ’ہم دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔
یہ کیا کہہ رہے ہو للن۔ یہ تو این آر سی کے زمانے میں قوم دشمن عناصر گایا کرتے تھے ۔ ہم نے تو اس کی خوب مخالفت کی تھی۔
اچھا تب تو تمہیں کشمیر فائلس پر بھی اعتراض کرنا چاہیے تھا ۔
کیا بکتے ہو للن جب ہمارے پردھان جی نے حمایت کردی تو ہم یہ غلطی کیسے کرسکتے ہیں ؟ لیکن بیالیس لاکھ والی بات اب بھی کھٹک رہی ہے۔
للن نے کہا اور تم تو جانتے ہی ہو کہ بے شرم رنگ دو ہفتوں میں ۰۰۰۰
کلن بگڑ کر بولا ہاں ہاں تم بتا چکے ہو تیرہ کروڈ بیس لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میں پاگلوں کے ملک رہ رہا ہوں ۔
تمہاری یہ بات بھی درست ہے، اگر ایسا نہ ہو تا تو گجرات میں اتنے زور و شور سے کمل نہ کھلتا۔
یار للن تم بار بار بات کو گھما کر سیاست میں لے جاتے ہو ۔ یہ بتاو کہ شاہ رخ خان نے بھگوا رنگ کو بے شرم کیوں کہا؟
یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ شاہ رخ خان نے بھگوا رنگ کو بے شرم کہا ہے؟ وہ نغمہ شاہ رخ نے نہیں بلکہ کمار اور وشال دادلانی نے لکھا ہے۔
کلن بولا جس نے بھی لکھا ہے لیکن شاہ رخ انہیں منع کرسکتا تھا ۔ ان الفاظ کو بدل سکتا تھا ۔
چلو یہ بھی مان لیا لیکن اگر بھگوا رنگ کو بے شرم کہا گیا ہوتا تبھی تو بدلا جاتا ۔ ایسا ہوا ہی نہیں تو شاہ رخ کیسے بدلتا؟
کیا مطلب ! اس نغمہ میں بھگوا کو بے شرم نہیں کہا گیا ؟ تو کیا پوتر رنگ کہا گیا ہے؟
ارے بھائی اس میں بھگوا کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے ۔
اچھا تو کیا ہے ؟ تم نے تو دیکھایا سنا تو ضرور ہی ہوگا ۔
جی ہاں ۔ اس میں ایک مصرع ہے’بے شرم رنگ کہاں دیکھا دنیا والوں نے‘۔
اچھا ! اس میں صرف یہ ہے ۔ بھگوا لفظ ہی نہیں ہے؟
جی ہاں اور یہ مصرع بھی تم جیسے بے شرم لوگوں کے لیے ہے جو بنا دیکھے آنکھ موند کر اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔
کلن بولا یار میں نے وہ گانا تو نہیں دیکھا لیکن ا یک پوسٹر دیکھا ہے جس میں دیپکا پدوکون نیم عریاں بھگوا لباس پہن کر ناچ رہی ہے۔
جی ہاں تب تو تمہیں دیپکا کی مخالفت کرنی چاہیے ۔ اس نے آخر بھگوا رنگ کا نیم عریاں لباس کیوں زیب تن کیا ؟
ہاں یار یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔ وہ بھی تو انکار کرسکتی تھی لیکن بیچاری ہندو ابلہ ناری ایسا کیسے کرسکتی ہے؟
ارے بھیا تم اس کی مخالفت اس لیے نہیں کرسکتے کہ اس نے صرف بھگوا ہی نہیں بلکہ سارے رنگوں کا نیم عریاں لباس پہنا ہے۔
اچھا اگر ایسا ہے تو مجھ جیسا رام بھگت وہ فحش نغمہ کیسے دیکھ سکتا ہے؟
دیکھ نہیں سکتا تو سن لے اس کی آڈیو بھی موجود ہے یا گوگل پر اس کے الفاظ پڑھ بھی سکتا ہے لیکن تم لوگوں کی اس کی فرصت کہاں ہے ؟
ہاں بھیا ہم سیدھے سادے لوگ ہیں زیادہ تفتیش نہیں کرتے اور اس طرح کی اباحیت و فحاشی سے دور ہی رہتے ہیں ۔
یہ پروچن تم کسی اور کو دو کیا سمجھے۔میں تمہارا کالج کے زمانے سے دوست ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ تم بس نام کے کلن شرما ہو۔
اچھا وہ چھوڑو اور یہ بتاو کہ اگر شاہ رخ خان اس ایک منظر میں بھگوا رنگ نہیں دکھاتا تو اس کا کیا نقصان ہوتا ؟
بہت بڑا خسارہ ہوتا۔ تم جیسے احمق مخالفت نہیں کرتے اور وہ نغمہ اس قدر مشہور نہیں ہوپاتا۔
لیکن کیا کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر اپنا کاروبار چمکانا اچھی بات ہے؟
دیکھو بھیا آج کل سیاست کا کاروبار بھی تو ایسے ہی چمکایا جاتا ہے۰۰۰۰
کلن بولا لیکن اس سے مذہب کی توہین تو نہیں ہوتی ؟
کیوں نہیں ہوتی جب بھگوا پہن کر احتجاج کرنے والےبابا رام دیو کو پکڑنے پولیس آئی تو وہ بھگوا وستر پھینک کرعورت کے بھیس میں فرار ہوگیا۔
ہاں یار لیکن یہ تو بابا جی کی مجبوری تھی ۔ شاہ رخ پر کون سا دباو تھا جو اس نے ایک فحش نغمہ میں بھگوا رنگ استعمال کرلیا ۔
جی ہاں شاہ رخ کو فحاشی سے دور رہنا چاہیے لیکن رام دیو نے بھی تو بھگوا لباس میں بغیر کسی مجبوری کے کہہ دیا کہ عورتیں بے لباس بھی اچھی لگتی ہیں ۔
کیا بات کرتے ہو للن ! اس بیوقوف نے ایسا کہا تو وہاں موجود خواتین نے اسے پیٹا نہیں ؟
جی نہیں مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ فڈنویس کی بیوی اسی اسٹیج پر بیٹھ کر مسکرا تی رہی۔ انہوں نے اعتراض تک نہیں کیا۔
یار اگر ایسا ہے تب تو شاہ رخ سے زیادہ بھگوا کی توہین رام دیو بابا نے کی ہے ۔
جی ہاں میرا یہی سوال ہے کہ تم لوگ اس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے ؟
وہ ایسا ہے ناللن ہم بڑوں کے کہنے پر یہ سب کرتے ہیں ۔ وہ کہیں گے تو اپنی جان دے دیں گے ورنہ چپ چاپ گھر میں بیٹھے رہیں گے۔
یار کلن شرما سچ تو یہ ہے بھگوا رنگ کو شرمندہ کرکے تم لوگ شاہ رخ جیسوں کا بھلا کردیتے ہیں ۔
ہاں یار للن اب جبکہ تم نے میرے آنکھوں سے پٹی ّ ہٹا ہی دی ہے اس لیے میں سب سے پہلے بےشرم رنگ دیکھوں گا ۔
للن بولا یہ ضروری نہیں ہے ۔ تم اسے پڑھ یا سن بھی سکتے ہو۔ خیر تمہاری مرضی ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226027 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.